اے پاک وطن

اتوار 12 اپریل 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

آج نجانے کیوں ہمارے ذہن کے نہاں خانوں پر 14 اگست 1947کے وہ واقعات مسلسل گردش کررہے ہیں کہ جن کے ہم عینی شاہد نہیں لیکن بلیک اینڈوائٹ ویڈیوز دیکھنے کے بعد نجانے کیوں ہمیں محسوس ہونے لگتاہے کہ ہم ا س دور میں موجود تھے۔ ایک طرف سے آواز گونجتی ہے ‘پاکستان کامطلب کیا‘ دوسر ی جانب سے جواب آتاہے ‘لاالہ الا اللہ“ ہم خو دکو اس نوجوان کے پیچھے پاتے ہیں جو کچھ زیادہ ہی اچھل کر جوا ب دیتاہے ”لاالہ الاللہ“ہم بائیں جانب بالکل دل کے اوپرہاتھ رکھ کرصدق دل سے اعتراف کررہے تھے کہ واقعی پاکستان کامطلب یہی ہوگا۔

جب چودہ اگست کو قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو گویا ہماری روح بھی خوش ہوگئی ‘ ہم بالکل اسی انداز میں اسی جوان کے پیچھے نعرہ لگاتے ہیں کہ واقعی پاکستان لاالہ الاللہ کی عملی تفسیرہوگا ۔

(جاری ہے)

بات آگے چلتی ہے قیام پاکستان کے اعلان کے بعد اس پاک سرزمین کی جانب رخت سفرہوتے ہیں ابتدائی سٹیج پرہی چٹیل میدان میں ہرسولاشے بکھرے دکھائی دیتے ہیں‘ دور کسی جگہ سے ایک عورت کے رونے کی آواز آتی ہے‘ قریب جاتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ ایک خوبرو مسلمان لڑکی ہے جوگھٹنوں میں سردئیے روئے جارہی ہے ‘ مزید قریب ہوئے دیکھا کہ اس کے جسم پرکپڑوں کے نام پرچیتھڑے موجود ہیں‘ جسم بھی جگہ جگہ سے زخمی ہے‘ پوچھا” بہن کیاہوا؟“ وہ ڈری سہمی لڑکی ” بہن“ کے لفظ پر چونکتی ہے اورپھر ہمارے وضع قطع سے انداز کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ہم کون ہیں‘ پریشانی بھانپتے ہوئے بتایا کہ ”الحمدللہ مسلمان ہوں“ وہ زار وقطار روتے ہوئے مزید سمٹ جاتی ہے پوچھنے پر پتہ چلاکہ اس کاپوراگھرانہ ہندو‘ سکھوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا اور جب وہ جان بچاکر ایک قافلے میں شامل ہوکر ارض پاک کی طرف جارہی تھی توہندو‘سکھوں نے دھاوا بول دیا اور سب کو قتل کرنے کے بعد اس نوجوان لڑکی اوردوسری بچیوں کے ساتھ درندگی کاوہ مظاہرہ کیاکہ روح تک کانپ اٹھی۔

اس کے جسم پرلگے نشانوں سے زیادہ اس کی روح متاثرہ دکھائی دیتی ہے ۔وہ ہماری بابت جاننے کے بعد گھٹنوں میں سردئیے مسلسل روئیے چلی جارہی ہے ‘ پتہ چلاکہ اسے یہ تک گوارہ نہیں کہ ایک مسلمان بھی اسکے جسم کودیکھ سکے۔ اندازہ ہوا کہ وہ کسی شریف اور عزت دار گھرانے کی لڑکی ہے ابھی ہم سوچ میں غلطاں ہی تھے کہ اچانک اس کے رونے کی آواز میں کمی ہونے لگی اورپھر چندہی لمحوں میں وہ آواز بھی بندہوگئی۔

ہم حیران وساکت تھے ‘ عقدہ اس وقت کھلا جب ہم نے اس نوجوان لڑکی کے کندھے پرہاتھ رکھ کرکہا” بہن“ جواب میں وہ ایک جانب کو لڑھک گئی‘ اس کے جسم کے زخم تو نہیں روح کے زخم اسے موت کی جانب لے گئے تھے۔ ہم رو بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسی بے شمار بچیاں درندوں کے ہاتھ عزت لٹاچکی تھیں۔ ہم آگے بڑھے دیکھا ایک بوڑھی عورت دونوجوان لاشوں کو گود میں لئے بیٹھی ہے آنسو اس کی گالوں پر سوکھ چکے ہیں قریب جانے پرانکشاف ہوا کہ یہ بزرگ خاتون جن دو لاشوں کوگود میں لئے بیٹھی ہے وہ اس کی بیٹی ‘بیٹے کے ہیں۔

ہم نے پوچھا کیاپایا پاکستان حاصل کرکے“ جواب ملا ” سب کچھ لٹاکر بھی اس متبرک نام پربننے والی وہ عظیم دھرتی پائی ہے جہاں اسلام کابول بالاہوگا“ ہم آگے بڑھتے ہیں دیکھا ایک میدان میں بے شمار نوجوان بچیوں کے لاشے بکھرے ہیں‘ ان کے لباس ظاہرکرتے ہیں کہ یہ بھی درندگی کاشکارہوگئیں۔ آگے بڑھے ایک نوجوان لڑکی کو روتے دیکھا پوچھا بہن کیاہوا ؟ بولی شوہر فوت ہوگیاتھا بچے اب واحد سہاراتھے‘ ظالم ہندوؤں نے وہ سہار ابھی چھین لیا۔

پوچھا ”پاکستان کے بدلے بچوں کو کھونا اور سہارا چھن جاناکیسالگا“ سرخ آنکھوں نے گھورتے ہوئے اور غصے کے مارے لرزتے ہونٹوں نے ایک ہی جواب دیا ”ایک ایسی ارض پاک جس کیلئے یہ دوبچے تو ایک طرف سینکڑوں بچے بھی ہوتے تو نچھاورکردیئے جاتے“ ہم آسمان کی جانب سر اٹھاکر ڈوبتی آنکھوں اورچیختی آواز کے ساتھ پکاراٹھتے ہیں ”’مولا! ان معصوم حرمتوں ‘ معصوم کلیوں کی قربانی کا واسطہ ‘ ان ماؤں ‘بہنوں کی آس ٹوٹنے نہ دینا ‘مولاتمہیں اس پیارے محبوب کا واسطہ جس کیلئے تو نے یہ کائنات سجائی‘ سنواری ان معصوم بچوں کی قربانیوں کے صدقے ان خوابوں کوتعبیر عطا کرنا“ندا آئی یہ تو ابتدا ہے دیکھنا اس ارض پاک کیلئے مزید کتنی قربانیاں دیناپڑتی ہیں۔


صاحبو!ہمارے سامنے تاریخ کی وہ کتاب کھلی ہے جس کے ایک صفحے پر ایک بین کرتی بیوہ کی تصویر ہے تو اگلا صفحہ جلتے گھروں سے کاعکاس ہے۔ ہم ان تصویروں میں مستغرق ہوکر خودکو اس ماحول میں پارہے تھے ۔ پھر آنکھوں میں تیرتے آنسو جب گالوں پرآئے تو دیکھا یہ 1947کازمانہ نہیں بلکہ یہ 2015 کادور ہے جب ان خوابوں کو تعبیرمیسرآچکی ہے‘ اللہ اوراس کے پیارے رسولﷺ کے نام پروجود میں آنے والی دھرتی پاکستان کڑے امتحانوں سے گزرنے کے باوجود سرخر و دکھائی دیتی ہے لیکن یہ کیا کہ اسلام کے نام پروجو دمیں آ نے والی اس دھرتی میں روح اسلام یعنی پیغمبر آخرالزماں‘ وجہ وجود کائنات کی ناموس کو خطرہ لاحق ہوچکاہے۔

ہم تاریخ کی اس کتاب کاوہ صفحہ پلٹتے ہیں کہ جب اس بوڑھی عورت نے کہاتھاکہ ”سب کچھ لٹاکر بھی اس متبرک نام پر بننے والی وہ عظیم دھرتی پائی ہے جہاں اسلام کابول بالاہوگا“لیکن آج کا پاکستان تو ان خوابوں کی تعبیر نہیں ہے‘ کہ لاالہ الا اللہ کی عملی تفسیر اس وقت تک سامنے نہیں آسکتی کہ جب تک محمدرسول اللہ کاورد نہ کیاجائے ‘ کہ محمدرسول اللہ ہی مسلمان کی پہچان ہے ‘ پھرجب مسلمانوں کی پہچان ‘ ان کے عقیدے کی بنیاد پر حملہ ہوتو کیونکر دل میں خوش فہمی کوجگہ دی جاسکتی ہے کہ یہ پاکستان ان بوڑھی عورتوں اوراس بیوہ کے خوابوں کی تعبیر ہے جوبڑے حوصلے کے ساتھ سب کچھ لٹانے کے باوجود کہتی رہیں کہ یہ قربانیاں توکیا ہمارے سینکڑوں بچے ہوتے توبھی پاکستان کیلئے قربان کردیتے ۔

پھر کانوں میں اپنی وہ چیختی التجا گونجتی ہے ”’مولا! ان معصوم حرمتوں ‘ معصوم کلیوں کی قربانی کا واسطہ ‘ ان ماؤں ‘بہنوں کی آس ٹوٹنے نہ دینا ‘مولاتمہیں اس پیارے محبوب کا واسطہ جس کیلئے تو نے یہ کائنات سجائی‘ سنواری ان معصوم بچوں کی قربانیوں کے صدقے ان خوابوں کوتعبیر عطا کرنا“ پھر دل میں جھانکتے ہیں ‘پتہ چلتاہے کہ ہم میں ہی توخامیاں تھیں جو اس مشن کو نہ پاسکے جس کیلئے اتنے لوگ جان سے گئے، جان مال کی قربانیاں دینے پر مجبورہوگے۔

الٹا جس مشن کیلئے تجربہ گاہ کے قیام کا ذکر کیاگیا اسی مشن کے بانی کی باربار بیحرمتی معمول بن چکی ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ جن لوگوں کو آپس میں تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہوناتھا وہ کہیں تو دیوبندی، بریلوی، شیعہ، اہل حدیث کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور کہیں سے سندھی بلوچی،پنجابی ،پختون جیسے تعصبات کی بو آرہی ہے۔ الہٰی ․․․․․․․․․․ کیا ہوگیا اس قوم کو ،جس مقصد کیلئے یہ وطن حاصل کیا گیا وہ مقصد تو کسی کو یاد نہیں ،یاد ہے تو صرف اتنا کہ کس نے کس طرح سے لوٹنا ہے ۔
الہٰی رحم کر ،مصطفی کریم کے واسطے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :