اُمیدِبہار

جمعرات 23 اپریل 2015

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

تین عشروں سے کراچی کے دروبام سے ٹکراتی خوف اوردہشت کی فضاء میں عائشہ منزل سے ایک ایسانعرہٴ مستانہ بلندہوا جس میں مایوسیوں کی شبِ تارمیں دراڑیں ڈال دیں۔روشنیوں کا وہ شہرجس کی آغوشِ محبت میں اپنے پرائے سبھی پناہ پاتے تھے ،وہ ایسی نظرِبَد کاشکار ہواکہ اُمیدِصبح کاروزن تک مفقود ، دروبام پہ مایوسیوں کے ڈیرے ،ہرگھر میں صفِ ماتم اورہر دَرپہ نوحہ خوانی ۔

تب اہلِ بصیرت کویوں محسوس ہونے لگا جیسے
دور لگے وہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
مایوسیوں کے اِس گھٹاٹوپ اندھیرے سے ابھرنے والی تواناللکار امیرِجماعتِ اسلامی محترم سراج الحق کی تھی جس کالبِ لباب یہ کہ ”مجھے ہے حکمِ اذاں لاالٰہ الااللہ“۔

(جاری ہے)

زبان میں سختی مگراخلاقی حدوں کے حصارمیں ،اندازعوامی کہ وہ ”عوام“ میں سے ہی ہیں ،اُن بصارت وبصیرت سے محروم تَن اجلے مَن میلے لوگوں میں سے نہیں کہ جن کی خواہشوں کے عفریت ”ھِل مَن مذید“کاراگ الاپتے رہتے ہیں۔

یوں تو ہرامیرِجماعت محترم لیکن سیاسی فہم وادراک میں محترم سراج الحق فزوں تر ۔ہرغیرجانبدار تجزیہ نگار کایہی تجزیہ اور ہر صائب الرائے کی یہی رائے کہ محترم سراج الحق کے آنے سے جماعت اسلامی کاسیاسی گراف رفعتوں کی جانب گامزن ۔فُٹ پاتھ سے اُٹھ کرپاکستان کی منظم ترین جماعت کی ”امارت“کے منصب تک پہنچنے والے سراج الحق صاحب نے چونکہ زیست کے ہرکٹھن پَل کواپنے وجودپہ جھیلاہے اِس لیے اُن سے بہترکون جانتاہے کہ ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات“۔

حرفِ حق کاتقاضہ یہی کہ نہاں خانہٴ دِل میں چھپی بات کوکھلے گلاب کی مانندبَرملا کہاجائے اور
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دِل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
محترم سراج الحق صاحب نے بھی دِل میں چھپی ہربات کوبرملا کہتے ہوئے ”اُن“ لوگوں کو للکارا جنہوں نے روشنیوں کے شہرکو اندھیروں کی نذر کردیا ۔ایم کیوایم نامی یہ جماعت ضیاء الحق مرحوم کا ”تحفہ“ہے ۔

اُنہوں نے اپنی حکومت کودوام بخشنے اورجماعت اسلامی کوسبق سکھانے کے لیے کراچی میں ایم کیوایم کی بنیادرکھی اورپھر اُس کی بھرپور سرپرستی بھی کی ۔تب ایم کیوایم نے کراچی میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے تشددکے ایسے حربے استعمال کیے کہ انسانیت شرم سے مُنہ چھپانے لگی ۔نوگوایریاز اور عقوبت خانے اُسی دَورکی پیداوارہیں۔ یہ وہ دَورتھا جب حقارتوں کے حصارمیں سسکتے کراچی کے عوام پرہر ظلم روارکھاگیا لیکن تمام تر ہولناکیوں کے باوجود جماعتِ اسلامی ڈٹ کرمیدان میں کھڑی رہی ۔

بہت پہلے ، الیکشن کے ہنگام ،کسی صحافی نے پروفیسر غفوراحمد مرحوم سے سوال کیاکہ کیاوہ کراچی میں الیکشن جیت جائیں گے ؟۔اُن کاجواب تھاکہ ہرگزنہیں لیکن وہ میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتے کیونکہ آج نہیں توکل یہ ”لسانی جماعت“اپنی موت آپ مرجائے گی۔تب اُس کی جگہ لینے کے لیے جماعتِ اسلامی کوہی آگے آناہے ۔وہ وقت توقریب آلگاکہ ایم کیوایم پہلے سے کمزور ،کہیں کمزور اور پروفیسرغفوراحمد کی پیشین گوئی درست ثابت ہونے کولیکن جب طبلِ جنگ بج چکاتو اپنے ہی بیگانے بن کرسامنے آگئے۔

حقیقت یہی ہے کہ اگرتحریکِ انصاف جماعت اسلامی کے لیے میدان خالی کردیتی تو مقابلے کی فضاء قائم ہوجاتی ۔جماعت اسلامی برسوں سے اِس نشست پرایم کیوایم کامقابلہ کرکے دوسری پوزیشن حاصل کرتی چلی آرہی ہے ۔2002ء کے الیکشن میں اسی حلقے سے جماعت نے تیس ہزارسے زائدووٹ حاصل کیے اور 2004ء کے ضمنی انتخاب میں اسی حلقے سے اُس کے 17 کارکُن شہیدہوئے۔ 2013ء میں جماعت نے صرف 2 گھنٹے بعدکراچی میں الیکشن کابائیکاٹ کردیا پھربھی 10 ہزارسے زائدووٹ حاصل کیے ۔

اِس لیے حق تویہی تھاکہ یہ حلقہ جماعت اسلامی کے لیے چھوڑدیا جاتا۔ بھلے ایم کیوایم انتخاب جیت جاتی کہ یہ حلقہ اُس کاگھراور قلعہ ہے لیکن مقابلے کی فضاء میں یہ اندازہ ضرورہوجاتا کہ ایم کیوایم پرکتنے ”ڈینٹ“پڑ چکے ہیں۔اب نتیجہ آنے پرایم کیوایم سینہ تان کریہ کہہ سکتی ہے کہ کراچی میں وہ اپنی مقبولیت کی اوج پرہے ۔
محترم فریداحمدپراچہ نے اتوارکی شب علماء اکیڈمی منصورہ میں ایک خوبصورت محفل سجائی ۔

مہمانِ خصوصی محترم سراج الحق صاحب تھے اوراہلِ صحافت کے تقریباََتمام چیدہ وچنیدہ اصحاب بھی موجود۔ امیرِمحترم کاخطاب مختصرمگر جامع ۔سوال ہواکہ جب جماعتِ اسلامی اورتحریکِ انصاف کامقصد ایک ہی ہے اوردونوں جماعتیں خیبرپختونخوا حکومت میں اتحادی بھی توپھر ایم کیوایم کے مقابلے میں ایک ہی امیدوار کیوں نہیں؟۔محترم سراج الحق نے جواب دیاکہ اُنہوں نے توکچھ تجاویز دی تھیں جن کا چارروز بعدجہانگیرترین صاحب نے جواب دیاکہ تحریکِ انصاف کووہ تجاویزقبول نہیں۔

اتوارہی کی شب (محترم سراج الحق کے اعزازمیں دیئے گئے عشائیے سے کچھ پہلے) محترم ہارون الرشید ٹی وی ٹاک شومیں یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اِس بات کے گواہ ہیں کہ جماعتِ اسلامی کچھ شرائط کے ساتھ(جن کاتعلق آمدہ بلدیاتی انتخابات سے تھا) اپناامیدوار تحریکِ انصاف کے حق میں دستبردارکرنے کوتیار تھی لیکن جہانگیرترین صاحب نے بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی ۔

جب میں نے امیرِ محترم کی زبان سے بھی یہی باتیں سُنیں تو مجھے یقین ہوگیا کہ ہارون الرشیدصاحب کاکہا سچ تھا(حالانکہ میں ہارون الرشیدصاحب کے کہے پہ کم کم ہی یقین کرتاہوں) ۔سچ تویہی ہے کہ الیکشن 2013ء کی طرح تحریکِ انصاف اب بھی غلط فہمیوں کے جلومیں ہے ۔اگر جلسے ، جلوسوں ،ریلیوں اور ناچ گانوں سے انتخابی نتائج کواپنی مرضی کے مطابق ڈھالاجا سکتاتو آج تحریکِ انصاف دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہوتی لیکن تحریکِ انصاف کی تو”وہی ہے چال بے ڈھنگی ،جوپہلے تھی ،سواب بھی ہے“۔

محترم عمران خاں جب پہلی دفعہ کراچی گئے تب”حسبِ سابق“ اِدھراُدھر سے لوگ اکٹھے کرکے خوب ہلاگُلا کیا ۔اُس وقت تک جماعت اسلامی نے اپنی الیکشن مہم شروع بھی نہیں کی تھی ۔تب سروے میں ایم کیوایم پہلے اورتحریکِ انصاف دوسرے نمبرپر اورجماعتِ اسلامی کہیں نہیں۔پھر محترم سراج الحق نے کراچی کادورہ کیا اور عائشہ منزل پراُن کے ایک ہی خطاب نے وہ رنگ دکھایاکہ دوسرے ہی سروے میں جماعت اسلامی دوسرے نمبرپر آگئی۔ یہ صورتِ حال تاحال برقرارہے لیکن پھربھی خوش فہمیوں کی جنت میں بسنے والی تحریکِ انصاف اپنی ضد پر قائم ہے ۔ہم توباربار لکھ چکے کہ قول کے کچے لوگوں سے نسبت کیسی لیکن امیرِمحترم اب بھی تحریکِ انصاف سے مایوس نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :