مثالی رویہ

ہفتہ 25 اپریل 2015

Qari Abdur Rehman

قاری عبدالرحمن

1977میں چلنے والی قومی اتحاد کی تحریک ہمیں یاد ہے ، ہمارا بچپن تھا، گلی گلی جلسے اور جلوس تھے، تحریک تو انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تھی،لیکن رفتہ رفتہ اس کوتحریک نظام مصطفی کے نام دے دیا گیا، اس وقت یہ زیر بحث نہیں کہ تحریک کا پس منظر کیا تھا ، تحریک صحیح تھی یا غلط ، انجام کیا ہوا ؟ صرف یہ ذکر مقصود ہے کہ اس تحریک کے اثرات ہم پر یوں پڑے کہ مزاج شوخ ہو گیا، جلسے جلوس اور ریلیوں کی لت لگ گئی،ابا جی مرحوم کبھی کسی جماعت کا حصہ نہ بنے، ہما رے لیے بھی گنجائش نہ تھی ، اس حد تک تو ہم نے ہمیشہ پابندی کی اور آج بھی اس عہد پر کاربند ہیں کہ کسی بھی جماعت کی بنیادی رکنیت بھی نہیں، نہ ہی آئندہ کسی جماعت کا حصہ بننے کا ارادہ ہے ، البتہ لگ بھگ 25سال جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا جنون کی حد تک شوق رہا، عموما یہ شوق ابا جی سے چھپ کر ہی پورا ہوتا رہا ، خاص طور سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کی ہوا نہ لگنے دی۔

(جاری ہے)

یہ شرکت عموما بلا تخصیص رہی یہ نہیں کہ فلاں جماعت کے جلسے میں نہیں جانا اور فلاں کے جانا ہے ، خاص طور پر جنرل ضیا ء الحق کے مار شل لاء کے خاتمے کے بعد سیاسی جلسوں کا جو دور چلا تو ہمارا شوق بھی عروج پر پر رہا۔
پندرہ سال پہلے یہ شوق کچھ دھیما ہوا ،پھر آہستہ آہستہ دل ہی اچاٹ ہو گیا ، کوئی دعوت دے اصرار کرے ، کچھ بھی کرے نہ جانے کی جیسے قسم کھا رکھی ہو، چند روز پہلے کچھ دوستوں نے تنظیم اسلامی کے سالا نہ اجتماع میں شرکت کی ترغیب دی ، ظاہر ہے یہ شرکت مطالعاتی ہوسکتی تھی ، بہ طور مبصر شرکت کے ارادہ بن گیا اورجمعرات ۹/ اپریل کی رات خیبر میل سے بہاول پور کے لیے روانہ ہوئے اور پیر ۱۳ /اپریل کی صبح اسی گاڑی سے واپسی ہوئی ۔


تنظیم اسلامی کا واضح اور کھلا پیغام یہ ہے کہ خدا کی زمیں پر خدا کا نظام نافذ ہونا چاہیے ،اور اسی طور ہونا چاہیے جس طور زمین والے نے حکم دیا ، جس طور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جا نشیں صحابہ اور خلفاء نے نافذ کیا تھا۔ تنظیم اسلامی کے نظریے سے اختلاف رکھنے والے اس طریق کو اس زمانے کے لیے موزوں نہیں سمجھتے ، ہم یہاں اس طریق کے حجت ہونے یاا س کے غیر موزوں ہونے پر بحث نہیں کر رہے۔

البتہ جس چیز نے ہمیں متاثر کیا وہ ضرور ذکر کرنا چاہتے ہیں ۔
تنظیم اسلامی تبدیلی چاہتی ہے ، دوسری کئی جماعتیں بھی تبدیلی اور انقلاب کی خواہش مند ہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں ، لیکن تبدیلی اور انقلاب کے سارے خواہش مندوں کو قریب سے دیکھنے اور سننے کے بعد محسوس یہ ہوا ، کہ سب دوسروں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے ہیں ، دھونس ، دھاندلی ،جبر اور قوت سے تبدیلی کے خواہش مند ہیں ، تبدیلی کے لیے اپنے تمام مخالفین کی ٹانگیں کھینچنا ضروری سمجھتے ہیں ، بلا تحقیق الزامات کی بوچھار اپنا فرض سمجھتے ہیں،دوسروں پر طنز کے تیر برسانا اپنا حق سمجھتے ہیں ، ان کے لتے لینا ضروری سمجھا جاتا ہے ،اپنی خامی دور کرنا بہت دور کی بات ہے ،اپنی خامی کی طرف توجہ بھی نہیں جاتی بلکہ خامی کو خامی سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔

تنظیم اسلامی کے ساتھ چار راتیں اور تین دن گزرنے سے یہ احساس ہوا کہ ان کے قائدین اپنی اور اپنے ماننے والوں کی تربیت اور اصلاح کے لیے بہت فکر مند ہیں ، معاشرے کا بہترین انسان بننے کے لیے کوشاں ہیں ، یہ بات سمجھ میں آئی کی کہ یہ حضرات معاشرے کی اصلاح کے لیے زبانی دعوت کافی نہیں سمجھتے بلکہ خود کو بہ طور نمونہ پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ تنظیم کے ایک اور رویے نے بہت متاثر کیا ۔

اس رویے کے ذکر سے پہلے پس منظر سمجھناضروری ہے یہ اجتماع فروری میں ہونا تھا، لیکن ضلعی انتظامیہ نے نہیں ہونے دیا ، پھر لاہور ہائی کورٹ نے ضلعی انتظامیہ اور تنظیم اسلامی کا موقف سننے کے بعد اجازت دی ، ہائی کورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو سیکورٹی فراہم کرنے کا حکم بھی دیا لیکن ڈی سی او نے ایک سپاہی تک نہیں بھیجا، نہ ہی کوئی رابطہ رکھا،ضلعی انتظامیہ کی ہٹ دھرمی اور پھر اجازت کے بعد عدالتی حکم کے باوجود سیکورٹی فراہم نہ کرنے کے خلاف کافی زور دار احتجاج اور مظاہرہ، جلوس اور دھرنا ہو سکتا تھا ، ضلعی انتظامیہ کو ناک سے لکیریں نکلوانے پر مجبور کیا جا سکتا تھا ، لیکن تنظیم کے ذمے دارا ن نے اس کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی۔

ہمیں تنظیم کا یہ رویہ بہت مثالی لگا ۔تمام جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
اجتماع کے پہلے ہی دن رات ڈیڑھ بجے بہت ہی زبردست قسم کی آندھی آئی، اور سارے شامیانے زمیں بوس ہو گئے ، سامان بکھر گیا ، انتظامات فیل ہو گئے ، لگ بھگ چار ہزارشرکاء اجتماع کے لیے نئے سرے سے انتظامات بہت مشکل کام تھا لیکن صبح روشنی ہوتے ہی اجتماع کے منتظمین کام میں جٹ گئے ،اگر چہ تیز ہوائیں بھی جاری تھیں لیکن یہ لوگ بھی دھن کے پکے نکلے اور تقریبا چار گھنٹے کے اندر اندر سارے انتظامات بحال کر لیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :