کیفیات

جمعہ 1 مئی 2015

Dr Mansoor Ahmad Bajwa

ڈاکٹر منصور احمد باجوہ

ایک زمانہ تھا کہ سائیکل بھی نہیں تھا۔کاریں اُس زمانے میں ،پورے شہر میں اکا دکا ہی ہوتی تھیں۔موٹر سائیکل بھی کم کم ہی تھے۔اس وقت پیدل چلتے ہوئے، مجھے سائیکلوں والے بہت بُرے لگتے تھے۔وقتاًفوقتاًمییرے منہ سے اس قسم کی باتیں نکلا کرتی تھیں۔۔’اندھوں کی طرح سائیکل چلاتے ہیں،‘دیکھتے نہیں سامنے سے کوئی آ رہا ہے‘،’جدھر چاہتے ہیں موڑ دیتے ہیں‘،کیا تمہاری بریکیں نہیں ہیں؟‘’ یہ خبیث کدھر سے آ گیا ہے؟‘میرا بس نہیں چلتا تھا ورنہ دل تو یہی چاہتا تھا کہ جسے سائیکل پر دیکھوں اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دوں اور اس کے سائیکل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔

اس سے پہلے کہ میری یہ آرزو پوری ہوتی ،میرے پاس سائیکل آ گیا۔کمال یہ ہوا کہ اب مجھے سائیکل والے بُرے نہیں لگتے تھے۔

(جاری ہے)

برا لگنا تو دور کی بات ہے سارے سائیکل والے مجھے اپنے ’سائیکل بھائی‘ لگتے تھے اور میرا دل چاہتا تھا کہ ہر سائیکل والے کو روک کر اس کا حال احوال پوچھوں،کچھ اپنے سائیکل کی بات کروں، کچھ اس کے سائیکل کی پوچھوں۔البتہ یہ ہوا کہ ایک طرف موٹر سائیکل سواروں کو دیکھ کر میری طبیعت خراب ہو جاتی تھی کہ شوں کرکے کبھی ادھر سے نکل جاتے ہیں، کبھی اُدھر کا رُخ کر لیتے ہیں، ہارن پر ہارن دیتے ہیں،سائیلنسر نکال کر کان پھاڑے دیتے ہیں،جب چاہے دھڑ سے سائیکل میں آ مارتے ہیں، پھر دانت نکالتے ہوئے، تمسخر کرتے، بے حیائی کے ساتھ ہوا ہو جاتے ہیں۔

دوسری طرف پیدل چلنے والے بھی مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔گپیں لگاتے، بے فکری سے ہاتھ ہلاتے،ہاتھوں پر ہاتھ مارتے ،سڑک پر ایسے جاتے ہیں جیسے کمپنی باغ کی سیر کر رہے ہوں۔اس بات کا ذرا خیال نہیں کہ پیچھے سائیکل والا گھنٹیوں پر گھنٹیاں دے رہا ہے۔ جہاں چاہا ایک دم رک گئے۔ اب سائیکل دونوں ٹانگوں کے بیچ میں جا پھنسا ہے تو معافی مانگنے کی بجائے آنکھیں دکھا رہے ہیں۔

چلتے ایسے چوڑے ہو کر ہیں جیسے ان کے باپ دادا کی سڑک ہو یا اماں جان جہیز میں لائی ہوں۔
یونیورسٹی تک پہنچے تو گھر والوں کے پیچھے پڑ کر موٹر سائیکل لیاتو یہ راز کھلا کہ پیدل چلنے والے تو بدتمیز ہیں ہی، یہ سائیکلوں والے بھی کم نہیں۔ ٹریفک سینس توا ن میں نام کو نہیں۔ چالان کا ان کو فکر نہیں۔سائکل لہراتے ہوئے ایسے چلاتے ہیں جیسے ساری سڑک کا انتقال اپنے نام کرا لیا ہو۔

نہ گھنٹی ہے، نہ لائیٹ۔ سائکل کے کتے فیل ہیں، بریک بس نام کی ہے، لگاتے یہاں ہے ،لگتی جا کر اگلے چوک میں ہے،اور اس پر مستزاد ، بھرے بازار میں ،ہاتھ چھوڑ کر چلانے کی مشق کر رہے ہیں کبھی کسی خاتوں سے جا ٹکرائے، کبھی کسی بزرگ میں جا لگے، اور کبھی خود ،چاروں شانے چِت، عین سڑک کے درمیان،ٹانگیں پسارے، بے شرموں کی طرح پڑے ہیں۔یہ بھی علم نہیں کہ دھوتی اپنی جگہ پر ہے یا نہیں۔

اب گالیاں بے چارے موٹر سائیکل والے کو دے رہے ہیں کہ بروقت بریک نہیں لگائی۔بھئی! اُس بیچارے کی نگاہیں تو زنانہ کالج کی طرف تھیں، تم درمیان میں کہاں ٹپک پڑے۔تمہیں نہیں پتہ تھا کہ جوانی کا خمار، موٹر سائیکل پر سوار آ رہا ہے۔ایک طرف ہو جاتے، سڑک کے کنارے کنارے چلتے بلکہ بہتر تھا فٹ پاتھ پر ہی رہتے۔ اس میں موٹر سائیکل والے کا کیا قصور ہے؟
اس دوران ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ کار سواروں سے زیادہ متکبر اور فرعون شائد ہی کوئی ہو۔

حرام کی کمائی سے کار کیا لے لی کہ دوسروں کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ دیا۔ذرا دیکھنا گوارا نہیں کیا کہ موٹر سائیکل والا،بائیں کا انڈیکیٹردے کر دائیں مڑ گیا ہے، دھم سے اٹھا کے پٹخ دیا۔ بھئی سامنے موٹر سائیکل جا رہا ہے، نوجوان ہے، تم خود ہی خیال کرو، انڈیکیٹر کے دائیں بائیں کی غلطی تو اس عمر میں ہو ہی جاتی ہے۔ اگر انڈیکیٹر نہ بھی دیتا تو تم کیا کر سکتے تھے۔

شکر نہیں کرتے کہ اس نے انڈیکیٹر کو موٹر سائیکل پر رہنے دیا ہے۔پھر بجائے اس کے کہ نوجوان کو اٹھائے، اسے تسلی تشفی دے، دوچار ہزار اس کی جیب میں ڈالے؛اپنی گاڑی کی چار پیسے کی ٹوٹی ہوئی ہیڈ لائیٹ،ٹیڑھے بمپر اور ایک چھوٹے سے چار فٹ کے ڈنٹ کو دیکھے جا رہا ہے۔ابھی پرچہ ہو جائے تو دس بیس ہزارسے کم میں جان نہیں چھوٹے گی۔انسانی جان کی تو ان کی نظروں میں مکھی جیسی وقعت بھی نہیں۔

آتی جاتی لڑکیوں پر آوازے کس رہے ہیں، دوپٹے کھینچ رہے ہیں،میوزک والیوم اتنا ہے کہ جیسے سارے شہر کو سنانے کا ارادہ ہو۔ ساتھ خود گاڑی کم چلا رہے ہیں، مٹک زیادہ رہے ہیں۔ اگر ایسی حرکات کوئی موٹر سائیکل والا کرے تو چلو نوجوان ایسی چھوٹی موٹی شرارتین کرتے ہی رہتے ہیں، مگر کار اور پھر یہ کمینی حرکات،تف ہے۔خدا انہیں غارت کرے کار کیا مل گئی ہے،دماغ آسمان پر پہنچ گیا ہے۔

انسان کو انسان سمجھتے ہی نہیں۔میرا دل یہ چاہتا تھا کہ جو کار والا سامنے آئے، سڑک سے ایک موٹا سا پتھر اٹھاؤں اور لگاؤں سالے کی گاڑی کی ونڈ سکرین کے عین درمیان میں۔جلسے جلوسوں میں کبھی کبھار یہ موقعہ مل بھی جاتا تھا۔ جب کار والا ، پتھروں سے اپنے سر کو بچاتا، دُم دبا کر بھاگتا، یا جھلسی ہوئی کار کو دیکھ کر ٹسوے بہاتاتو دل باغ باغ ہو جاتا۔

آج آیا ہے مزہ اسے باپ کی حرام کی کمائی کا رعب ڈالنے کا۔اب کار میں بیٹھے کا تو سوچ سمجھ کر بیٹھے گا۔
موٹر سائیکل سے کار کا سفر کرنے میں ہمین ربع صدی لگی۔اس سارے عرصے میں ہماری جملہ ہمدردیاں موٹر سائیکل والوں کے ساتھ تھیں اور پیدل چلنے والوں، سائیکل سواروں اور کار والوں کے خلاف، ان کی نامعقول حرکات کی بنا پر، ہمارے دل میں غبار ہی رہا۔

ہمارا دل تو یہی چاہتا تھا کہ کوئی ایسا قانوں ہو کہ ان سب کے سڑک پر آنے پر مکمل پابندی ہو مگر خوش قسمتی سے ہماری یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ خوش قسمتی کا لفظ ہم نے اپنے لئے بولا ہے کہ ہم خود ’بے کار ‘ سے صاحبِ کار ہو گئے۔تب ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ دنیا میں سواری اگر کوئی ہے تو کار ہی ہے۔اب ذرا غور کریں کہ موٹر سائیکل بھی کوئی سواری ہے کہ جس میں موٹر کی کوئی خوبی نہیں اور سائیکل کی ساری خرابیاں ہیں۔

گرمیوں میں لُو اور تپش سے برا حال اور سردیوں میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ اب سوچا تو معلوم ہوا کہ سائیکل تو خیر کمی کمین کی سواری ہے ہی، موٹر سائیکل چلانا بھی صرف چھچھوروں کا کام ہے۔اب تو ویسے بھی ہر للو پنجو موٹر سائیکل دبائے پھر رہا ہے۔لوگوں کو دیکھو۔ بچے پیدا بعد میں ہوتے ہیں، موٹر سائیکل پہلے ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ستر سی سی کا موٹر سائیکل ہے اور اس پر پانچ پانچ ایسے،ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ ٹنکی کہاں شروع ہوئی اور گدی کہں ختم ہو گئی۔

ہینڈل ایک کے ہاتھ میں ہے، بریک دوسرے کے قابو میں،کلچ پر کسی اور کا ہاتھ ہے، ایکسیلیٹر کوئی اور دبا رہا ہے۔ پانچواں بھی ضرورکوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دے رہا ہوگامگر اس کی ہمیں خبر نہیں۔ نام نہاد سفید پوشوں کو دیکھو ، پورے کا پورا خاندان اس پر اٹھائے پھرتے ہیں۔
صاحبو! بات یہ ہے کہ اس وقت ہمیں کار اور کار سواروں کے سوا کوئی اچھا نہیں لگتا۔ ہاں!ایک بات ضرور کہیں گے کہ کار ہزار سی سی کی ہو ،زیادہ سے زیادہ تیرہ سو سی سی کی۔ یہ جو پچاس پچاس لاکھ کی،تین تین ہزار سی سی ، جہاز نما گاڑیوں پر فرعون نظر آتے ہیں یا جہازوں پر اڑتے پھرتے ہیں،ان کی تو۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :