روحانی سفر اور کچھ تلخ باتیں

جمعہ 1 مئی 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

طویل عرصے کے بعد وہ یادیں ایک بار پھر زندہ ہوئیں جن کے اوپر شدید مصروفیات کی گرد جم چکی تھی۔جب ہر جمعرات کی صبح امی جی کے ساتھ حضرت علی ہجویر  کے مزار پر حاضری نصیب ہوتی ۔ بچپن کے خوبصورت دور میں ٹھنڈے اور صاف فرش پر دو زانو بیٹھ کے مزار کی چھت پر بیٹھے کبوتروں کے غول کو تا دیر دیکھتے رہنا،قبر شریف کے عقب میں مو جود پانی کی سبیل سے اپنی پیاس بجھانا اور امی جی کو قر آن کی تلاوت کرتے دیکھنا اورپھر نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی دنیا کی کوئی بھی فکر ستانے اور کئی اداسیوں کو اپنے سینے میں بھاری بھر پتھر کی طرح رکھ کے مسجد کے صحن میں بیٹھ کر کئی کئی دیر آسمان پر دیکھ کر اپنے اللہ سے ہمکلام ہو نا اورپھر کچھ ہی دیر بعد اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر نے والے، ذہن پر نقش، یہ منظر کئی دنوں بعد پھر تازہ ہو گئے تھے جب ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کی خصوصی محبت اور مہربانی کی وجہ سے حضرت ہجویر  کی قبر اطہر پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔

(جاری ہے)

ایک عجب رو حانی کیفیت کا سامنا تھا جسے لفظوں میں بیان کر نا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔
قارئین !حضرت علی ہجویر مزار شریف پر صبح سے شام انوار و تجلیات کی ایسی بارش برس رہی ہوتی ہے کہ مجھ جیسے دنیا کی تمناؤں کو پالنے کی وجہ سے بے سکونی کے زاب مین مبتلا لوگ بھی یہاں سے سکون، راحت اور ایمان کی تازگی کا انعام لے کر رخصت ہوتے ہیں۔


حالا ت کی ستم ظریفیوں کے ڈسے، در در کی ٹھوکرے کھاتے ،کتنے لوگ ہیں جن کی یہاں دلی آرزوئیں پو ری ہوتی ہیں اور سب سے بڑی بات کہ روزازنہ ہزاروں کی تعداد میں غریب و سفید پوش خلق خدانہ صرف اپنی بھوک مٹا تے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کے لئے بھی یہاں سے کھانا لے کر جاتے ہیں۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ مزار شریف کے انتظامی معاملات پہلے سے کئی زیادہ بہتر دکھائی دے رہے تھے، صفائی ستھرائی، سیکو رٹی، زائرین کی خدمت میں مصروف مستعد عملہ ،لنگر خانے کا وسیع و عریض ہال، اپنے اندر قال اللہ و قال الرسول ﷺ کی صدائیں سموئے، جامعہ ہجویریہ کی پُر شکوہ عمارت، کانفرنس ہال اور تما م شعبہ جات کے دفاتر الگ ہی منظر پیش کر رہے تھے ۔


میں اگر یہاں سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے سیکریٹری اوقاف و مذہبی امور شہر یار سلطان اور ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کا ذکر نہ کروں تو زیادتی ہو گی ۔ان کی شبانہ روز محنت اور ایمانداری کی وجہ سے اوقاف کا محکمہ جو کسی دور میں کرپشن کا گڑھ مانا جا تا تھا وہاں کرپشن کا نام و نشان نہیں رہا ہے اور یقینا انتظامی معاملات میں بہتری کا سہرا بھی ان دونوں کے سر ہی جا تا ہے۔


قارئین محترم !اُس روز محکمہ اوقاف کی طرف سے پاکستان کے دورے پر آئے امام کعبہ کو بادشاہی مسجد میں نماز مغرب پڑھانے کی دعوت دی گئی تھی، میری بھی دلی خواہش تھی کہ ان کے پیچھے کوئی نماز پڑھی جائے ۔لہذا اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے مزار شریف پر حاضری کے فوراََ بعددوستوں کے ہمراہ بادشاہی مسجدپہنچ گیا۔
ابھی سورج کی تمازت اپنے عروج پر تھی لیکن اس کے باوجود کئی دیوانے مسجد کے تپتے صحن میں اپنی اپنی نشستے سنبھالے بیٹھے تھے۔

میرا بھی ان لوگوں کی طرح روحانی ”سوئچ “ بھی چو نکہ حرم ِکعبہ اور روضہ رسول ﷺ سے جڑا ہو اہے اس لئے اما م کعبہ کے پیچھے نماز اور انہیں ایک جھلک دیکھنے کی آرزو ان لوگوں کویہاں لے آئی تھی۔ لیکن مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ جہا ں اما م کعبہ کو ان سے دیوانہ وار محبت رکھنے والے لوگوں میں ہو نا چاہئے تھا وہاں ایک خا ص طبقہ انہیں ” ہائی جیک“ کئے رہا ۔


کیا ہی اچھا ہو تا کہ امام کعبہ ان لوگوں کے چنگل سے آزاد ہو کے عام عوام میں جاتے اور بلا تفریق مسلک مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ،پاکستان سمیت پوری دنیا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کی ضرورت پر زور دیتے،فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی اہمیتکو اجاگر کرتے تو یقین جانئیے اس کے ایسے ثمرات دیکھنے کو ملنے تھے کہ دنیا ششدر رہ جاتی۔
کاش کہ ہوٹل کے کمرے سے پارلیمنٹ کی عمارت تک ان سے چمٹے لوگوں کواپنے مفادات کی بجائے” اتحا د بین المسلمین “ عزیز ہو تا اوریہ لوگ کعبہ شریف میں ”اللہ اکبر“ کی صدائیں لگاتے اما م کعبہ کو دیوانوں کی طرح ان کی ایک جھلک دیکھنے والے عام شہریوں کے درمیان رہنے کا بھی ایک موقع فراہم کرتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :