ہم بھی خوش،تم بھی خوش

منگل 21 اپریل 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

بعداز خرا بیٴ بسیار”دھاندلی پکوان“ کی ہنڈیاعدالتی چولہے پرچڑھ ہی گئی ۔جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پرہشاش بشاش عمران خاں صاحب نے کہا ”جوبھی فیصلہ آئے گاجمہوریت کے لیے بہترہی ہوگا“۔لیکن ساتھ ہی یہ کہہ کرہمارا جی خوش کردیاکہ ” 2015ء الیکشن کاسال ہے “۔ہمارے ”کالمی درویشوں“والے لکھاری،جوکسی زمانے میں خاں صاحب کوقائدِاعظم ثانی قراردیا کرتے تھے لیکن پھروہ کپتان صاحب سے روٹھ گئے کیونکہ خاں صاحب کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اُن کے ”گورنرہاوٴس“پنجاب پر قبضے کے سارے خواب چکناچور ہوگئے ۔

تب سے اب تک وہ خاں صاحب کوسیاسی نابالغ ہی قرار دیتے رہے لیکن جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پروہ بھی بہت خوش ہیں کیونکہ اُن کی اُمنگیں پھر سے جواں ہو گئی ہیں۔

(جاری ہے)

وہ کہتے ہیں کہ اسحاق خاکوانی نے ایسازبردست کیس تیارکیا ہے کہ ”بَلے بَلے“۔ہم چونکہ لکھاری موصوف کے ”کالمی درویشوں“سے بہت متاثرہیں اِس لیے ہم بھی خوش کہ ہماراکپتان ”آوے ای آوے“۔


تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل پر”اپنے، بیگانے“سبھی خوش ہیں لیکن خوشی کی نوعیت ”وَکھرووکھری“۔ نوازلیگ خوش کہ ”کاٹھ کی ہنڈیاباربار نہیں چڑھتی“۔اُسے علم کہ جوڈیشل کمیشن سے رجوع کرنے والی سیاسی جماعتوں نے کوئی نئی بات کہی نہ منظم دھاندلی کاکوئی ثبوت پیش کیا۔قومی اسمبلی کی صرف 5 فیصدنشستوں پر اعتراضات سامنے آئے ،جوڈیشل کمیشن نے جن 41 حلقوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی رپورٹ نادراسے طلب کی اُن میں سے 24 حلقوں پر تونادرا پہلے ہی رائے دے چکی کہ 60 فیصد انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق نہیں ہو سکتی کیونکہ انگوٹھوں کے یہ نشانات ”مقناطیسی سیاہی“سے نہیں لگائے گئے ۔

یہ غلطی یا بَدانتظامی الیکشن کمیشن کی توہوسکتی ہے لیکن اس سے منظم دھاندلی ثابت نہیں کی جاسکتی ۔نوازلیگ کاخیال ہے کہ اگر ایک دفعہ جوڈیشل کمیشن کافیصلہ اُس کے حق میںآ گیا تو نہ صرف کپتان صاحب کے چوکوں ،چھکوں سے نجات مل جائے گی بلکہ پیپلزپارٹی بھی اپنی ”اوقات“میںآ جائے گی ۔پیپلزپارٹی خوش کہ اگلے 45 دنوں تک سیاسی جماعتیں جوڈیشل کمیشن میں الجھی رہیں گی ،نوازلیگ دباوٴ کی وجہ سے ”نُکرے“لگی رہے گی اورلوگوں کی توجہ آصف ،بلاول جھگڑے سے ہٹی رہے گی۔

جماعت اسلامی خوش کہ شایداُس کی اُمید بَرآئے اورایم کیوایم کو ”رَگڑا“لگ ہی جائے ۔مولانافضل الرحمٰن خوش کہ تحریکِ انصاف کااونٹ عدلیہ کے پہاڑتلے آگیا۔شیخ رشیدخوش کہ ایک دفعہ پھرالیکٹرانک میڈیاکو اُن کی یادستانے لگی لیکن اُن کی ساری خوشی کافورہو گئی جب متروکہ وقف املاک کے چیئرمین صدیق الفاروق صاحب نے یہ دھماکہ کردیا کہ”لال حویلی“تو متروکہ وقف املاک کی ملکیت ہے اورشیخ صاحب کے ذمہ کرائے کے لاکھوں روپے واجب الاداہیں ۔

اب دیکھیں کہ صدیق الفاروق صاحب کرایہ وصول کرتے ہیں یا لال حویلی خالی کرواتے ہیں۔ صدیق الفاروق صاحب متروکہ وقف املاک کے قابضین سے قبضہ چھڑوانے کے لیے ”لَٹھ“ لے کراُن کے پیچھے دَوڑرہے ہیں۔اگروہ تھک اور”ہَپھ“نہ گئے توقبضہ چھڑواکر ہی دَم لیں گے۔ایسے میں اگر شیخ صاحب سے اُن کی اکلوتی لال حویلی بھی گئی توپھراُن کاکیا بنے گا ؟۔

چودھری برادران خوش کہ اُن کے بیانات کوبھی صفحہ اوّل پرجگہ ملنے لگی۔چودھری پرویزالٰہی صاحب نے یہ بیان داغنے میں ذرادیر نہیں لگائی کہ ”ہم نے دھاندلی کے ثبوت جمع کروادیئے ،پتہ چل جائے گاکہ ہمارامینڈیٹ کیسے چوری ہوا“۔جواباََ غصّے سے کھولتے زعیم قادری نے کہا ”عام انتخابات میں2 نشستیں جیتنے اور 38 نشستوں پر ضمانت ضبط کروانے والے چودھری کِس مُنہ سے دھاندلی کی بات کرتے ہیں“۔

زعیم قادری صاحب شاید کہناتو یہ چاہتے ہوں کہ”لو جی !مینڈکی کوبھی زکام ہونے لگا“ لیکن کہہ نہ سکے کیونکہ میاں صاحب کاسختی سے حکم ہے کہ نون لیگ کے ہررہنما کی زبان میں”لکھنویت کا تڑکا “ہونا ضروری ہے ۔چودھری برادران نے 2002ء کے الیکشن میں پرویزمشرف کی آشیرباد سے دھاندلی کے سارے گُرآزما ڈالے لیکن اب ”لو وہ بھی کہہ رہے ہیں ، یہ بے ننگ و نام ہے“۔


کپتان صاحب خوش کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بعد ”کچھ تولگے گی دیرسوال وجواب میں“۔تحریکِ انصاف کی خواہش تویہی ہوگی کہ کمیشن کی تحقیقات کامعاملہ 45 دنوں کی بجائے طول پکڑتاجائے کیونکہ تحریکِ انصاف کی ”پٹاری“میں ردی کاغذوں کے سوا”کَکھ“ نہیں ہے ۔یہ وہی کاغذہیں جنہیں کپتان صاحب جب کنٹینرپر کھڑے ہوکر لہراتے توسونامیے جھوم جھوم جاتے ۔

تحقیقاتی کمیشن نے 15 اپریل تک ثبوت جمع کروانے کی مہلت دی لیکن 16 اپریل کوخاں صاحب اپنے ”حواریوں“کے ہمراہ (بناکسی ثبوت کے) اُسی شان سے جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہوگئے جیسے وہ حلقہ 122 کے الیکشن ٹربیونل میں پیش ہواکرتے تھے ۔کمیشن نے جب اُن سے ثبوتوں کی بابت پوچھاتواُن کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہاکہ ثبوت تو ہزاروں ہیں لیکن اِدھراُدھربکھرے ہوئے، اُنہیں اکٹھا کرنے کے لیے کم ازکم 10 دِن کی مہلت درکارہے ۔

پیرزادہ صاحب تویہ بھی کہناچاہتے تھے کہ اِن ثبوتوں کو جوڈیشل کمیشن تک لانے کے لیے ایک کنٹینرکی بھی ضرورت ہے جس کاابھی تک بندوبست نہیں ہوسکا لیکن جوڈیشل کمیشن نے اُن کی بات درمیان سے ہی اُچک کرکہاکہ کمیشن کے پاس تحقیقات کے لیے صرف 45 دِن ہیں اِس لیے وقت نہیں دیا جاسکتا ۔کسی ستم ظریف نے آوازلگائی کہ تحریکِ انصاف 600 دِنوں سے دھاندلی کاشور مچارہی ہے، کیاوہ اتنے دنوں میں وہ ثبوت بھی اکٹھے نہیں کرسکی ؟۔

اُس بَدباطن کواتنا بھی نہیں پتہ کہ تحریکِ انصاف تودھاندلی کے ثبوت اکٹھے کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کر رہی ۔اُس نے تو خیبرپختونخوا حکومت کے خزانے سے اشتہارات بھی شائع کروائے کہ اگرکسی شہری کے پاس الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کا کوئی ثبوت ہے تووہ قومی وملّی مفادمیں یہ ثبوت تحریکِ انصاف کے پاس جمع کروادے ۔دروغ بَرگردنِ راوی ثبوت پیش کرنے والوں کو ”اندرکھاتے“انعام کالالچ بھی دیاگیا لیکن ”ٹُٹ پینی“دھاندلی کاکوئی ”اتا پتا“نہیں۔

اسی لیے چاروناچار جوڈیشل کمیشن سے 10 روزہ مہلت کی استدعا کی گئی لیکن کمیشن نے ایک ہفتے کی مہلت دی اوروہ بھی طوہاََوکرہاََ۔ تحریکِ انصاف کے علاوہ جوڈیشل کمیشن سے 21 سیاسی جماعتوں نے رجوع کیا ،سبھی نے ”ٹوٹے پھوٹے“ثبوت پیش کیے ۔شایداِن سیاسی جماعتوں نے سوچاہوگا کہ تحقیقاتی کمیشن کے احاطے میں الیکٹرانک میڈیاکے کیمروں کی بھرمارہے اِس لیے نیوزچینلز پر آنے کایہ سنہری موقع کھونانہیں چاہیے۔وہ سبھی اسی پر خوش اورمطمئن کہ اُن کے ”رُخِ روشن“ ٹی وی سکرین پرآتے جاتے رہیں گے۔اورمیڈیاتو خوش ہے ہی کہ جوڈیشل کمیشن اُس کے لیے ”بارہ مصالحے کی چاٹ“تیار کررہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :