ہمارا مستقبل کیا ہے

پیر 6 اپریل 2015

Hussain Jan

حُسین جان

بے روزگاری،غربت،اقرباپروری،دہشت گردی، کرپشن ،خودکشیاں،جہالت اور اس جیسی بیشمار برائیاں ہیں جنہوں نے ہم پاکستانیوں کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔قتل و غارت کا بازار گرم ہے ،سٹریٹ کرائم معمول کی بات ہے ۔مہنگائی کے جن کو ہر حکومت نے بوتل میں بند کرنے کا دعوع کیا مگر افسوس اس میں کوئی کامیاب نہ ہوسکا۔ سرکاری سکولوں کی حالت بد سے بتر ہو چکی ہے، یہی حال سرکاری ہسپتالوں کا ہے ۔

لیکن افسوس ہمارے حکمران ہیں کہ نا اہل ہونے کے باوجود بھی خود کو شیر شاہ سوری سے بہتر سمجھتے ہیں عوام کا طرز زندگی پستیوں کی انتہا کو پہنچ چکا ہے،ایسے ممالک جن کے پاسپورٹ کی کوئی اوقات نہیں اُس میں ہم آخری نمبروں میں آتے ہیں۔ ہمارا شمار اُن بدقسمت قوموں میں بھی ہوتا ہے جسکی اکثریت کے پاس گھروں میں واش روم تک نہیں ہے۔

(جاری ہے)

بوڑھے ماں باپ اپنے بچوں کی شادی کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

پتا نہیں کتنے بدقسمت پاکستانی روزانہ بھوکے سوتے ہیں شہروں کی حد تک میلے ٹھیلے لگا کر دل کو تسلی دی جاتی ہے کہ ہم اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ بہار کا جشن منا سکیں۔ حال تو یہ ہے کہ ایک سڑک تو ڈھنگ سے بنتی نہیں لیکن خود کو موٹر ویز کے بانی تصور کرتے ہیں۔ رشوت ستانی کا عالم یہ ہے کہ غریب اپنے گھر کا بجلی کا میٹر نہیں لگوا سکتا۔ سرکاری افسر عوام کے پیسوں پر سانڈ کی مانند دنداتے پھرتے ہیں غریب عوام کی داددرسی تو دور کی بات یہ غریب انسان کو اپنے پاس کھڑا بھی نہیں ہونے دیتے۔

عوام کے پیسوں سے یہ اور ان کے بچے لمبی لمبی گاڑیوں میں پھیرتے ہیں اور ان کی خواتین لندن پیرس سے خریداریاں کرتی ہیں۔
پاکستان شائد دُنیا کا سب سے بدقسمت ملک ہے جس کے تقریبا 95فیصد ذہین لوگ ملک سے بھاگ جانا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کو یقین ہے کہ اس ملک میں اُن کا کوئی مستقبل نہیں ،تعلیم جو کہ کل تک قوموں کی ترقی کا راز ہوتی تھی ہمارے ہاں زوال کی علامت بن چکی ہے، بڑئے بڑئے نجی سکول ہزاروں میں فیسیں وصولتے ہیں اُنہی کے پڑھے ہوئے بچوں کو اچھی نوکریاں مل جاتی ہیں جبکہ غریب پاکستانی مجبورا اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرواتے ہیں جہاں پر اُن کو مزید جہالت کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔

امیر لوگوں کا یہ عالم ہے کہ ہر وقت دعا مانگتے ہوں گے کہ یار کوئی چھوٹی موٹی بیماری ہی لگ جائے چلوں اسی بہانے کچھ ریسٹ کا موقع مل جائے گا جبکہ غریب دن رات دُعا مانگتا ہے کہ بخار بھی نا ہو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ بستر پر پڑ گیا تو پورے گھر کا نظام خراب ہو جائے گا۔
بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ نے ملکی اندسٹری کو تباہ برباد کر دیا ہے ، لوگوں نے اپنا پیسہ بیرون ملک شفٹ کرنا شروع کر دیا ہے۔

بڑئے بڑئے سرمایاکار بھاگ گئے ہیں ،ہماری حکومتیں ہمیشہ دوسرئے ممالک کے آگے سرمایاکاری کی بھیک مانگتے نظرآتی ہیں اگر یہی حکمران اپنے سرمایا کاروں کو سہولتیں اور سکیورٹی مہیا کریں تو پاکستان کو باہر کے سرمایا کاروں کی ضرورت ہی نا رہے۔ ملک پچھلے کئی سالوں سے انرجی کے مسائل سے دوچار ہے مگر کسی نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا۔

ہماری پنجاب حکومت کی بھی کیا بات ہے ،روزانہ اخبارات میں لاکھوں کے اشتہارات دیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ ہوتا دیکھائی نہیں دیتا، صرف اشتہارات دینے سے کوئی تاجر ضروریات زندگی کی قیمتیں کم نہیں کرتا بلکہ اس کے لیے حکومت کو عملی اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔
گڈگورننس کا یہ عالم ہے کہ عین سرکار کی ناک نیچے لاہور کے جیلانی پارک میں جشن بہاراں نامی میلہ سجایا گیا، جس میں کھانے پینے کی عارضی دُکانے سجائی گئیں جن کے کھانے کا معیار انتہائی گھٹیا اور قیمتیں بہت زیادہ تھیں مگر افسوس حکومتی لوگوں کو یہ سب نظر نہیں آتا
اگر پاکستان کے موجودہ حالات کا ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستانیوں کے مستقبل کے بارئے میں جاننے میں کوئی دیر نہیں لگے گی، ہر طر ہاہا کار مچی ہوئی ہے ، ہمارے حکمران ساری زندگی پہلے ہمیں یہ کہ کر تسلی دیتے رہے کہ ہم اپنی نہیں امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں پھر حالات نے رُخ بدلاتو یہ جنگ ہماری اپنی ہو گئی ،کیا اسی طرح ایک اور جنگ ہم پر مسلط کی جارہی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں جب تک دُنیا میں مسلمان موجود ہیں مکہ اور مدینہ پر کسی قسم کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے ، مگر حکومتی گروپ لوگوں سے ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں ہمیں کیا پڑی ہے پرائی جنگ میں سر دھنسنے کی ہمیں چاہیے کہ ہم امن و امان کے ساتھ اس معاملے کو حل کرنے میں مدد دیں۔ ہمارے اپنے پاس تو کچھ موجود نہیں پرائی آگ میں عوام کو کیوں جھونکا جائے۔

طالبان جن کو کبھی مجاہدین کا لقب دیا جاتا تھا آج وہی دہشت گرد ہیں اور ہمارے ملک میں قتل و غارت کرتے پھر رہے ہیں ہم تو پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں ، دہشت گری کی وجہ سے ہی ہمارا معاشی ڈھاچہ تباہ ہو چکا ہے، غرب بڑھتی چلی جا رہی ہے، بے روزگاری عروج پر ہے، اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو یہ پھر ہمارا مستقبل اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ابھی بھی وقت ہے ہمارے سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور وہی فیصلہ کرنا چاہیے جس سے عوامی بھلائی ہوتی ہو۔

اس کے ساتھ ساتھ جب تک ہم خاندانی سیاست سے نہیں نکل جاتے ہمارا مستقبل تاریک ہی رہے گا، عام انتخابات میں تو خاندانی لوگ شامل ہوتے ہی تھے لیکن اب تو بلدیاتی انتخابات میں بھی خاندانوں کو ہی نوازا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمران کب تک ہمیں یو ہی اندھیرے میں رکھیں گے یہ تاریخ میں زندہ رہیں گے یا قصہ پارینا بن جائے گے۔
67سال ہو گئے ہیں اس ملک کو بنے مگر ہم آج تک بہتری کی طرف کوئی قدم نہیں اُٹھا پائے، سیاستدان اور افسران اس قوم کے اپنے محکوم سمجھتے ہیں ، یہ ہر وہ کام کریں گے جن میں ان کی اور ان کے خاندان کی بہتری ہوتی ہو ۔

عوامی مسائل کو حل کرنے کا انہوں نے کبھی سوچا نہیں بس کوشش ہوتی ہے میڈیا پر آکرکے لوگوں کو اُلو بنایا جائے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا شمار اُن اقوام میں بھی ہوتا ہے جن کو اُلو بنانا سب سے آسان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :