کرنے کا کام !

اتوار 12 اپریل 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

بکر ما جیت پہلا حکمران تھا جس نے اپنے لیئے نورتنوں کا انتخاب کیا ۔بکر ماجیت 375تا413گپت خاندان کا تیسرا جنگجو راجہ تھا جس نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ساتھ آریہ تہذیب و تمدن اور آریہ علم و ادب کو از سر نو زندہ کیا ۔ مشہور شاعر اور ڈراما نگار کالی داس بھی اس کے نورتنوں میں شامل تھا ، یہ وہی کالی داس تھا جس نے مشہور زمانہ ڈراما ”شکنتلا “ تحریر کیا تھا ۔

بکر ماجیت کے بعد اکبر دوسرا حکمران تھا جس کے نو رتن تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں ۔ اکبر14سال کا تھا جب اسے ہندوستان جیسی عظیم سلطنت سنبھالنی پڑی ۔ اکبر ان پڑھ بھی تھا ، ضدی بھی اور لا پرواہ بھی ۔ حکومت سنبھالنے کے بعد بھی اکبر اگراسی روش پر چلتا رہتا تو شاید مغلیہ سلطنت اس کے ساتھ نہ چل پاتی۔

(جاری ہے)

اکبر کی صغر سنی اور اس کی لاپرواہی دیکھ کراس کا اتالیق بیرم خان آگے بڑھا اور اس کو اپنی سرپرستی میں لے لیا۔

اکبر نے ذرا قد کاٹھ نکالا تو اس نے اپنی سلطنت سے نو منجھے ہوئے،عالم ، فاضل اور تجربہ کا رافراد کا انتخاب کیا اور انہیں اپنا مشیر مقرر کر لیا ، اکبر نے اپنے ان نو مشیروں کی مدد سے ہندوستان پر پچاس سال حکومت کی اور بعد میں یہی نو مشیراکبرکے نو رتنوں کے نام سے مشہور ہوئے ۔ان نو رتنوں میں پہلا نمبر راجا بیربل کا تھا ،بیربل ایک برہمن ہندو اور ذات کا بھٹ تھا۔

بھٹ ہندووٴں کی اپر ذات کا نام ہے ،اسلام کی آمد سے قبل یہ لوگ بھٹ کہلاتے تھے لیکن ان میں سے کچھ لوگوں نے جب اسلام قبول کر لیا تو ان کو بٹ کہا جانے لگا ،آج بھی ہندو اور برہمنوں کو بھٹ جبکہ مسلمانوں کے لیئے بٹ لکھا اور بولا جاتا ہے ۔بیربل سنسکرت کا عالم تھا ،لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی میں باکمال تھا ،اکبر اسے صاحب دانشور کہا کرتا تھا ،جلد ہی اس نے اکبر کا قرب حاصل کر لیا۔

یہ سوات کی لڑائی میں مارا گیا اور اس کی لاش تک نہ ملی۔ابو الفضل فیضی کا دوسرا نمبر تھا ، یہ وہی ابو الفضل تھا جس نے سواطع االالہام تفسیر لکھی تھی ، اس کا کمال یہ تھا کہ اس نے پوری تفسیر میں ایک بھی نقطے والا حرف نہیں لکھا تھا ۔اس نے ہندووٴں کی مشہور کتاب مہا بھارت کا بھی فارسی ترجمہ کیا تھا ، یہ اپنے علم و حکمت کی وجہ سے بہت سے شہزادوں کا اتالیق رہا اور 52سال کی عمر میں دمہ کی وجہ سے انتقال کر گیا ۔

تیسرا نمبر ابو الفضل کا تھا ، یہ فیضی کا بھا ئی تھا ، فیضی کی وجہ سے اسے دربا ر اکبری تک رسائی ملی اوراپنی مہار ت کی وجہ سے چار ہزاری منصب پر فائز ہوا ۔ ابو الفضل آذاد خیال فلسفی تھا اسی لیئے بعض علماء اسے دہریہ سمجھتے تھے ، کہا جاتا ہے کہ اکبر کے ”دین اکبری “ ایجاد کرنے میں اسی کا ہاتھ تھا۔”آئین اکبر ی “ اور ”اکبر نامہ “ جیسی مشہور کتابیں ابو الفضل نے ہی لکھی تھیں،جہانگیر نے اسے قتل کروادیا۔

چوتھا نمبر تان سین کا تھا ،یہ کمال کا موسیقار تھا اور برصغیر کی کلاسیکی موسیقی اسی کے راگوں پر زندہ ہے ،جب وہ فوت ہوا تو اکبر نے بھی اس کے جنازے میں شرکت کی ۔ پانچواں نمبر عبد الرحیم کا تھا ، یہ بیرم خان کا بیٹا تھا ، لاہور میں پیدا ہوا ، جب بیرم خان قتل ہوا تو اکبر نے اسے اپنے پاس بلالیااور شہزادوں کی طرح پرورش کی ،بیس سال کی عمر میں اسے جہانگیر کا اتالیق بنا دیا گیا اور بعد میں جہانگیر کے عہد میں ہی اس کا انتقا ل ہوا ۔

چھٹا نمبر راجا مان سنگھ کا تھا، یہ ذات کا ہندو برہمن تھا ، انتہائی وفا دار اور اکبر کے بہت قریب تھا ، جہانگیر نے اس کی بہن سے شادی کی اور بعد میں یہ جہانگیر کے بیٹے خسرو کا اتالیق مقرر ہوا۔ ساتواں نمبر ملا دوپیازہ کا تھا ،ا صل نام ابو الحسن تھا اور یہ مکہ کے قریب طائف میں پیدا ہوا تھا ۔ خوش خلقی اور لطیفہ گوئی کی وجہ سے جلد ہی مشہور ہو گیا ، ایک دفعہ ایک دعوت میں مدعو تھا ، کھانا لذیذ اور مزیدار تھا ، ملا نے پوچھا ” یہ کیا تھا “ جواب ملا ” دوپیازہ پلاوٴ“ اس کے بعد سے اسے ملا دوپیازہ کہا جانے لگا ۔

آٹھواں نمبر راجہ ٹوڈر مل کا تھا ، ذات کا ہندو کھتری تھا اور اکبر کے بہت قریب تھا ، کہا جاتا ہے کہ اس کی ماں بیوہ تھا اور اس نے اپنی ماں کی دعاوٴں کے بدولت اہم مقام حاصل کیا۔ نوواں نمبر مرزا عزیز کا تھا ، اس کی والدہ نے اکبر کو دودھ پلایا تھا لہذا یہ اور اکبر دونوں رضاعی بھائی تھے ، اکبر اس کا بہت احترام کرتا تھا اور اس نے اسے خان اعظم کے خطاب سے نوازا ۔


اکبر اپنے ان نو رتنوں کی وجہ سے تاریخ کا کامیاب ترین حکمران کہلا یااور اس نے اکیلے ہندوستان پر پچاس سال حکومت کی ۔لیکن ہمارے حکمرانوں کے نورتنوں کو دیکھ کر لگتا ہے یہ حکومت تین سال بھی بمشکل پورے کر پائے گی۔نہ جانے یہ نو رتن حکمرانوں کو درست مشورے کیوں نہیں دیتے اور انہیں کیوں نہیں بتاتے کہ عوام کے اصل مسائل کیا ہیں ۔سوشیالوجی کے قانون کے تحت انسان کی بنیادی ضروریات میں صحت کا تیسرا نمبر ہے لیکن ہمارے ہاں صحت کو دسواں درجہ بھی نہیں دیا گیا ، کئی یورپی ممالک میں انسانی اوسط عمر نوے سال سے زائد ہو چکی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ اوسط پچاس ساٹھ سے آگے نہیں جاتی ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں صحت اور صحت کے مسائل پروہ توجہ نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی ۔

پنجاب میں صحت کا ڈیپارٹمنٹ دیگر صوبوں کی نسبت فعال ہے لیکن اس کے باوجود صورتحال انتہائی خوفناک اور پریشان کن ہے ۔ پنجاب کی آبادی دس کروڑ کی حدوں کو چھو رہی ہے لیکن اتنی بڑی آبادی کے لیئے ہسپتالوں کی تعداد کیا ہے آپ خود ہی دیکھ لیں ۔ پورے پنجاب میں صرف 34ڈسٹرکٹ ہیڈ کورٹر ہسپتال ، 88تحصیل ہیڈ کورٹر ہسپتال ، 109سول ہسپتال ، 293رورل ہیلتھ سنٹر ، 333ڈسپنسریاں اور 2473بنیادی ہیلتھ سنٹر ہیں ۔

دس کروڑ کی آبادی کے لیئے صرف یہ چند ہسپتال مذاق نہیں تو کیا ہے ، اورستم یہ ہے کہ یہ بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہے اور جب تک مریض اور اس کے لواحقین کی مت نہ مار دی جائے عملے کا کھانا ہضم نہیں ہوتا ۔لاہور ڈویژن کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے لیکن اس دو کروڑ آبادی کے لیئے صرف 5ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال، 7تحصیل ہیڈ کورٹر ہسپتال ،34رورل ہیلتھ سنٹر اور246بنیادی ہیلتھ مراکز ہیں ۔

راوالپنڈی ڈویژن کی آبادی بھی دوکروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن وہاں بھی صرف 3ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹرہسپتال،13تحصیل ہیڈ کورٹر ہسپتال ،29رورل ہیلتھ سنٹر اور268بنیادی ہیلتھ مراکز ہیں۔اسی طرح باقی ڈویژنوں کی صورحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور پیر ا میڈیکل اسٹاف کی سیٹیں خالی پڑی ہیں ۔ جنرل ڈاکٹرز کی 16000 سیٹوں میں سے 5297خالی پڑی ہیں ۔

اسپیشلسٹ کی 2514سیٹو ں میں سے 1414خالی ہیں ،ٹیچنگ کیڈر(تدریسی عملہ ) کی 3329سیٹوں میں سے 1385خالی ہیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی 60000سیٹو ں میں سے 27000خالی پڑی ہیں ۔ہماری ستر فیصد آبادی بنیادی ہیلتھ مراکز کے رحم و کرم پرہے لیکن وہاں صرف پانچ میڈیسن آتی ہیں اور ڈاکٹر ان پانچ میڈیسن کے علاوہ کوئی اور میڈیسن دے ہی نہیں سکتا۔ ہم صحت کا 35فیصد بجٹ خرچ ہی نہیں کر پاتے ، ہماری ڈاکٹر ز تربیت یافتہ نہیں ، انہیں مریض اور مریض کے لواحقین سے بات کرنی نہیں آتی ، انہیں کمیونیکیشن اسکلز سکھانے کی ضرورت ہے ۔

انسانی صحت کا انحصار خون پر ، خون کا انحصار خوراک پر اور خوراک کا انحصار پانی پر ہوتا ہے لیکن ہماری اسی فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔ کاش کو ئی حکمرانوں اور ان کے نو رتنوں کو بتا دے کہ کرنے کا کام یہ ہے ورنہ جو آپ کر رہے ہیں اس کا خمیازہ آپ کو اگلے الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :