قصّہ ایک قراردادکا

جمعرات 16 اپریل 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہرمشکل گھڑی میں کندھے سے کندھاملا کرکھڑے ہونے والے سعودی عرب کوہماری پارلیمنٹ نے ”غیرجانبداری“کاایسا تحفہ دیاکہ سعودی بھائی تلملااُٹھے ۔ہمارے دفترِخارجہ نے جومسودہ تیارکیا تھااُس میں توواضح طورپر حوثی قبائل کی مذمت کرتے ہوئے اُنہیں باغی قراردیا گیاتھالیکن تحریکِ انصاف نے ضداور دھونس سے اُس مسودے میں کچھ ایسی تبدیلیاں کروائیں کہ پوری قرارداد ہی مبہم اورغیرواضح ہوگئی ۔

طُرفہ تماشہ یہ کہ پوری قرارداد میں حوثی قبائل اوراُن کے غیرقانونی اقدامات کاذکر کرنے کی بجائے ”غیرجانبداری“اورثالثی پرزور دیاگیا تھا۔گویا قرارداد کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ نے اپنے مشرقِ وسطیٰ کے دوستوں کو یہ پیغام دیاکہ پاکستان یمن کے باغیوں اور قانونی حکمرانوں کے مابین تنازعے میں غیرجانبدار رہے گا ۔

(جاری ہے)

یہ ”نادراورمنفرد“ قرارداد ”صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں“کی عملی تصویرتھی کہ ایک طرف غیرجانبداری اورثالثی کااعلان اوردوسری طرف سعودی عرب کے کندھے سے کندھاملا کرکھڑے ہونے کی یقین دہانی ۔

اِس مبہم قرارداد پر سعودی حکومت کے ردِعمل سے پہلے متحدہ عرب امارات کے وزیرِخارجہ ڈاکٹرانور قرقاش نے ”ایویں خوامخواہ“ کھڑاک کرتے ہوئے الطاف بھائی کی طرح یہ ”بڑھک“ لگادی کہ پاکستان کواِس قراردادکی بھرپورقیمت اداکرنی پڑے گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرانورقرقاش نے یہ ”کھڑاک“کرکے ہم پراحسان ہی کیاکیونکہ اِس کھڑاک سے نہ صرف سعودی حکومت کا غصہ کچھ ٹھنڈاہوا بلکہ اُسے یہ وضاحت بھی کرنی پڑی کہ متحدہ عرب امارات کے وزیرکا بیان محض وقتی اشتعال تھا۔

اسی لیے توکہتے ہیں کہ ”نادان دوست سے دانادشمن بہتر“۔ایسے ہی ایک نادان دوست ہماری حکومت کے پاس بھی ہیں،نام اُن کا چودھری نثاراحمد،جو وزارتِ داخلہ کاقلمدان سنبھالے ہوئے ہیں ۔چودھری صاحب نے بھرپورانداز میں اماراتی وزیرکو نہ صرف للکارابلکہ یہ پیغام بھی دے دیاکہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
قوم توخوش کہ چودھری صاحب نے عوامی جذبات کی ترجمانی کی (ویسے اِس بیان پرتھوڑاتھوڑا غصّہ ہمیں بھی آرہا تھا)لیکن وزیرِاعظم پریشان کہ چودھری صاحب نے بناسوچے سمجھے اورمشورہ کیے بیان داغ دیا۔

چودھری نثارصاحب کو یہ توپتہ ہی ہوگا کہ جن قوموں کا انحصار کاسہٴ گدائی پرہوتا ہے اُنہیں”مخدوم“کہلانے کاکوئی حق نہیں ہوتا ۔اسی لیے تومیرے آقاﷺ نے کہاتھا کہ دینے والاہاتھ ،لینے والے ہاتھ سے بہترہوتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے نائب وزیرکی دھمکیوں اور شیخ صالح بِن عبد العزیز کے اِس بیان کے بعدکہ” یمن پرثالثی مذاق ہے“ ضروری ہوگیاکہ مشرقِ وسطیٰ کے برادراسلامی ممالک کی غلط فہمی دورکی جائے ۔

معاملات چونکہ کچھ زیادہ ہی بگاڑکی طرف گامزن تھے اِس لیے وزیرِاعظم صاحب کوذاتی حیثیت میں یقین دہانی کرانا پڑی کہ حکومت حوثی قبائل کی پُرزور مذمت کرتی ہے اوریمن میں صدرہادی کی حکومت کی بحالی چاہتی ہے ۔وزیرِاعظم صاحب نے فرمایا”سعودی عرب سٹرٹیجک پارٹنرہے ،ہم اِس کے ساتھ کھڑے ہیں۔سعودی عرب کی علاقائی خودمختاری کی کسی بھی خلاف ورزی یاحرمین شریفین کوخطرے کی صورت میں سخت ردِعمل دیاجائے گا۔

ہم یمن میں حوثیوں اوردیگر غیرریاستی عناصرکی جانب سے قانونی حکومت کوگرانے کی شدیدمذمت کرتے ہیں۔ہم اپنے دوستوں اور سٹرٹیجک پارٹنرزکو تنہانہیں چھوڑیں گے“۔وزیرِاعظم صاحب کے اِس واضح اورغیرمبہم بیان کے بعدپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظورکی جانے والی متفقہ قرارداد کے غبارے سے ہوانکل گئی یہ الگ بات ہے کہ وزیرِاعظم صاحب نے کچھ لوگوں کی اشک شوئی کی خاطریہ بھی کہہ دیا”یمن بحران پرپارلیمنٹ کی قرارداد حکومتی پالیسی کے مطابق ہے البتہ خلیجی اتحادی اسے صحیح طورپر سمجھ نہیں سکے “۔

خلیجی اتحادی صحیح طورپر سمجھے ہوں یانہ ، ہم ضرورسمجھ گئے کہ وزیرِاعظم میاں نوازشریف صاحب کی ”حسِ مزاح“تاحال قائم ودائم ہے حالانکہ ہم توسمجھتے تھے کہ طویل جلاوطنی کے دُکھ نے میاں صاحب سے یہ ”حِس“ چھین لی ہے۔ اسی لیے میاں صاحب کے چہرے پرچھائی گھمبیر سنجیدگی کبھی کبھی ہمیں پریشان بھی کردیتی تھی ۔میاں صاحب نے اپنے دوستوں کو واضح ،دوٹوک اورغیرمبہم پیغام پہنچاکر خوش بھی کردیا اورپارلیمانی قراردادکی ”لاج“ بھی رکھ لی ۔

اُنہوں نے تحریکِ انصاف کا ”غیرجانبداری“کا بھرم بھی رکھ لیااور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ ”ہم توہرگز غیرجانبدار نہیں“۔اُنہوں نے تحریکِ انصاف کی ضد پرقراردادمیں حوثی قبائل کابراہِ راست ذکرکرنے سے گریزکیا اورپالیسی بیان میں باغی حوثیوں کی بھرپورمذمت بھی کردی ۔اسی لیے توہم کہتے ہیں کہ میاں صاحب بڑے ”مخولیے“ہیں۔


افہام وتفہیم کی اِس فضاء میں پاکستان کے دورے پرآئے ہوئے سعودی وزیربرائے مذہبی امورشیخ صالح بِن عبد العزیزنے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کوپاکستان کااندرونی معاملہ قراردیتے ہوئے برملا کہہ دیاکہ پاکستان اورسعودی عرب مذہب اوردوستی کے مضبوط دیرینہ رشتوں میں جُڑے ہوئے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رشتے مستحکم ہورہے ہیں۔اُنہوں نے سعودی حکومت کے خدشات کاذکر کرتے ہوئے کہا”اسلحے اورطاقت کے زورپر ناجائزطریقے سے یمن میں حکومت کی تبدیلی کوہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا ۔

سعودی حکومت کے پاس ایسی مصدقہ اطلاعات موجودہیں کہ حوثی باغیوں نے 500 کلومیٹردور تک مارکرنے والے میزائل حاصل کرلیے ہیں جس سے اُن کے عزائم واضح ہیں کیونکہ ظاہرہے کہ یہ میزائل لبنان پرداغنے کے لیے تونہیں منگوائے گئے “۔وزیرِاعظم صاحب کے پالیسی بیان کے بعدشیخ صالح بن عبد العزیزکو بہرحال یہ تویقین ہوگیا ہوگاکہ حالات خواہ کوئی بھی نہج اختیارکریں ،پاکستان بہرحال سعودی عرب کے کندھے سے کندھاملاکر کھڑاہوگا کیونکہ ہم مذہب اوردوستی کے ایسے مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے ہیں جسے ابلیسیت کے علم بردار انشاء اللہ کبھی نہیں توڑ سکیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :