لاہور چین دوستی چہ معنی دارد!

ہفتہ 25 اپریل 2015

Ershad Mahmud

ارشاد محمود

چین کے صدر شی جی پنگ کے غیر معمولی دورہ پاکستان نے جہاں ملک میں سرشاری کی لہر دوڑا ئی وہاں چھیالیس بلین ڈالر کے منصوبوں پر صوبوں اور مختلف علاقوں کی سیاسی قیادت میں زبردست اضطراب بھی پیداکیا۔غالباًاس بے چینی کا دوش حکومت کی بدنیتی کوکم اور بے تدبیری کو زیادہ دیاجاناچاہیے۔وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس دورے میں جس طرح ڈپٹی وزیراعظم کا کردار ادا کیا اس نے دوسرے صوبوں کی قیادت کے احساس محرومی بالخصوص ہر قومی معاملے میں لاہور کی بالادستی کے تاثر کو مزید گہرا کیا۔

سرکاری عبقریوں نے معاہدوں پر دستخطوں کی تقریب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے علاوہ کسی بھی دوسرے وزیراعلیٰ کو مدعو کرنے تو دور کی بات نزدیک پھٹکنے بھی نہ دیا ۔گوادر بندرگاہ جس کے اردگرد یہ سارا ہنگامہ برپا ہے ۔

(جاری ہے)

وہاں کے حاکم اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بھی اعتماد میں نا لیا گیا۔گلگت بلتستان جس کے بدطن سے اقتصادی راہداری جنم لے گی اس کی قیادت کو کسی نے گھاس ڈالنا بھی مناسب نہ سمجھا۔

حکومت مخالف سیاستدان اب لنگ لنگوٹ کس کر پنجاب پر بل پڑنے کو ہیں۔ حکومتی بے تدبیری نے یہ سنجیدہ خطرہ پیداکردیا کئی مفاد پرست سیاستدان اقتصادی راہداری کا حال بھی کالاباغ ڈیم والا نہ کردیں۔
ان کم ظریفیوں کے باوصف چین کی طرف سے پاکستان میں کی جانے والی سرمایا کاری ایک تاریخ ساز اقدام ہے۔کسی دوسرے ملک میں اتنی بھاری اور اکٹھی سرمایاکاری کی مثال عصری تاریخ میں تلاش کرنا محال ہے۔

خود پاکستان میں 2008 سے اب تک جتنی براہ راست غیر ملکی سرمایاکاری ہوئی یا امریکہ نے جو بھی امداد دی ‘چینی سرمایاکاری کا حجم اس سے بڑھ کر ہے۔قوموں کی زندگی میں ایسے موقع شاذوناد ہی آتے ہیں جب قدرت ان پر اس قدر مہربان ہو۔اس سرمایاکاری کی خوبی یہ ہے کہ یہ عشروں پر محیط نہیں بلکہ اگلے چند سالوں میں اکثر منصوبے مکمل ہوجائیں گے ۔اقتصادی شاہراہ ‘جسے گیم چینجر کا عنوان دیا گیا ہے ،بھی دس سے پندرہ برس میں مکمل ہوجائے گی۔

اس طرح پاکستان کی کایا پلٹ جائے گی۔بلاتعطل توانائی کی فراہمی سے ترقی کاپہیہ تیزی سے حرکت کرے لگا۔تمام خطوں کے مابین سفر اور رابطے سہل ہوجائیں گے۔
نون لیگ کی حکومت کو ان اقتصادی منصوبوں پر پائے جانے والے قومی اتفاق رائے کو مزید مستحکم کرنا ہوگا۔پاکستان کے مخالفین کو اس کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔وہ ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

روپیہ پانی کی طرح بہائیں گے۔ہر منصوبے کو متنازعہ بنائیں گے ۔حسین حقانی کی طرح کے گھر کے بھیدی ابھی سے مغربی میڈیا میں ہرزہ سرائی کرنا شروع ہوگئے ہیں۔قومی پرست جماعتیں جو اکثر غیر ملکی وسائل پر پھلتی پھولتی ہیں بھی متحرک ہوچکی ہیں۔سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڑئے اٹکائے جائیں۔بھارت میں بھی اضطراب پایا جاتاہے۔

اگرچہ چین کے صدر شی چن نے عندیا دیا ہے کہ وہ اگلا مرحلے میں برما،بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان بھی اکنامک کوری ڈور بنانے کی کوشش کریں گے۔چین کی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ ان منصوبوں کو محض معاشی منصوبوں کے طور پر اجاگر کرے ۔چینی قیادت نے پاکستان کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ ان منصوبوں کی اسٹرٹیجک اور دفاعی اہمیت کو اجاگر کرنے سے گریز کرے تاکہ دنیا کے کان نہ کھڑے ہوں۔


ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو کریڈٹ لینے کی کوششوں سے بالاتر ہو کرکھلے دل سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ راہداری کی بات جنرل پرویز مشرف کے عہد میں شروع ہوئی۔پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی ان منصوبوں پر گفتگو کاعمل جاری رہا ۔تاہم یہ عمل وزیراعظم نوازشریف کے دور میں مکمل ہورہاہے۔یہ بھی حکو مت کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ پاک چین معاہدوں پر دستخط اور اعلانات کوئی مشکل کام نہیں۔

تاریخ کے کوڑادان میں ایسے شاندار معاہدے پڑے ہوئے ہیں کہ جن پر عمل دارآمدہوجاتاہے تو ملک کی تقدیر بدل جاتی ۔اصل مسئلہ ان معاہدوں پر بروقت عمل درآمد کرانا ہے۔ ماضی قریب میں کیے گئے کئی ایک معاہدے ابھی تک زیرتکمیل ہیں۔بہت ساری چینی کمپنیاں کام ادھورا چھوڑ کر واپس جاچکی ہیں ۔ سرکاری مشینری کے بارے میں بھی عام شکایت یہ ہے کہ وہ سست اور بدعنوان ہے۔

شفافیت کو یقینی نہیں بناتی اور طرفہ تماشا یہ کہ نااہل بھی ہے۔ چنانچہ پاکستانی حکام کو یہ امر یقینی بنانا ہوگا کہ حکومت کی جو بھی ذمہ داریاں ہیں وہ بروقت پوری ہوں تاکہ چینیوں کو بھاگنے کا کوئی بہانہ ہاتھ نہ آئے ۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور چین کی تعمیراتی کمپنیاں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بدعنوان ہیں۔ دل کھول کر روپیہ لیتے اور دیتے ہیں۔

علاوہ ازیں دونوں ممالک کے حکام شفافیت قائم کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔وہ مل بیٹھ کر منصوبے بناتے اور ان پر من مانی لاگت کا تعین کرتے ہیں۔ مسابقت جو کاروبارکی بنیاد کہلاتی ہے کو بری طرح نظراندازکیا جاتاہے ۔ ٹینڈر ہوتاہے نہ اخبارات میں منصوبو ں کومشتہر کیا جاتا ہے۔ بسااوقات شہریوں کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ کس منصوبے میں کتنا قرض ہے اور شرح سود کیاہے؟یا کتنی غیر ملکی امداد ہے اور خود حکومت پاکستان یا اس کے مالیاتی اداروں کی شراکت کا حجم کتناہے؟
یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جاتاہے کہ ان منصوبوں سے اربوں کھربوں رولپے سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کی جیبوں میں چلے جائیں گے۔

جو دیکھتے ہی دیکھتے دوبئی اور ملائیشیا ہی منتقل نہیں ہوتے بلکہ بنگلہ دیش تک میں بھی فیکٹریاں خریدنے میں لگادیئے جاتے ہیں۔ایسا نظام وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ لوگ وزیراعظم نواز شریف کی دیانت پر انگلی نہ اٹھا سکیں۔علاوہ ازیں انہیں اپنے رشتے داروں اور خاندان کے افراد کو ان منصوبوں سے دور رکھنا ہوگا ۔حکومت مخالف سیاستدان بھی موقع کی تلاش میں ہیں۔انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اگر توانائی کا بحران ختم ہوگیا۔ملک میں سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھ گیا تو ان کی سیاست کا چراغ گل ہوجائے گا۔پنجاب میں نون لیگ مزید مضبوط ہوجائے گی اور 2018کے الیکشن میں ان کی امیدیں پوری نہیں ہوں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :