نوجوان کی تلاش ؟

پیر 27 اپریل 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

1926میں ہٹلر نے ”ہٹلر یوتھ“ قائم کی اور جرمنی کے نوجوانوں کو استعمال کرنے میں کامیاب ثابت ہوا۔ اگر جرمنی کے نوجوان ہٹلر کا ساتھ نہ دیتے توشاید ہٹلر کبھی اتحادی فوجوں سے نہ ٹکراتا ۔پہلی جنگ عظیم کے اختتام اور1920کے بعد ہٹلر کے پروپیگنڈہ سیل نے جرمنی کے نوجوانوں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا ۔ریڈیو پروگرامزا ور اخبارات کی رپورٹس میں نوجوانوں کی ذہن سازی کو ہدف بنایا گیا ۔

لاکھوں جرمن نوجوانوں کو اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے نازی ازم کی تعلیم دی جانے لگی ۔جنوری1933میں ہٹلر یوتھ کے ممبران کی تعداد صرف پچاس ہزار تھی جو سال کے آخر تک دو ملین سے زائد ہو چکی تھی اور 1936تک یہ تعداد 5.4ملین تک پہنچ چکی تھی ۔

(جاری ہے)

کلاس روم میں جو پڑھایا جاتا تھا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جرمن نوجوانوں میں نسلی تفاخر ، ہٹلر سے وفاداری اور ملک کے لیئے قربانی کا جذبہ پیدا کیا جائے ۔

جرمن نوجوان ہٹلر سے وفا داری کی قسم کھاتے تھے اور مستقبل کے سپاہی کے طور پر اپنے ملک اور لیڈر کی خدمت کا عہد کرتے تھے ۔ ہٹلر یوتھ اور لیگ آف جرمن گرلز کے ذریعے نوجوانوں کے عقائد و خیا لات کو خاص سانچے میں ڈھالا گیا ،ا س کے لیئے باقاعدہ اسٹیج ڈرامے پیش کیئے جاتے ، پروپیگنڈہ پرگرامز منعقد ہوتے ، تقریبات اور ڈسپلے کے ساتھ بڑی بڑی ریلیاں نکالی جاتی اور نوجوانوں کو نیم فوجی دستے ”ایس اے “ میں شامل ہو نے کی ترغیب دی جاتی ۔

اسکولوں کے بعد خصوصی میٹنگز اور ہفتے کے اختتام پر تفریحی کیمپنگ کے ذریعے نوجوانوں کی تربیت کی جاتی ۔1936تک ہٹلر یوتھ گروپ کی رکنیت ہر دس اور سترہ سالہ لڑکے اور لڑکی کے لیئے لازمی کر دی گئی ، 18سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد لڑکوں کے لیئے مسلح افواج میں اپنا اندراج کروانا لازمی قرار دیا گیا۔ ہٹلر کی پالیسی تھی کہ دس سال کی عمر میں لڑکے اور لڑکیوں کو تنظیم میں شامل کی جاتا ، چار سالہ عام تربیت کے بعد انہیں ہٹلر یوتھ میں شامل کیا جاتا ، اگر اب بھی ان میں نازی ازم کے جراثیم پیدا نہ ہوتے تو انہیں لیبر سروس کے حوالے کر دیا جاتا جہاں لیبر سروس چھ سات ماہ تک انہیں سیدھا کرتی اور اگر اس درجے میں بھی ان میں بیداری اور تبدیلی نہ آتی تو انہیں مسلح افواج کے حوالے کر دیا جاتا ۔

یہ ہٹلر کی کامیاب حکمت عملی تھی اور اس حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ 1945میں جب جرمن مسلح افواج نے ہتھیار ڈال دیئے تو انہی نوجوانوں نے گوریلا جماعت بنا کر اتحادی افواج کے خلاف جنگ جاری رکھی اور اتحادی افواج کو کافی حد تک نقصان پہنچایا۔
دنیا میں اس وقت ایک ارب اسی کروڑ نوجوان ہیں اور ان میں سے 27فیصد نوجوان جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک میں رہائش پزیر ہیں ۔

ان ستائیس فیصد کا نصف یعنی 13.41فیصد پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ اس وقت پاکستان نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے ۔ اقوام متحدہ کے اصول کے مطابق15سے 24سال کی عمر کے لوگوں کو نوجوان تسلیم کیا جاتا ہے اور اس اصول کے تحت ہماری آبادی کا بائیس فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ پاکستان میں اس وقت ساڑھے تین سے چار کروڑ نوجوان موجود ہیں ۔

آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اب تک تقریبا پچاس ہزار نوجوان بیرون ملک ہجرت کر چکے ہیں ، ان نوجوانوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹرز، انجینئرز ، سائنسدان ،آئی ٹی کے ایکسپرٹ،تخلیق کار اور آرٹسٹ شامل ہیں ۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ملک کی جو کریم اور ٹیلنٹ ہوتا ہے وہ بیرون ملک چلا جاتا ہے یا انہیں باہر جانے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس ملک نے نوجوانوں کو کیا کچھ نہیں دیا ؟سوال یہ ہے کہ وطن سے محبت اور وفا داری کا یہی تقاضا ہے؟بات لمبی ہو جائے گی ،آج بھی اس ملک میں سب سے ذیادہ پروجیکٹس نوجوانوں کے لیئے شروع کیئے جا رہے ہیں ۔

آج بھی یہ ملک سب سے ذیادہ نوجوانوں پر فوکس کر رہا ہے ، عزت نفس، روز گار ، معاش اور امن وامان ،ا س ملک نے کیا کچھ نہیں دیا۔نوجوانوں کے لیئے آج بھی یوتھ انٹرنشپ،یونیورسٹیز میں اسکالرشپ پروگرامز،میڈیکل کالجز میں فری تعلیم ،اسکلز ڈویلپمنٹ پروگرام ، لیپ ٹاپ اسکیم ، قرض حسنہ اسکیم ، ٹیکسی اسکیم ، صوبوں کی سطح پر یوتھ فیسٹول کا اہتمام اور اس جیسے ان گنت منصوبے اور پروجیکٹس شروع کیئے جا چکے ہیں ۔

کیا آج تک بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے لیئے بھی اتنے منصوبوں کا آغاز کیا گیا ، سمجھنے کی بات ہے کہ اگر یہ ملک نوجوانوں کو اتنا کچھ دے رہا ہے تو بدلے میں ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں ۔ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اکسویں صدی میں داخل ہونے کے بعد ہمارے نوجوانوں کی ذمہ داریاں بڑھ کر دوگنی ہو چکی ہیں ۔ اکسویں صدی وہ پل ہے جس نے بیسویں اور اکیسویں صدی کے انسانوں کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔

اکیسویں صدی میں جدید ایجادات کمپیوٹر، ٹی وی، انٹر نیٹ، موبائل ، ٹچ سسٹم ، پرنٹر،فوٹو کاپی مشین ، اسکائپ اور وٹس ایپ جیسی ایجادات نے زندگی کو تیز تر کر دیاہے ، اگر ہم ان ایجادات کا استعمال نہیں سیکھیں گے اور انہیں ملکی ترقی کے لیئے استعمال نہیں کریں گے تو ہم دنیا کے ساتھ نہیں چل پائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ بیسویں صدی کا استاد، جج، وکیل ، صحافی، قانون دان ، کلرک ، نمبر دار ، چوہدری، ثالث، امام ، خطیب اور سیاستدان وہ سب کام سرانجام ہیں دے سکتے جو اکیسویں صدی کا ایک نوجوان سر انجام دے سکتا ہے۔

آپ دیکھ لیں جو لوگ 1980کی دہائی سے پہلے پیدا ہوئے ہیں وہ ٹھیک طرح سے کمپیوٹر سے استفادہ نہیں کر سکتے ، انہیں انٹر نیٹ استعمال کر نا نہیں آتا، وہ پرنٹ نہیں نکال سکتے ، انہیں فوٹو کاپی نہیں کرنی آتی ، وہ ٹچ سسٹم کو ٹھیک طرح سے یوز نہیں کر سکتے ، وہ موبائل کے فنکشن ٹھیک طرح سمجھ نہیں پاتے ،انہیں اسکائپ اور وٹس ایپ کا استعمال نہیں آتا ، وہ اپنا ای میل اور فیس بک اکاوٴنٹ نہیں بنا سکتے، وہ اے ٹی ایم کارڈ سے پیسے نہیں نکلوا سکتے ، وہ آن لائن کوئی شکایت درج نہیں کر سکتے اوروہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم سے استفادہ نہیں کر سکتے۔

یہ کو ئی عیب کی بات نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے اپنے تقاضے ہیں ، دنیا بہت آگے نکل چکی ہے ، لہذا ہمارے نوجوانوں کو سمجھنا ہو گا اور انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا ۔اب اس ملک کی ذمہ داری کا بوجھ ان کے کندھوں پر ہے اور انہیں یہ بوجھ اٹھانا ہو گا۔ کرپشن، لاقانونیت، مس مینجمنٹ ، اقرباء پروری، سرکاری اداروں کی غیر تسلی بخش کارکردگی ، لوکل گورنمنٹ ، اخلاقی پستی ، صحت و صفائی کے مسا ئل ، تعلیمی پسماندگی ، دہشت گردی ، بیروزگاری ، اسلامی تعلیمات سے دوری ، تخلیق کاری اور جدید ایجادات سے دوری اس معاشرے کے اہم مسائل ہیں اور بلاشبہ یہ مسائل صرف نوجوان طبقہ ہی حل کر سکتا ہے ۔

اس وقت یہ ملک ایسے نوجوانوں کی تلاش میں ہے جو دل سے اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں اور سچے جذبے سے اپنے ملک کے لیئے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :