اُڑتے اُڑتے ․․․․قیاس آرائیاں

بدھ 8 اپریل 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اڑان بھرنے والی خبرہویا پھر کوئی مادی شئے یاپھر خلائی مخلوق ،او ل تو ا س کااعتبار کرنا ہی نہیں چاہئے ،اگر بہ فرض محال آپ یقین کربھی لیں تو پھر یقینا سمجھاجاسکتا ہے کہ یہ آپ کے دماغ کا ہی خلل ہے، خیر ہمارے ہاں بھی اڑتی اڑتی بلکہ اڑتی پھرتی خبروں پربہت حد تک اعتبار کیاجاتا ہے اس کامطلب ہے کہ پوری قوم ہی ․․․․ خدا نہ کرے کہ ایسا ورنہ تو یہی سوچ ذہن میں آتی ہے کہ خدانخواستہ پوری قوم ہی دماغ کے خلل میں مبتلا ہے کہ سیاست سے چڑ بھی ہے اور ہرپاکستان کے اندر ایک سیاستدان بھی بستاہے، وزیراعظم کا ذکر آئے یا پھر مسکین سے صدر کافسانہ ،ہرشہری اتنی لمبی چوڑی اور تفصیلی بحث کریگا کہ اولاً یہی ظاہرہونے لگتا ہے کہ دھرنے والوں کاکچھ زیادہ ہی اثر لے لیا ہے ، خیر اب نہ تو دھرنے رہے اورنہ ہی ان کی کہانی، دھرنوں سے یاد آیا کہ خیرسے پاکستان تحریک انصاف آٹھ ماہ بعد اسمبلیوں کی زینت بن ہی گئی ،سنا ہے کہ جونہی پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کیلئے پہنچے تو پھر اف اف اف ․․․․․․سنا ہے کہ مچھلی منڈی کا عملی مظاہرہ سامنے آگیا۔

(جاری ہے)

پاکستان کی بیشتر آبادی اول تو مچھلی منڈی کے منظر سے حقیقی معنوں میں ناآشنا ہے اگر کسی نے دیکھا بھی ہوگاتو پھر بھلا کیسے وہ پارلیمنٹ کواس منڈی سے تشبیہہ دے سکتا ہے، خیر سنا ہے کہ عجیب الخلقت نعروں کی گونج ہی گونج تھی اور بس ․․․․․ اڑتے اڑتے یہ بھی سن ہی لی ہے کہ تحریک انصاف نے طے کیاتھا کہ اجلاس میں شریک ہونا ہے، چاہے نعرے لگیں یاپھر ہنکارے بھرے جائیں۔

خیر نعرے تو لگے یہ پتہ نہیں کہ ہنکارے کس کی طرف سے آئے یا آنیوالے تھے، یقینا یہ الزام بھی ایم کیو ایم پر ہی لاداجائیگا کہ کیونکہ ان دنوں یہ ”معصوم“ سی سیاسی جماعت بہت بڑے بوجھ تلے لدی ہوئی ہے ،اللہ جھوٹ نہ بلوائے، جنرل ضیا الحق سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک جتنے بھی دور گزرے اس جماعت نے ”سیاسی دیگ“ میں اپنا”نمک“ ضرور شامل کئے رکھا اور پھر اس معمولی سے حصے کے بدلے میں پوری دیگ کی مالک بنی رہی ، خیر وہ ماضی تھا یہ حال ہے اور یہ حال ان دنوں بے حال ہی دکھائی دیتاہے ، کوئی پوچھے بھی تو ا س انداز میں بتایاجاتاہے کہ سامنے کھڑاکوئی پتھر دل بھی پسیج جائیگا۔


خیر اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ الگ کہانی یوں بھی نہیں ہے کہ یہ ”تہذیب یافتہ جمہوری ملکوں “ میں عام ہوگیا ۔ پہلے مغرب کی مثال دی جاتی ہے اوران کے مہذب ہونے کا فسانے کانوں میں گاڑھے جاتے تھے مگر جب سے وہاں بھی کرسیاں اورمائیک چلنے کی باتیں سامنے آئی ہیں یقین کریں کہ ہمیں اپنی اسمبلیاں زیادہ پیاری لگنے لگی ہیں کہ ایک دوسرے کو غلیظ گالیاں دے دیں گے مگر خداواسطے کی کہئے کہ کسی نے مائیک یاکرسی اٹھاکر ایک دوسرے کو دے ماری ہو، یہ الگ بات کہ عورتیں اسمبلیوں میں کھلے عام چوڑیاں اتارکر مردوں کے منہ پر دے مارتی ہیں لیکن یقین کریں کہ کسی نے دوسرے کو ڈسٹ بن اٹھاکر پھینکی ہو، ہاں یہ تو ہوسکتاہے کہ کوئی خاتون رکن اسمبلی مرد وں کے منہ پر اپنادوپٹے دے مارے اور کہے ”سالے بڑے مرد بنے پھرتے ہو “ لیکن کوئی ہلکی سی پن بھی مارنے کی کہانی سننے کو نہیں ملی۔


اگر پڑھنے والوں کو یاد ہوتو 1988سے لیکر 1999تک ،اسمبلیوں کی رنگا رنگی اورچکاچوند ہی الگ سی تھی، یقینا کوئی ایسا اجلاس نہ گزراہوگا کہ جس میں بیچارے سپیکر کو چیخ چیخ کر ”سائلنس پلیز“ کے التجا نہ کرنا پڑی ہو۔
صاحبو! پی ٹی آئی کی اسمبلیوں میں واپسی پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاسکتی ہیں بلکہ کئی طرح کے کاغذ کے جہاز اڑائے جاسکتے ہیں کہ عمران خان نے وزیراعظم سے طے کیاتھا کہ اسمبلیوں میں آمد پر ان کا اس انداز میں ’‘’والہانہ “استقبال نہیں ہوگا اورکوئی انہیں ”لوٹ کے بدھو “ والی ضرب المثل نہیں سنائے گا نہ ہی کسی کونے کھدرے سے سیٹیوں کی آوازیں کانوں میں پڑیں گے لیکن برا ہو ن لیگی پارلیمنٹرینز کی ،کہ نعرے بھی لگے اورسیٹیاں بھی سنائی دیں۔

لوٹ کے بدھو والی ضرب المثل ایک بار نہیں باربار دہرائی گئی۔ ہوسکتاہے کہ اجلاس کے بعد مستقبل کے وزیراعظم (بقول پی ٹی آئی) عمران خان نے موجودہ وزیراعظم کو کہا ہو ”میاں جی آپ کا وعدہ کیا ہوا ؟؟؟“ میاں جی جو پہلے ہی تپے بیٹھے تھے فوراً ہی کانوں کو ہاتھ لگاکرکہیں ”اللہ قسمے ۱خانصاحب مینوں تے پتہ ای نئیں سی“ عمران خان بھی اپنی ضد کے پکے ہیں وہ اپنی ضد پرڈٹ گئے بس پھر میاں جی کی ہوائیاں ہی اڑتی دکھائی دیتی رہی ہوں گی۔

پھر یہ بھی بھی امکان ہے کہ سیٹیاں اور نعرے لگانے والوں کی کلاس لگی ہوگی ؟؟ یقینا یہ سب قیاس آرائیاں ہیں ورنہ اندرونی کہانیاں تو خیر کچھ اورہی ہوسکتی ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں داخل ہونے سے پہلے انسان کو دو کام لازمی طورپر انجام دیناپڑتے ہیں اول یہ کہ اپنے ضمیر کو ایٹی ون کی ایک آدھ نہیں کئی گولیاں دیکر سلاناپڑتا ہے ،دوئم کسی ایک خاص پارٹی کا چہیتا بننے کی بجائے ”لوٹا“ بننے کے اوصاف پیداکرنا پڑتے ہیں اور یقین کریں کہ جو ایسے اوصاف نہ رکھتا ہو وہ بیچارا اول تو سیاست کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا اگر ”آمرانہ دھکے“ سے سیڑھیاں چڑھ بھی گیا تو پھر اسمبلی میں زیادہ دیر ٹک کرنہیں رہ سکتا ۔

اگر فرض کرلیں کہ وہ ٹک بھی گیاتو وہ وزیراعظم نہیں بن سکتا اگر ایسا بھی ہوجائے تو پھر اسے معجزہ ہی تصورکیاجاسکتاہے ۔یقینا ایسا ہونا ناممکن سی بات ہے کہ پاکستانی سیاست میں بھی معجرات رونماہونے لگیں ۔سنا ہے کہ بیرون ملک ریسرچ کیلئے گئے ایک پاکستانی نے اپنے غیرملکی استاد سے پوچھا کہ ”کیا یہاں بھی گھوڑوں، گدھوں کی منڈیاں لگتی ہیں“ جواباً وہ بولا ” جی لگتی تو ہیں مگر یہاں آپ کی طرح انسان نہیں بکتے“ یقینا ان صاحب کا اشارہ اسمبلیوں کی جانب ہی تھا ،ورنہ منڈیوں میں انسان بکنے کی کہانی پورے پاکستان میں عملی طورپر کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ رہے نام اللہ کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :