نیکو

بدھ 8 اپریل 2015

Muhammad Sajid

محمد ساجد

اقتدار کی کرسی اکثر بربادی کا سامان بنتی ہے اور بربادی کی بنیاد نا اہلی اوربے عقلی ہوا کرتی ہے ،طاقت کا خمار شعور اور دوراندیشی کی فصل کو اجاڑ دیتا ہے مسلم لیگ نون کا المیہ بھی یہی ہے۔جلاوطنی کے دنوں میںخود اپنی کئی غلطیوں کا اعتراف کرنے والے ہمارے حکمرانوں نے طاقت اور اقتدار ملنے کے بعداسی پرانی روش اور رِیت کو جاری رکھا ہے ۔

لندن میں تو یہی ہمارے حکمران ایسے دعوے کرتے تھے کہ یوں محسوس ہونے لگا ان سے بہتر دنیا میں اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا،لیکن جب لندن سے نوازشریف پاکستان واپس لوٹے تو بقول رئوف کلاسرا،میاں نوازشریف نےہر وہ کام کیا جس کے نہ کرنے کی روزانہ قسمیں کھائی جاتی تھیں ۔
نواز لیگ حکومت نے یوں تو کئی روایات، مثالیں ایسی قائم کی ہیںجن کے نتائج قوم کی کئی نسلوں کو بھگتنا ہوں گے ان میں سب غلط جو روایت یا مثال قائم کی جا رہی ہے وہ محمد علی نیکوکارا جیسے آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے افسرکی برخواستگی ہے جنہوں نے دھرنے پر پولیس فورس استعمال کرنے کےحکمرانوں کے زبانی احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف تحریری احکامات کا مطالبہ کیا تھا،لیکن اس ملک کےسیاستدان اقتدار میں آکر اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے لگ جاتے ہیں،لہذا انہیں پسند نہیں آیا کہ ایک چھوٹے افسر کی یہ ہمت کہ ہم سے تحریری احکامات مانگے جائیں۔

(جاری ہے)

یہی حکمران ، سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انکے رویے انکے معیار مختلف ہوتے ہیں لیکن حکمرانی اور طاقت کے خمار میںیہ یکسر بدل جاتے ہیں۔یہ کوئی بیس سال پرانا قصہ نہیں، کچھ سال پہلے کا ہی ہےجب آپ اپنی غلطیاں سدھارنےطویل جلاوطنی کے بعد نئے عہد نئے ارادوں کے ساتھ پاکستان پہنچے۔
سپریم کورٹ نے میاں نوازشریف اور شہبازشریف کو نااہل قرار دیتے ہوئےپنجاب حکومت ختم کر دی تھی اور صدارتی حکم پر پنجاب میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔

تو نوازشریف نے نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیابلکہ شیخوپورہ جلسے میں سرکاری افسران کو حکومتی احکامات نہ ماننے کی تلقین کی اور کہا کہ پولیس اور انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے، صدر زرداری اور وفاقی حکومت کے احکامات ماننے سے انکار پر معطل کئے جائیں گے انہیں میں اپنے ہاتھوں سے بحال کرتے ہوئے بہترین پوسٹنگ دوں گا ، پھر براہ راست تمام چینلز پر دیکھا گیا کہ ایک کانسٹیبل اچھل نوازشریف کے پاس سٹیج پر پہنچا اور پنجاب پولیس کی ٹوپی اوربیلٹ اتار کر نوازشریف کے قدموں میں رکھتے ہوئے نوازشریف زندہ باد کے نعرے لگانے لگا جس پر میاں صاحب نے اسے گلے لگایا اس کا ماتھا چوماپھر اس کے گلے میں گلاب کے پھولوں کا ہار پہنایا اس وقت نوازشریف نے بیلٹ پولیس اہلکار کو واپس دی اور کہا کہ پولیس میں ہی رہتے ہوئے اپنے افسران بالا کے غیر قانونی،غیر آئینی احکامات کو ماننے سے انکار کر دو،استعفی نہ دو، اگلے ہی روز اس کانسٹیبل کو،حکم عدولی کے مجرم کو،رائیونڈ میں اپنی ذاتی سیکورٹی سٹاف میں رکھ لیا۔

اسی طرح لانگ مارچ کے دوران ڈی سی او لاہور سجاد بھٹہ نےمیڈیا پر آ کے وفاق کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھااور ایس پی گجرانوالہ اطہروحید نے بھی گورنر پنجاب کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے لانگ مارچ کا والہانہ استقبال کیا۔ جنہیں میاں برادران نے خوب شاباش دی اور نوید سنائی کہ ان کی حکومت آتے ہی انہیں بحال کر دیا جائے گا۔
محمد علی نیکوکارا کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح کےسبق کو یاد رکھتے ہوئے ایمانداری سے اس پر عمل کیا کہ ’’حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔

سرکاری افسران کی وفاداری حکومت کی بجائےریاست اور ریاست کے قانون کے ساتھ ہونی چاہیے۔سرکاری افسران قانون کے مطابق اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کا دبائو قبول نہ کریں‘‘۔ لانگ مارچ پر پیپلزپارٹی کےحکم سے انکارکرنےوالے پولیس اہلکاروں کونوازشریف شاباش دیتے ہیں انہیں گلے سے لگاتے ہیں پھولوں کے ہار پہناتے ہیں لیکن نیکوکارا تحریری حکم نامہ مانگے توبرطرفی؟ یعنی اقتدار کی کرسی ملتے ہی آپ کے سٹینڈرڈز اس حد تک بدل جاتے ہیں کہ کوئی افسر کوئی اہلکار قانون اور آئین کے خلاف کام کرے تو اس کے لئے کوئی سزا نہیں لیکن آپ کے حکم پر سوال اٹھائے تو اسے نہ صرف برخواستگی کا سامنا کرنا پڑتا ہےبلکہ اقتدار کے خاتمے تک اسے طرح طرح کی اذیتوں، دھونس، دھمکیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔


ہمارے موجودہ حکمرانوں نے اپنے طویل دور اقتدار میں قانون اور آئین سے تجاوز کرکے اپنی پسند ،ناپسند میں ، سیاسی مقاصد اور اپنے مفاد میںملکی اداروں اور اداروں میںپولیس کے ادارے خصوصاً پنجاب پولیس کواستعمال کرتے ہوئےجو نقصان پہنچایا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملے گی۔اب حالت یہ ہے کہ جہاں پولیس واردات کے بعد وزیراعلی کے نوٹس کا انتظارکرتی رہے کہ جب تک خادم اعلی تک خبر نہیں پہنچ جاتی تب تک ہماری کوئی ذمہ داری نہیں، اسے کہتےہیں بدلا ہوا پنجاب۔


اوراس بدلے ہوئے پنجاب میں خادم اعلی نے پچھلے سات سال میں جتنے بھی نوٹسز لئے ان میں سے کسی کا کوئی نتیجہ آج تک سامنے نہیں آسکا کیونکہ اس میں زیادہ تر ملوث بااثر شخصیات ہوتی ہیں یا وہی پولیس اہلکار جو ضرورت کے وقت سیاسی مفاد میں استعمال کئے جاتے ہیں۔اب تو شہبازشریف اگر قانون کی خلاف ورزی کرنے والے اور جرائم میں ملوث اہلکاروں اور افسران کو لٹکانے کی بات کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے آپ کو زرداری سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

اور معطلی کو تو ہرمحکمہ خصوصاً پولیس ، اپنے لئے تمغہ سمجھتے ہیں، اور اس محکمے میں یہ تمغہ ماتھے پر سجائے جانے والے عزت دار ٹھہرائے جاتے ہیں۔اور کیازبردست حکمرانی ہے کہ جس کے خلاف بھی ایکشن لینے کی سفارش کی گئی اسے خادم اعلی نے مزید ترقی اور اعلی مرتبے سے نواز دیا۔جیسے کہ گوجرہ واقعہ میں ذمہ دار قرار پولیس افسر کو ترقی دے کر لاہور چیف لگا دیا گیا،فلڈ کمشن 2010 میں ذمہ دار ٹھہرانے والے سیکرٹری کوشہبازشریف ترقی دے کر سیکرٹری انرجی اور بعد میں اسحاق ڈارنے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سیکرٹری لگا دیتے ہیں۔

اسی طرح خواجہ شریف قتل سازش کے مرکزی کرداروں کو بڑی پوسٹ پر ترقی دے دی جاتی ہے۔سری لنکن ٹیم پر حملہ روکنے میں ناکامی پر ذمہ دار ٹھہرائے جانے والےپولیس افسران کے خلاف عدالتی کمشن کاروائی کی درخواست کرتا ہے شہبازشریف انہیں بھی ترقی دے دیتے ہیں۔اور حال ہی میں، ماڈل ٹائون میں قتل عام کے کسی ذمہ دار کو نہ کوئی سزا دی گئی نہ ہی کوئی کاروائی ہوئی۔

بلکہ مرکزی کردار کو سفیر لگا دیا گیا۔
شریف برداران کے باغ کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار اگر شاہی امرود توڑ کے کھا جائیں تو آپ نے انہیں سیدھا سیدھا برخواست کر دیتے ہیں لیکن ماڈل ٹائون جیسے واقعات میں جب انسانی جانوں کا نقصان ہو جائے تو ان پولیس افسران کو شاباش دے کر ترقی دے دی جاتی ہے۔کسی اور حکومت کے تحریری احکامات اگر افسران نہ مانیں تو میاں صاحبان انہیں ہار پہناتے ہیں ترقیاں دے دیتے ہیں لیکن ان کی اپنی حکومت میں ان کے غیر قانونی اور زبانی احکامات کوئی ماننے سے انکار کر دے تو نہ صرف اسے برطرفی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اسکی زندگی عذاب بنا دی جاتی ہے۔

کتنی اورمثالیں دیں ؟
اس ملک کے حکمرانوں نے جمہوریت کو ہر غلطی پر پردہ ڈالنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔ عوام کے ووٹوں کو غلطیوں کے سامنے ڈھال کے طوراستعمال کرتے ہیں۔
جمہوریت کو اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ بری حکمرانی سے ہے۔اورتباہی غلطی سے نہیں، غلطی پر اصرار سے آتی ہے۔ہمارے حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح انسانی جسم کے لئے خون ضروری ہے اسی طرح انسانی معاشرے کو زندہ اور توانا رکھنے کے لئے انصاف ناگزیر ہے۔

لیکن اداروں کو کمزور بنا کر افسران کو قانون اور ریاست کی بجائے اپنا ذاتی ملازم سمجھ کے، معاشرے کو تباہ کیا جا رہا ہے۔اور چونکہ اداروں اور تھانہ کلچر کوبہتربنانے میں کرپشن کے مواقع بھی کم ہوتے ہیں اور اسکا فائدہ صرف عوام کو ہوسکتا ہے اسلئےہمارے حکمران اسے حکمرانی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے ہمارے حکمران نیکوکار کو کبھی تسلیم ہی نہیں کرتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :