”چلتے ہو تو چین چلو“۔ قسط نمبر1

منگل 21 اپریل 2015

Abdul Rauf

عبدالرؤف

انشاء جی نے سفرنامہ لکھا عنوان تھا ”چلتے ہو تو چین چلو“ابنِ انشاء صاحب نے چین جانے پر کیوں زور دیا؟ اسکے لیے انشاء جی سے پوچھنا ہو گا مگر وہ مرحوم ہو چکے ہیں۔ اس مسئلے کا کم از کم حل انکا سفرنامہ پڑھ کر پتا لگایا جا سکتا ہے۔ فرانسیسی جرنیل نیپولین بونا پارٹ نے چین کو ایک سویا ہوا دیو قرار دیا ہے۔ نیپولین تو واٹر لو میں شکست کھانے کے بعد قید تنہائی کی حالت میں مر گیا۔

مگر اس کی موت کے کم و بیش 150سال بعد سویا ہوا دیو جاگ گیا۔ چینیوں کی بے مثال ترقی ایک دیو کی مانند ہی ممکن ہوئی چین 1970ء کی دہائی تک عالم تنہائی کا شکار رہا۔ اسکی بنیادی وجہ سوشلزم تھا۔ روسی کمیونیزم سے سوشلسٹ چین کا یہ سفر اسکی ترقی یہ سبب بن گیا۔ سویت یونین کے قیام کا یہ سفر ایشیا کے اندر چین کے ہر دل عزیز رہنما مازونے تُنگ کی قیادت میں آگے بڑھا اور جس کے نتیجے مین چین ایک سوشلسٹ ملک کے طور پر اوپر آیا۔

(جاری ہے)

سویت یونین نے اپنے نظام کو مضبوط رکھنے کے لیے چین کی مالی اور فوجی امداد شروع کی۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ چین نے اپنا وضع کردہ سوشلزم اپنایا جس کی خاصیت دوسرے ممالک میں عدم مداخلت اور الجھاؤ سے بچنا شامل تھا۔ کہ چین نے اپنے کسی ہمسایہ ممالک پر سوشلزم مسلط کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ مشرق بعیدکے جن ملکوں نے سوشلزم اپنایا وہ روس کی کوششوں کا نتیجہ تھا جن میں چین کسی حد تک مدد فراہم کی ہے۔

روسیوں نے چین کے اس باغی پن کو قبول نہ کیا اور چین کی امداد مکمل طور پر بند کر دی۔ یہاں تک کہ روسی تمام جاری منصوبے ادھورے چھوڑ کر واپس چلے گئے اور جاتے ہوئے اپنی ڈرائنگز بھی ساتھ لے گئے۔ اس کے بعد چینی خود کفالت کا دور شروع ہوتا ہے۔ روسی اتنے بڑے رقبے کے باوجود خوراک میں خود کفیل نہیں تھے۔ منجمند بحر الکاہل اسکی تجارت میں بڑی رکاوٹ تھا یہی وجہ تھی جو روس کو گرم پانیوں کے حصول پر مجبور کرتی رہی۔

سب سے پہلے چین نے خوراک میں خود کفالت حاصل کی۔ دوسری طرف روس لاپرواہی کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ یوں سمجھ لیں پچھلی صدی کی بدترین غلطیوں مین سے ایک پر روس نے عمل کیا۔ چین نے روس کی افغانستان پر جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ دیا۔ روس نے ناصرف ایشیائی مقبوضات کو آزادبلکہ مشرقی یورپ کے ممالک نے بھی آزادی حاصل کر لی۔ رومانیہ ،بلغاریا، ہنگری، پولینڈ، چیکوسلواکیہ، یوگوسلاویہ آج سرمایہ دارانہ نظام کو اختیار کر چکے۔

مشرقی اور مغربی جرمنی متحد ہو گئے۔ دوسری طرف یوکراین اور جارجیا کی وفا داری بھی بدل گئی (گو آج یوکراین میں روسی مداخلت جاری ہے) اس کے برعکس چین نے عدم مداخلت کی حکمت پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو معاشی طاقت کے طور پر منوا رہا ہے۔ چین 1990ء کی دہائی تک دنیا کو تیل برآمد کرتا تھا۔ آج چین تیل درآمد کرنے والا سب سے ملک بن چکا ہے۔ پچھلے سال چین نے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا اعزاز ا مریکہ سے چھین لیا۔

آج امیریکہ چین کا مقروض بھی ہے اور اپنی متعددکمپینیاں چین کو بیچ بھی چکا ہے۔ چین اپنی معاشی منڈیوں کو افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکہ کے ممالک تک وسعت دے چکا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ آج کے دور میں ریاستوں کے عالمی تعلقات کا اندازہ انکے معاشی تعلقات کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان علاقائی سطح کے تعلقات کی نئی منزلوں کو چھونے والا ہے۔

پاکستان سے چین ، پاکستان سے سنڑل ایشیاء امارات، سعودی عرب، ایران، انڈیا ، روس اور مشرقی یورپ تک توانائی کے منصوبے اور اس کے علاوہ سڑکیں اور ریلوے لائنیں بچھانے کے متعدد منصوبے شامل ہیں۔ جن کا آغاز گوادر بندرگاہ کے ذریعے ہو چکا ہے۔ (امیریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں نے افغانستان میں روس کے خلاف مفادات کی وجہ سے پاکستان کی ایٹمی پروگرام کو چلنے دیا بالکل اسی طرح افغانستان سے محدود انحلاء اور مستقل اڈا رکھنے کی وجہ سے ان معاشی تعلقات کو ہضم کرے گا) چین پہلے سے ہی پاکستان میں جاری توانائی کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔

تقریباً 15ہزار چینی انجینئرز اور دیگر کام کرنے والے پاکستان میں موجود ہیں۔ چین کے صدر شی پنگ کا حالیہ دورا پاکستان اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے۔ جس میں چین کا اپنا بہت بڑا فائدہ مضمر ہے۔ چین کی ترقی اب علاقے کی ترقی بنتی جا رہی ہے۔ اس ترقی کا سب سے بڑا حصہ چین کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کا ہے۔

جس کے لیے چین اپنا پورا اثرو رسوخ استعمال کر رہا ہے۔ روس اور چین اس وقت بھی توانائی کے شراکت دار ہیں۔ چین روس کے تعاون سے تقریباً 6000ہزار کلو میٹر لمبی گیس پائپ لائن بچھا رہے ہیں۔ دوسری طرف مشرقی یورپ ، لاطینی امریکہ کے ممالک سے تیل کی درآمد ہو رہی ہے۔ چین میں پہنچنے والے 60فیصد خام تیل کا تعلق متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے ہے۔

یہ سب چین کی کمپنی PETROکے منصوبے ہیں۔ جو کہ چائنہ نیشنل پیٹرولیم کا حصہ ہے۔ یہ کمپنی اس وقت ایک ٹریلین امریکی ڈالر کی مالیت رکھتی ہے۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ چین کی انڈسٹری کو کسی بھی طرح کی توانائی کی کمی کس سامنا نہ ہو۔ چینی اب سمندری اور بری رابطوں کو بروقت استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے چین نے سری لنکا کی ہمبنوتااور ، بنگلہ دیش کی چٹاکانگ بندرگاہ کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔

اس طرح چینی صدر کی آمد سے تین دن پہلے گوادر بندرگاہ کے چالیس سال تک کے آپریشنل حقوق حاصل کر لیے ہیں۔ چین اب گوادر کے راستے مغربی چین کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا اور پاکستان کو اس راہداری سے بے پناہ فوائد حاصل ہونگے۔
پاکستان دوسرے سارک ممالک کی طرح صرف جنوبی سمت میں واقع ملک نہیں ہے۔ بلکہ پاکستان کی Geo Strategicصورتحال اس کو مشرقِ وسطی، سنٹرل ایشیا سے روس، مشرقی یورپ اور دوسری طرف شمالی افریقہ تک موجود مسلم ممالک تک سب ایک زنجیر کی مانند نظر آتے ہیں۔

صرف یہی نہیں اگر ایران، امیریکہ جوہری مذاکرات کی کامیابی کے بعد ایران، پاکستان گیس پائپ لائن جو کہ انڈیا تک جانی ہے اس پر عمل ہونے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے تعلقات اس پائپ لائن کی بدولت علاقائی ترقی کا باعث بنیں گے جو فی الحال امریکی دباؤ پر تعطل کا شکار ہے۔ جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :