مفتی راج کا کشمیر…!

بدھ 29 اپریل 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

گو کہ حریت لیڈر مسرت عالم بٹ کی گرفتاری پر بعض غیر کشمیری سیاستدان ٹیلی ویژن چینلوں کو مبارکباد دینے کے جیسی بچگانہ حرکات سے یوں تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے ہاتھ سے گئے کشمیر کو دوبارہ فتح کیا گیا ہو لیکن کشمیر مختصر سی خاموشی کے بعد پھر جلتے دکھائی دینے لگا ہے۔” بم سے نہ گولی سے ،بات بنے گی بولی سے“کا نعرہ لگانے والے مفتی محمد سعید کی سرکار کے ابتدائی دنوں میں ہی معصوموں کاخون بہنے لگا ہے اور بات پھر واضح ہو رہی ہے کہ ایوانِ اقتدار میں چہروں کی تبدیلی سے کشمیر کی صورتحال میں تبدیلی ممکن نہیں ہو سکتی ہے۔

ایک شاطر،زیرک اور دم دار سیاستدان کی پہچان رکھنے والے مفتی محمد سعید جیسے وزیرِ اعلیٰ کی جو الیکٹرانک میڈیا نے درگت بنائی ہے اور جس طرح سے اُنہیں مجبور کیا جانے لگا ہے اُس سے جموں و کشمیر سرکار کی حیثیت پر سوال اُٹھنے لگے ہیں اور پہلے سے موجود احساسِ بے گانگی میں کئی گنا اضافہ ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)


جس کشمیر میں 70/فیصد ووٹنگ ہونے کو لیکر بعض کوتاہ اندیشوں نے یہاں تک،کہ کشمیر اب علیٰحدگی پسندی کی سوچ سے لوٹ کر اب جمہوریت کی دیوی کے قدموں میں سر رکھ کر پشیمانی اور ندامت کا اظہار کرنے لگا ہے ،اندازے لگائے تھے وہیں آج پھر سے بے چینی کی لہریں رواں ہیں۔

مسرت عالم بٹ کی، چار سال کی نظربندی کے بعد،رہائی پر ٹیلی ویژن چینلوں اور پھر نئی دلی میں حزبِ اختلاف و حزبِ اقتدار کے مشترکہ مگر بے جا ہنگامہ نے گویا قرار سے بہہ رہے ایک دریا میں ارتعاش پیدا کر دیا۔بٹ کی رہائی ،جو برسوں پر محیط عدالتی کارروائی کے نتیجہ میں روبہ عمل آئی تھی،پر یہ ہنگامہ کیوں کرنا تھا اور اس سے کیا حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی یہ سوال بہر حال واضح جواب رکھنے کے باوجود بھی تشنہٴ جواب ہے۔

ہفتوں جاری رہنے والی اس ہنگامہ آرائی نے کشمیر میں جن کانٹوں کے بیچ بوئے تھے وہ تب ایک طاقت ور کھاد پاتے محسوس ہوئے کہ جب جنوبی کشمیر کے ترال علاقہ میں فوج اور مقامی پولس نے ایک سرگرم جنگجو کمانڈر کے بے گناہ بھائی خالد مظفر کو ،مبینہ طور،دورانِ حراست قتل کر دیا۔خالد کے والد نے نامہ نگاروں اور اُنہیں پُرسہ دینے آئے ہزاروں لوگوں کے مجمعہ میں بھی بتایا کہ اُنہوں نے اپنے بچے کی لاش کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھا لیکن کہیں گولی کا کوئی نشان نہیں تھا کہ جس سے فوج کی اِس دلیل کو مانا جا سکتا ہے کہ مذکورہ اُنکے بھائی اور فوج کے مابین ہوئی ”کراس فائرنگ“کی زد میں آگیا ہے۔


فوج نے خالد کو مار ڈالنے کے بعد پہلے اُنہیں جنگجو قرار دیا تھا تاہم جب یہ عقد کھلا کہ وہ ایک سرگرم جنگجو نہیں بلکہ عام نوجوان ہے تو پھر کہانی کو ایک نیا رنگ دینے کے لئے یہ کہا گیا کہ خالد در اصل اپنے بھائی اور مطلوب ترین جنگجو کمانڈر برہان عرف عارف خان کے ساتھ جنگل میں ملنے گیا تھا اور اسی دوران فوج کا چھاپہ پرا اور وہ گولیاں کے تبادلے میں آکر مارے گئے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ فوج نے یہ بھی الزام لگانا چاہا کہ اکانومکس میں ایم اے کی ڈگری کے حامل کالد در اصل اپنے بھائی کی تنظیم حزب المجاہدین کے بالائے زمین کارکن تھے حالانکہ اس الزام کی مقامی آبادی اور نہ پولس نے ہی کسی ثبوت کے ساتھ تصدیق کی ہے۔ایک کھاتے پیتے گھرانے کے چشم و چراغ برہان مظفر 5/سال قبل محض 16/سال کی کچی عمر میں اچانک ہی بندوق اُٹھانے پر کیسے آمادہ ہو گئے ،وہ اپنے آپ میں ظلم کی ایک الگ داستان ہے جس پر الگ سے موضوع مخصوص کیا جا سکتا ہے۔


فوج کی بدلتی دعویداری اور پھر خالد کے جسم پر گولی کا کوئی نشان نہ ہونے سے یہ اندازہ غالب ہوگیا کہ مذکورہ کو دورانِ تشدد قتل کر دیا گیا ہے۔اس واقعہ کو لیکر سینکڑوں دیہات پر مشتمل ترال علاقہ کے ساتھ ساتھ وادی بھر میں احتجاج ہوا۔بم اور گولی کی بجائے بولی سے بات بنانے نکلے وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید کے دو ایک ماہ پُرانے دورِ اقتدار میں یہ کسی عام شہری کی سرکاری فورسز کے ہاتھوں پہلا قتل تھا۔

دلچسپ مگر افسوسناک ہے کہ محض چند روز قبل مسرت عالم کی مطابقِ قانون رہائی پر آسمان سر پر اُٹھا چکی ٹیلی ویژن چینلوں نے خالد مظفر کے قتل میں شائد کچھ بُرا نہ پایا ورنہ اس پر ”پرائم ٹائم“میں ضرور بات کی جاتی۔اس دوران حریت کانفرنس کے بزرگ چیرمین سید علی شاہ گیلانی نئی دلی میں کئی ماہ کے قیام کے بعد وادی لوٹ آئے تو اُنکی پارٹی نے ایک جلسہٴ استقبالیہ کا انعقاد کیا جو کہ ایک عام سی بات ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سید گیلانی کئی عارضوں میں مبتلا رہنے کی وجہ سے سردیاں برداشت کرنے سے قاصر ہیں اور یہی وجہ بتائی جاتی ہے کہ گذشتہ کئی سال سے سردیوں میں نئی دلی منتقل ہوکے وہاں اُنکا قیام معمول ہو گیا ہے۔چناچہ اُنکے استقبالیہ جلسہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور اُنکی آمد پر جہاں اُنکی ذات کی مدح سرائی میں نعرہ بازی کی گئی وہیں ”کشمیر کی آزادی“اور پاکستان کے حق میں بھی نعرے بلند کئے گئے۔

جلسے میں نوجوانوں کی ایک ٹولی پُرجوش انداز میں پاکستان کے ساتھ مسلمانوں کے کلمہٴ طیبہ کا رشتہ ہونے کا اظہار کر رہے تھے جبکہ بعض نوجوانوں نے پاکستانی پرچم بھی اُٹھا رکھے تھے۔اپنی تقریر میں سید علی شاہ گیلانی نے کوئی بڑی بات نہیں کی بلکہ ترال میں خالد مظفر کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ تعزیت کے لئے ”ترال چلو“کی کال دیکر لوگوں کو اس کال کو کامیاب بنانے کی ہدایت کی۔

ہوئی اڈے سے سید گیلانی کی حیدرپورہ میں واقع رہائش گاہ تک کے دو ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر شرکاءِ جلوس رقص کرتے ہوئے اپنے لیڈر کا استقبال کر رہے تھے اور اس تقریب کو سید کی مختصر تقریر کے ساتھ اختتام ہونا تھا۔ہوا بھی ایسا ہی کہ نعرہ بازی کرتے ہوئے لوگ اپنے لیڈر کی تقریر سُن کر اپنی راہوں کو ہو لئے اور امن و قانون کی کسی پریشانی کے بغیر معاملے آیا گیا ہوا۔


یہاں سید گیلانی کا جلسہ ختم ہوا اور وہاں خود کو شاہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کے فراق میں اور ”ٹی آر پی “کے گراف کی بُلندی سے آگے بڑھکر نہ سوچنے کی قسم اُٹھا چکی ٹیلی ویژن چینلوں نے ہنگامہ کیا۔جیسا کہ ایک حریت لیڈر نے بتایا”ٹیلی ویژن چینل دیکھنے پر خود ہمیں بھی لگ رہا تھا کہ جیسے کچھ بڑا ہو گیا ہے حالانکہ عجلت میں بلایا گیا ایک عام سا جلسہ تھا جس میں امن و قانون کا کوئی مسئلہ بھی پیدا نہ ہوا اور سب کچھ پُر امن رہا تھا“۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ کشمیر سے باہر ٹیلی ویژن چینلوں نے جو شورو غوغا اُٹھا یقیناََ حریت کو اُسکا اندازہ بھی نہ تھا اور یہ عام سا جلسہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت ”اہمیت“کا حامل ہو گیا۔ایس فقط وہی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ مذکورہ جلسہ سے ایک دن قبل میں نے خود بھی ایک وٹس ایپ گروپ میں،جہاں حالانکہ سید گیلانی اور علیٰحدگی پسندسوچ کے حامل افراد کا غلبہ ہے،اس جلسہ کے انعقاد کے لئے ناراضگی اور تنقید کا اظہار ہوتے دیکھا۔

گروپ میں خود سید گیلانی کے حامی ناراضگی کے اظہار کے ساتھ کہہ رہے تھے”یہ جلسہ کیوں،اس میں گیلانی صاحب کو قوم سے یہ کہنا ہوگا کہ سردیوں کے دوران وہ دلی کے گرم ماحول میں کیسے آرام فرما رہے تھے“۔اتنا ہی نہیں بلکہ سید گیلانی پر خود اُنکے حامی اس سے بھی بڑھکر تنقید کر رہے تھے اور مذکورہ جلسے کو غیر ضروری بتا رہے تھے تاہم ٹیلی ویژن چینلوں کی مہربانی کہ پھر انہی ناقدین کو اسی جلسے کو ”تحریک کے لئے آبِ حیات“ہونے کا تجزیہ کرتے دیکھا گیا۔

ان ناقدین میں سے ایک،جو خاصے پڑھے لکھے ہیں،سے میں نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر جلسے کے بعد یوں پوچھا”آپکو جلسہٴ استقبالیہ سے بڑا اعتراض تھا،اب اس فضول کے جلسہ پر آپکا کیا خیال ہے؟“تو انہوں نے جواب دیا”اس(جلسے)کی اہمیت ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے حد سے زیادہ ردِ عمل سے بڑھ گئی ورنہ اس میں کوئی اہم خلاصہ ہوا نہ اعلان،لیکن یہ ضرورہے کہ ذرائع ابلاغ کے اس بے جا رد عملسے کمزور ہوئی تحریک میں نئی زندگی کی رمق ڈالدی ہے جس سے دل کو حوصلہ ملا ہے“۔


کچھ نیا کرنے اور علیٰحدگی پسندوں کو سلیقے سے کنارے کرنے کے ارادوں کے ساتھ میدان میں آئے مفتی محمد سعید سے اُمید تھی کہ وہ ”ترال چلو“کو ناکام کرنے کے لئے طاقت کا استعمال نہیں کرینگے بلکہ اس پروگرام کو لوگوں کے موڈ کی اسکیل پر ماپتے ہوئے بے وقعت ہونے کا موقعہ دینگے۔جس طرح سے وادی میں مدت بعد ایک کامیاب الیکشن ہوا ہے اور اب مہینوں ہوئے لوگوں نے علیٰحدگی پسند سرگرمیوں میں پہلے کی طرح جوش نہیں دکھایا ہے،خیال کیا جاتا تھا کہ 2008اور2010کے برعکس اب ادھر چلو یا اُدھر چلو کی کال بہت کامیاب نہیں رہے گی۔

مبصرین کا اندازہ تھا کہ مفتی سعید علیٰحدگی پسندوں کو کھلا چھوڑینگے البتہ چاہیں گے کہ عام لوگوں کو یوں اقتصادی اور اس طرح کی سرگرمیوں میں الجھائے رکھا جائے کہ علیٰحدگی پسند اپنے پیچھے کسی کاروان کو نہ ڈھونڈ پائیں اور سلیقے سے غیر متعلق ثابت ہو جائیں۔تاہم مذکورہ بالا ٹیلی ویژن چینلوں کے شوروغوغا اور بے جا ہنگامہ کی تاب نہ لاتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید اپنے تجربے پر بھروسہ رکھ پائے اور نہ نیا کرنے کی سوچ پر انحصار بلکہ بیٹے کی عمر کے اپنے پیش روعمر عبداللہ کے طریقے کی جانب لوٹنے پر مجبور ہو گئے۔

”ترال چلو“کی کال کو ناکام بنانے کے لئے سید علی شاہ گیلانی اور مسرت عالم بٹ سے لیکر ادنیٰ سے ”قائدین“تک سبھی کو اُنکے گھروں میں بند کرکے کے علاوہ ترال علاقہ کو سیل کر دیا گیا۔علیٰحدگی پسندوں کو اس بات کے لئے مذکورہ چینلوں کے تئیں جذبہٴ تشکر ہو سکتا ہے کہ کسی امتحان میں بیٹھے بنا بھی یہ لوگ ترال چلوکے پرچے میں امتیاز کے ساتھ کامیاب قرار پائے۔


اُدھر ترال میں خالد مظفر کے قتلِ ناحق کے لئے احتجاج جاری تھا اور وادی بھر میں غم و غصہ کہ کشمیر کی زمینی صورتحال کا ادراک نہ رکھنے والے ذرائع ابلاغ نے مفتی اینڈ کمپنی پر اس طرح کا دباوٴ بڑھایا کہ وہ ماہ بھر قبل چھوڑے گئے مسرت عالم بٹ کو گرفتار کرنے پر آمادہ ہو گئی۔
اُدھر ترال میں خالد مظفر کے قتلِ ناحق کے لئے احتجاج جاری تھا اور وادی بھر میں غم و غصہ کہ کشمیر کی زمینی صورتحال کا ادراک نہ رکھنے والے ذرائع ابلاغ نے مفتی اینڈ کمپنی پر اس طرح کا دباوٴ بڑھایا کہ وہ ماہ بھر قبل چھوڑے گئے مسرت عالم بٹ کو گرفتار کرنے پر آمادہ بلکہ مجبور ہو گئی۔

مسرت عالم کی گرفتاری پر ،اسکے لئے پرائم ٹائم میں اپنی ساری طاقت لگانے والے میڈیا،اور سیاسی جماعتوں میں ایک طرح کا احساسِ فتح ہے تاہم مفتی محمد سعیدکا علیٰحدگی پسندوں کو غیر متعلق کرکے خود کو ایک طاقتور سیاستدان ثابت کرنے کا منصوبہ بُری طرح ناکام ہو گیا ہے۔مسرت عالم بٹ کو17/اپریل کی صبح سرینگر کے ضلع کمشنر کے دفتر واقع ٹنکی پورہ کے بغل والی زینہ دار محلہ بستی کے گھر سے جموں و کشمیر پولس کی ایک جمیعت نے گرفتار کر لیا ۔

اس سلسلے میں جاری ہوئے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ بٹ کو سید گیلانی کے جلسہٴ استقبالیہ میں نوجوانوں کو ،ہند مخالف اور پاکستان نواز نعرے لگانے اور پاکستانی پرچم لہرانے کے لئے،اُکسانے میں ملوث پایا گیا ہے۔
44/سال کے شعلہ بیان مقرر اور سرگرم علیٰحدگی پسند مسرت عالم بٹ کو 2010کی عوامی تحریک کے دوران گرفتار کئے جانے کے بعد ماہ بھر قبل ہی چھوڑا گیا تھا جسکے لئے مفتی محمد سعید نے کریڈٹ لینے کی کوشش کی تھی اور اس رہائی پر بیرونِ کشمیر اٹھے شوروغوغا کو بے جا بتایا تھا۔

مفتی سعید نے کہا تھا کہ چونکہ مسرت عالم کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے لہٰذا اُنہیں دوبارہ گرفتار کرنا ممکن نہیں ہوگا تاہم سید گیلانی کے جلسہٴ استقبالیہ کے دوران پاکستان کے حق میں ہوئی نعرہ بازی کو لیکر دلی کے شدید دباوٴ کے نتیجے میں سید گیلانی کے علاوہ مسرت عالم اور دیگراں کے خلاف”اشتعال انگیزی“اور پاکستانی پرچم لہرانے کے جُرم میں معاملہ درج کر لیا تھا۔


مسرت عالم نے گرفتاری کے وقت ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی معذرت ظاہر نہ کرتے ہوئے مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کو معمول بتایا اور کہا”اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،یہ سب تو ہوتا رہتا ہے اور اس سے ہماری تحریک پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا“۔اُنہوں نے دہرایاکہ”اگرچہ اس میں کچھ غلط نہیں ہے تاہم میں نے کوئی پرچم ہاتھ میں نہیں لیا تھا بلکہ جلوس میں شامل کئی لوگوں کے ہاتھوں میں(پاکستانی)جھنڈے تھے جو کشمیریوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے“۔

اُنہوں نے مزید کہا”گرفتاریوں اور دھونس دباوٴ سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے،ریاست کی جانب سے ہمارے ساتھ دہائیوں سے طاقت کے بل بوتے پر نپٹا جاتا رہا ہے لیکن اس سے وہ ہمیں اپنے مقصد سے نہیں ہٹا پائے ہیں“۔نوجوانوں میں خاصے مقبول مسرت عالم کی گرفتاری کو لیکر کشمیر میں ناراضگی کی لہر سی دوڑ گئی ہے کہ نمازِ جمعہ کے بعد سرینگر سمیت وادی کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں اور پتھراوٴ کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اپنے گھر میں نظر بند کئے گئے سید علی شاہ گیلانی نے سنیچر کے لئے کشمیر بند کی کال دی جو بعدازاں خاصی اثر انداز پائی گئی۔


مسرت عالم کی گرفتاری اور خالد مظفرکے قتل کے خلاف ہوئی ہڑتال تب ایک نئے احتجاج کی بنیاد بن گئی کہ جب سرینگر سے قریب25/کلومیٹر دور نارہ بل کے مقام پر پولس اور سی آر پی ایف نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے نویں جماعت کے ایک کمسن طالبِ علم سہیل احمد صوفی کو گولی مار کر جاں بحق کر دیا۔صوفی کے لواحقین نے اپنے بچے کے قتل کے چشم دید ہونے کے دعویٰ کے ساتھ کہا کہ مذکورہ بچے کو دو پولس والے کچھ دور گھسیٹ کر لئے گئے تھے اور پھر نزدیک سے اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔

محض چار دن کے وقفہ میں یہ کسی معصوم کا دوسرا قتل تھا۔
کھلے عام شائد وہ نہ مانیں،بلکہ ہر گز مانیں گے ہی نہیں ،لیکن اندر ہی اندر کہیں نہ کہیں علیٰحدگی پسندوں کو بھی اندازہ تھا کہ مفتی محمد سعید کی حکومت میں حراستی اموات اور اِس طرح کے واقعات شائد نہ ہو جائیں۔یہ الگ بات ہے کہ سہیل کے قتل کے الزام میں جموں و کشمیر پولس کے ایک افسر اور ایک اہلکار کو فوری طور گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن چار دنوں میں دو معصوموں کے قتل نے مفتی محمد سعید کے ”الگ“ہونے کے مفروضے کو بہر حال توڑ دیا ہے یا کم از کم یہ سبق پڑھایا ہے کہ چہروں کی تبدیلی جموں و کشمیر کی زمینی صورتحال کو نہیں بد ل سکتی ہے۔

پھر انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کی تحقیقاتوں کے حوالے سے کشمیریوں کا عام خیال یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات در اصل عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے وقتی حربے ہوتے ہیں کہ ابھی تک معلن درجنوں تحقیقاتی کمیشنوں نے شائد ہی کسی معاملے میں انصاف کرایا ہو۔تحقیقاتی کمیشنوں پر اعتماد ہو سکتا تھا کہ اگر 2010میں مارے گئے120/،افراد جن میں کمسنوں اور نوجوانوں کی کاصی تعداد شامل تھی،جنوبی کشمیر کے پتھری بل علاقہ میں غیر ملکی جنگجو بتاکر پانچ افراد کے قتل اور اس طرح کے دسیوں واقعات کی تحقیقاتیں کسی نتیجے پر پہنچی ہوتیں اور کسی ایک بھی واقعہ میں ملوث قاتل کو سزا ہو گئی ہوتی۔


سوال یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے صحافت کے نام پر شورشرابا کرنے والی نام نہاد نیوز چینلیں آخر ثابت کیا کرنا چاہتی ہیں اور حاصل کیا کرنا چاہتی ہیں۔ضرورت سے زیادہ ”حُب الوطنی“کا مظاہرہ کرنے والے نام نہاد صحافیوں میں پاکستانی پرچم لہرانے اور پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کرنے پر غصہ قابلِ فہم تو ہے لیکن پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشمیر میں اس طرح کے واقعات غیر معمولی ہیں اور نہ نئے۔

کشمیری تہذیب،یہاں کی سیاست اور یہاں کے مزاج سے شناسائی رکھنے والا تاریخ یا سیاست کا کوئی عام طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ یہاں کے لوک گیتوں میں آج بھی پاکستان کی تعریفیں ہوتی ہیں اور یہ ایک معمول ہے۔وادیٴ کشمیر کی شادیوں میں رواج کے مطابق دولہے کے سُسرال روانہ ہونے پر اُسکے لئے گایا جانے والا یہ گیت ”سبز دستارس نبی چھوئے راضی ،پاکستانُک غازی آوٴ“(سبز عمامہ سے پیغمبر خوش ہیں،یہ دیکھو پاکستان کا غازی آگیا ہے)زمانے کے تغیر و تبدیل اور بالی ووڈ کے گانوں کی جانب کشمیریوں کے میلان کے باوجود بھی outdatedنہیں ہو پایا ہے۔

ابھی حال ہی ٹیم انڈیا آسٹریلیا سے ہاری تو کشمیر میں جشن کا ماحول تھا اور پائین شہر میں کئی مقامات پر پاکستانی پرچم لہرانے کے واقعات نہ صرف رپورٹ ہوئے بلکہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر بہ زبانِ حال رپورٹ کرنے والی تصاویر بھی چھا گئیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ مفتی محمد سعید کی جو پارٹی بی جے پی جیسے شجرِ ممنوعہ کا بوٹا کشمیر میں پہلی بار لگانے میں کامیاب ہوئی ہے خود سبز رنگ کی ہی پیداوار ہے۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ مفتی کی پارٹی صدر صاحبزادی محبوبہ مفتی نے اپنی سیاست کا آغاز ہی سبز عبا پہن کر فوج کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جانے والے جنگجووٴں کے گھر جاکر تعزیت کرنے سے کیا ۔ آج بھی وہ کشمیر میں سبز عبا پہن کر کیوں گھومتی ہیں اور پی ڈی پی کا خود اپنا جھنڈا سبز رنگ کا کیوں ہے اور کبھی علیٰحدگی پسندوں کا انتخابی نشان رہے قلم دوات کو مفتی صاحب اپنی پارٹی کے لئے کیوں منتخب کر چکے ہیں،یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے۔


صاحب حس لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت پر کہ جب کشمیرمیں بھاجپا کی موجودگی پہلے ہی ایک عجیب قسم کی بے چینی کی ہوائیں چلا چکی ہیں ذرائع ابلاغ سے لیکر سیاسی پارٹیوں تک رائی کے پہاڑ بنانے اور کشمیر کو ”فتح“کر جانے یا ایسی کوشش میں ہونے کا احساس دلانے سے تباہی کا ایک نیا دور شروع ہونے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔حالیہ ایام میں ہوئے تجربے نے اِس طرح کے تبصروں اور تجزیوں کو صحیح ثابت کیا ہے…پارلیمنٹ کے ٹیلی ویژن چینلوں کے اسٹیڈیوز میں منتقل ہو جانے سے مفتی سعید ”نظریات کی جنگ“شروعات سے قبل ہی ہارتے دکھائی دے رہے ہیں اور کشمیر میں گھڑی کی سوئیاں واپسی کا سفر شروع کرتے دکھائی دے رہی ہیں…!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :