بچہ جمہورا گھوم جا۔۔۔ نہیں گھومتا!

اتوار 19 اپریل 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

ہم ٹھہرے ٹھیٹھ " پینڈو" لوگ۔ ہماری سوچ پینڈو۔ رہن سہن پیندو۔ ملنا ملانا پیندو۔ کھانا پینا پیڈو۔ اور حیران کن طور پہ ہمیں اپنے پینڈو ہونے پہ ہمیشہ بے وقوفانہ سا فخر بھی رہا ہے جس کی وجہ سے اپنا "پیندو پن " نہ کبھی چھپایا نہ ہی کبھی چھپانے کی کوشش کی ۔ شاید یہ ہمارا اندر کا پینڈو پن ہی ہے کہ ہم ملکی سطح کا کوئی معاملہ ہو یا عالمی سطح کا اس کو اپنے دیہاتی پس منظر کے حوالے سے ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

اب دیہات میں بھی رہن سہن ویسے تو کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے کیوں کہ جدید دنیا کی سہولیات جو آ گئی ہیں اور جدید دنیا کی سہولیات مصنوعیت کو جنم دیتی ہیں لیکن پھر بھی کسی نہ کسی حد تک قدرت سے رشتہ قائم رہتا ہے۔
دیہاتوں میں کمائی کا سب سے بڑا ہمیشہ سے کھیتی باڑی رہا ہے۔

(جاری ہے)

اور کھیتوں میں محنت کر کے پورے سال کے لیے اناج جمع کیا جاتا ہے۔

کچھ لوگ دیہاتوں میں ایسے ہوتے ہیں جو پورا سال کھیت کو تہہ و بالا کرتے ہیں دن رات ایک کر کے فصل بوتے ہیں اپنے پسینے سے اس فصل کی آبیاری کرتے ہیں لیکن پھر بھی بمشکل سال کا اناج حاصل ہو پاتا ہے یہ لوگ " مزارعے " کہلاتے ہیں۔ مزارع عام زبان میں کسان کو کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پورا سال کھیتوں کا رخ تک نہیں کرتے ۔

سکون سے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ تپتی دوپہروں میں ٹھنڈے مشروب پیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے گودام سال کے اختتام پر اناج سے بھر جاتے ہیں۔ اور ان گوداموں کے رکھوالے موچھوں کو تاؤ دے کے چارپائیاں سنبھال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مبادا کوئی مزارع " دو نمبری" نہ کرے ۔ جن کے اناج کے گودام بناء کسی محنت کے بھرے جاتے ہیں یہ لوگ " زمیندار" کہلاتے ہیں۔

انہیں کسی جگہ "نواب صاحب"، "صاحب بہادر"، خان جی" یا پھر " چوہدری صاحب" کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ نام کوئی بھی ہو ان کا عملی کردار ایک ہی ہوتا ہے یعنی محنت کسی کی پھل کسی کا۔
گاؤں یا دیہات کی زندگی میں زمیندار و مزارعے کے کردار بہت اہم ہوتے ہیں۔ پورے گاؤں میں محدودے چند ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو زمیندار کہلوانے کے اہل ہوتے ہیں لیکن مزارعے ان گنت ہوتے ہیں۔

ان زمینداروں کا سب سے اہم کام مزارعوں پہ حکم چلانا ہوتا ہے۔ اور مزارعے اس لیے چوں چراں نہیں کرتے کہ پھر سال بھر کے اناج سے محروم ہونا پڑے گا۔ اگر غلطی سے کسی غریب مزارعے کی خود اتنی ہمت بندھ جائے کہ وہ چوہدری صاحب کو یہ کہنے کی جرات کر لے کہ جناب اس سال اناج آپ نے کم دیا ہے تو چوہدری صاحب اپنے کارندے بھیج کر نہ صرف اس کے کچے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں بلکہ ساری زندگی کے لیے اپنا " کاماں" بنانے کے احکامات بھی صادر فرما دیتے ہیں۔

اور اگر کسی مزارعے کی اولاد میں سے کوئی پڑھ لکھ کر اس نظام سے نکلنا چاہے تو اس کی راہ میں ایسے سپیڈ بریکر پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ اس بیچارے کو اپنی منزل کوسوں دور محسوس ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں جس جگہ بھی زمیندار اور مزارعے کے تعلق میں کچھ توازن پیدا ہوا یا ایک عزت کا رشتہ قائم ہوا جس میں زمیندار مزارعوں کی عزت کرنے پہ مجبور ہوئے وہاں صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ مزارعے اپنے حقوق کے لیے اکھٹے ہو گئے اور زمیندار، خان جی، چوہدری صاحب کو اپنی کمائی ہاتھوں سے نکلتی نظر آئی ۔


قارئین سے گذارش ہے کہ اس کہانی کو ایک کہانی ہی سمجھیں ۔ اس کہانی سے ہرگز یہ مطلب نہ لیں کہ " قرقاش " کا بیان کسی زمیندار کا بیان ہے۔ اور ہماری دبی دبی سی وضاحت کسی مزارعے کی مانند ہے۔ اس کتھا سے ہرگز یہ تاثر نہ لیا جائے کہ اماراتی وزیر کا لب و لہجہ پاکستان کے حوالے سے چوہدری صاحب والا ہے کہ جو اپنے " کامے" کو حکم دے رہے ہوں۔

اور یہ بھی ہرگز نہ سمجھا جائے کہ جب کامے نے کوئی تاویل پیش کرنا چاہی تو چوہدری صاحب نے دھمکی آمیز بیانات صادر کرنا شروع کر دیے۔ یہ اس لیے نہ سمجھا جائے کہ نہ ہی ہم کسی کے " کامے " ہیں۔ نہ ہی ہمارا کوئی چوہدری ۔ اللہ رب العزت نے ہمیں جس بھی مقام سے نوازا ہے اس میں دوست ممالک کی مدد تو یقینا شامل حال رہی ہے لیکن ہم دوست ممالک کا قرض وقتاً فوقتاً چکاتے بھی رہے ہیں۔


چوہدری صاحبان جس خام خیالی میں ہیں کہ ان کے ممالک میں موجود لاکھوں پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجا جا سکتا ہے تو یہ ان کی خام خیالی اس لیے بھی رہے گی کہ ان کے شہزادے اتنے سخت جان ہرگز نہیں ہیں کہ تپتی دھوپ میں اپنے محل خود تعمیر کر سکیں۔ ان میں 40 ڈگری درجہ حرارت برداشت کرنے کی ہرگز ہمت نہیں ہے کہ جس میں وہ کوئی کام کاج کر سکیں۔ ان کی سہل پسندی یقینا پاکستانیوں کو وطن واپس بھیجنے میں مانع ہے۔


پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد جیسا بیانی اماراتی وزیر نے دیا ویسا ہی کچھ بیان عرب پارلیمنٹ کے چیئرمین نے بھی دیا ۔ ذرا غور کیجیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ زور پاکستان پر ہی ہے۔ کم و بیش پچاس ممالک ایسے ہی جن میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ تو پھر زور پاکستان پہ ہی کیوں؟ عرب طبعاً سہل پسند ہیں۔ محنت کی عادت نہیں ہے ۔ تمام خلیجی ممالک اسلحے کی دوڑ میں آگے پیچھے ہیں خود سعودی عرب اسلحہ خریداری میں چند بڑے ملکوں میں شامل ہوتا ہے وہ بھی جدید امریکی اسلحہ۔

باقی عرب ممالک بھی اسلحہ ذخائر کے حوالے سے کسی سے کم نہیں ۔ لیکن تمام ممالک سوائے عراق، ایران ، مصر ، لبنان اور چند دوسرے ممالک کے کسی بھی ملک کو جنگ کا نہ ہی تجربہ ہے نہ ہی ان کی طبیعیت میں سختی جھیلنا ہے۔ دولت کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے دوسروں سے کام لینے کی ہمیشہ سے عادت رہی ۔ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک کے پاس اسلحہ کے انبار تو ہیں لیکن ان کو چلانے والے سخت جان فوجی نہیں ہیں۔

اور پاکستان نہ صرف دنیا کی اہم ایٹمی قوت ہے بلکہ اس کی فوج کا شمار بھی دنیا کی طاقتور ترین افواج میں ہوتا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پورا سال پاکستانی فوج کسی نہ کسی محاذ پہ نبردآزما رہتی ہے ۔ عرب ممالک کی دولت نے شاید ان کی سوچ کے دروازوں پہ قفل لگا دیے ہیں کہ وہ ہمیں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ سہل پسندی کے خمار میں وہ توقع کر رہے ہیں کہ شہ رگ کی طرح قریب دشمن موجود ہوتے ہوئے ایک اور دشمن بنا لیں اور دور آ کر ان کی مدد لازمی کریں۔


افسوس تو اس بات کا ہے کہ اب یہ حالات آ گئے ہیں کہ متحدہ عرب امارات بھی صرف اس وجہ سے ہمیں دھمکیاں دے گا کہ وہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کام کرتی ہے۔ یا یہ کہ ہمیں خطہ ء عرب سے مفت تیل مل جاتا ہے۔ اگر نا عاقتب اندیش حکمرانوں میں عقل کا مادہ موجود ہوتا تو ملکی وسائل پہ انحصار کرتے ۔ سینڈک، ریکوڈک، گوادر کی ساحلی پٹی، مکران کے ساحلوں میں چھپے خزانوں کو تلاش کرنے پہ توجہ دیتے تا کہ ہمارے صوبوں کے برابر ممالک ہمیں دھمکیاں نہ دیتے۔

اور ہم یہ کہنے کی جرات رکھتے۔ کہ تمام پاکستانی واپس بھی آ جائیں تو ہم سنبھال لیں گے ۔ لیکن ان کا ملک ضرور دیوالیہ ہو جائے گا۔ لیکن ہم ایسا نہیں کہہ سکتے ۔ کیوں کہ " بچہ جمہورا" ہمیشہ سے گھومتا آیا ہے۔ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کہا گیا کہ بچہ جمہورا گھوم جا۔ اور بچہ جمہورا نے جواب دیا کہ نہیں گھومتا ۔ اور اس جواب نے کہیں قرقاشوں کے تن بدن میں آگ لگا دی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :