وفاقی وزیر مذہبی اُمور سردار محمد یوسف سے مکالمہ

ہفتہ 4 اپریل 2015

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

سردار محمد یوسف وفاقی وزیر مذہبی امور کی حیثیت سے دو سال مکمل کرنے والے ہیں۔مجھے ان کے ساتھ دو حج 2013-14ء ایک مکتب میں کرنے کی سعادت حاصل ہو چکی ہے۔ ان کی سادگی درویشی کی خبریں بہت شائع ہو چکی ہیں۔ ان کو قریب سے دیکھنے منیٰ، عرفات میں وقت گزارنے کا موقع ملا ہے ان کے خیالات سے استفادہ براہ راست کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اس کی وجہ سردار محمد یوسف کی شخصیت نہیں تھی بلکہ ان کے گردونواح میں ماحول بنانے والے افراد کا زیادہ عمل دخل نظر آیا جو خود سردار محمد یوسف کو پروٹوکول کے حصار میں اپنے قریب رکھنے کے چکروں میں رہتے ہیں۔

31مارچ کو لاہور حاجی کیمپ کی رونق اور اپنے محسن ڈائریکٹر حج سعید احمد ملک کی خیریت دریافت کرنے کے لئے 10بجے صبح فون کیا تو ملک صاحب نے فرمایا۔

(جاری ہے)

ایئرپورٹ پر ہوں۔ وفاقی وزیر صاحب تشریف لا رہے ہیں ان کے ساتھ رہوں گا انہوں نے علامہ حنیف جالندھری کے جوہر ٹاؤن میں واقع مدرسے میں مصروفیات اور قذافی سٹیڈیم ہال میں سیمینار کی تفصیل بتائی تو میں نے درخواست کر دی اگر مجھے سردار محمد یوسف صاحب سے انٹرویو کے لئے وقت مل جائے۔

حج پالیسی 15 اور پرائیویٹ حج سکیم کے حوالے سے مارکیٹ میں گردش کرنے والے خدشات کے حوالے سے تصدیق کرلی جائے۔ ڈائریکٹر حج نے ہمیشہ کی طرح محبت کرتے ہوئے 12بجے فون کر دیا۔ دو بجے آپ جوہر ٹاؤن میسج سکول آ جائیں۔ سردار محمد یوسف صاحب نے وقت دے دیا ہے۔ روزنامہ پاکستان میں سوابجے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کر 2بجے جوہر ٹاؤن پہنچ گیا۔ جناب سعید ملک اور وفاقی وزیرکے سیکرٹری کے پی ایس نے استقبال کیا اور فرمایا آپ کا وقت طے ہے، لیکن 20منٹ مل سکیں گے باتیں ہو رہی تھیں۔

سردار صاحب باہر آئے اور فرمانے لگے آئیں نماز پڑھ لیں پھر انہوں نے وہاں موجود افراد کی امامت کی اسی اثناء میں علامہ حنیف جالندھری صاحب رونق افروز ہو گئے۔ میری درخواست پر سردار محمد یوسف صاحب نے تنہائی میں وقت عنایت فرمایا۔ میرا پہلا سوال تھا کہ حج 2015ء کتنا سستا کررہے ہیں۔ سردار صاحب نے فرمایا حج 2015ء تو شاید سستا نہ کر سکیں البتہ 2014ء سے مہنگا نہیں کریں گے۔


کھانا تمام حاجیوں کو دیں گے 50فیصد عازمین براہ راست مدینہ جائیں گے اور 50 فیصد جدہ جائیں گے۔5کلو زم زم حاجی کے لئے ناکافی ہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا واقعی حاجی کے لئے زم زم کا تحفہ ہی ہوتا ہے۔ وزیر حج سعودیہ سے درخواست کی ہے۔5 کلو کی شرط پاکستان کے لئے نہیں ہے۔ پوری دنیا کے لئے ہے اس کے باوجود سعودی وزیر نے غور کا وعدہ کیا ہے۔ پی آئی اے کی طرف سے حج کرایہ کم نہ کرنے اور صرف 32کلو وزن لانے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا پٹرول سستا ہونے کے تناسب سے حج کرایہ سستا کرنے کی بات ہو رہی ہے۔

45کلو وزن لانے کی بھی بات کریں گے۔
لاہور میں حاجی کیمپ نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا لاہور میں واقعی حاجی کیمپ کی وجہ سے مسائل ہیں۔ متروکہ املاک سے بات کریں گے ۔ لاہور میں مثالی حاجی کیمپ بن جائے اور کراچی کے حاجی کیمپ کی تزین آرائش اور کوئٹہ حاجی کیمپ میں نیابلاک بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔


پرائیویٹ حج سکیم ختم کی جا رہی ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور حج کوٹہ نئے لوگوں کو دینے کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا پرائیویٹ سکیم ختم نہیں کر رہے البتہ مانیٹرنگ سخت کر رہے ہیں، کیونکہ دو سال سے سرکاری حج کو بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔لوگوں کا خیال ہے کہ سرکاری حج کوٹہ زیادہ کیا جائے۔ اس پر ضرور غور ہوا ہے۔ پرائیویٹ سکیم میں اچھا کام کرنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں اچھا کام نہ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف ایکشن لے رہے ہیں۔

حاجی کے ساتھ کمٹمٹ پوری نہ کرنے والوں کی چھٹی ہوگی۔ البتہ اچھا کام کرنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سعودیہ یمن جنگ کے حوالے سے سردار محمد یوسف نے بتایا حرمین شریفین کی حفاظت امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے دل ان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان ثالثی کا کرادر ادا کرے گا۔ مدارس کے خلاف آپریشن کے جواب میں کہا مدارس کے خلاف کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔

مدارس کی رجسٹریشن کی ذمہ داری صوبوں کو دے دی گئی ہے۔
سردار محمد یوسف نے کہا دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ان کے اندر انسانیت ہوتی ہے، ان کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
وفاقی وزیر سے ہونے والے مکالمے کی تفصیلات روزنامہ ”پاکستان“ کی زینت بن چکی ہیں۔ کچھ اب تحریر کر دی ہیں۔پرائیویٹ حج سکیم کے حوالے سے جنم لینے والے خدشات اور حج آرگنائزر کا اضطراب کاروبار چھن جانے کا خوف حج کوٹہ کی تقسیم کے لئے وزارت کی طرف سے پنڈورابکس کھولنے کی خبریں حقائق کیا ہیں ہم نے شائع کر دی ہیں۔

پرائیویٹ حج سکیم احتجاجی مظاہروں سے بچ سکتی ہے تو وہ افراد ہوپ کے خلاف غصہ نکالنے کی بجائے خود میدان میں آئیں۔ سیاستدانوں سے ملاقاتیں کریں، میڈیا میں آئیں اشتہارات دیں وقت تیزی سے گزر رہا ہے جس کو آج کی فکر نہیں تو اس کو کل کی فکر کیسے ہو سکتی ہے۔ الله کے مہمانوں کی خدمت کا اعزاز کسی کو دنیا کے کسی وزیر یا سیکرٹری کا اختیار نہیں صرف یہ کلیئر ہوجائے تو سارا فساد ختم۔

نہ کوئی کسی کا رزق چھین سکتا ہے نہ گھٹا بڑھا سکتا ہے۔ عزت ذلت بھی الله کے ہاتھ میں ہے، البتہ آپ کی زبان سے نکلی ہوئی بات آپ کی نہیں رہتی۔ وفاقی وزیر سردار محمد یوسف سے مکالمہ کے بعد روزنامہ پاکستان کے قارئین کے لئے خوشخبری ہے۔ وزارت مذہبی امور کی خبروں سے آگاہ رہنے کے لئے آپ روزنامہ ”پاکستان“ کے مطالعہ کو معمول بنا لیں۔ خدشات خود بخود ختم ہوتے چلے جائیں گے۔

الله پر بھروسہ تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ روزنامہ پاکستان حج آپریشن 2015ء کی تفصیلات اور پرائیویٹ حج کی بکنگ کے لئے روزانہ کی بنیاد پر قارئین کو آگاہ کرنے کے انتظامات کر رہا ہے۔
جہاں تک عالمی منظر نامہ کا تعلق ہے تو چین کے صدر کادورہ پاکستان ایک مرتبہ پھر التواء کا شکار ہے۔ لیکن اس کا یمن سعودی عرب تنازعہ سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لگ رہا، کیونکہ یہ دورہ تو پہلے بھی کئی بار التواء کا شکار ہو چکا ہے۔

اس کے پیچھے اور بھی کئی عوامل ہیں۔ روس پہلے بھی کوئی پاکستان کے بہت قریب نہیں ہے۔ روسی صدر پوٹن کے دورہ پاکستان کی باز گشت بھی بہت پرانی ہے ، لیکن آج تک ممکن نہیں ہوا، حالانکہ وہ بھارت ہو کر گئے ہیں۔ امریکہ تو سعودی اتحا د کا حصہ ہے۔ ایران ایک طرف ہے۔ یہ خبریں بھی آئی ہیں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی اس وقت یمن میں ہیں، لیکن جو لوگ اس وقت یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اس تنازعہ میں سعودی عرب کی حمائت سے ایران ناراض ہو جائے گا وہ یہ نہیں بتا رہے کہ حمائت نہ کرنے سے سعودی عرب ناراض ہو جائے گا اور ایران بھی راضی نہیں ہو گا۔

صحافی سے سیاست دان بننے والے سینیٹر سید مشاہد حسین اکثر نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ غیر جانبداری کچھ نہیں ہو تی۔ کوئی ملک غیر جانبدار نہیں ہو سکتا۔ ایک طرف تو ہو نا ہی پڑے گا۔ اس لئے سعودی عرب ہی فی الحال پاکستان کے لئے بہتر آپشن ہے۔
سعودی عرب کے معاملہ پر حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس اجلاس میں کیا ہو گا۔

مسلم لیگ (ن) ایک حکومتی جماعت ہے اور اس کے تمام ارکان تو حکومتی پالیسی کو غیر مشروط پر سپورٹ کریں گے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مجموعی طور پر دوسری بڑی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی گو کہ ابھی تک گو مگو کاشکار ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق صدر آصف زرداری نے پہلے ایک پالیسی بیان جاری کیا کہ پیپلز پارٹی کے مختلف لیڈر ان نے یمن سعودی عرب تنازعہ پر جو رائے کا اظہار کیا وہ پیپلز پارٹی کی پالیسی نہیں ہے۔

اس بیان میں سعودی عرب کی حمائت کا عندیہ بھی دیا گیا ۔ اس پالیسی بیان کے بعد سیاست کے استاد سابق صدرآصف علی زرداری نے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کا ایک اجلاس بھی طلب کر لیا ۔ یہ اجلاس کوئی اس قدر کامیاب نہیں رہا ،کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن اور سراج الحق شریک نہیں ہو ئے اور اسفند یار ولی کی پارلیمانی طاقت بہت کم ہو چکی ہے، جبکہ اس نازک صورت حال میں ایم کیو ایم شائد حکومت کے ساتھ ہی جائے گی۔

وہ شائد حکومت کے خلاف نہیں جا سکتی۔
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو وہ اور ان کی جماعت فی الحال پارلیمنٹ میں واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں، گو کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جیو ڈیشل کمیشن کے قیام پر معاہدہ ہو چکا ہے اور عمران خان کی جوڈیشل کمیشن کی شرط پوری ہو چکی ہے، لیکن پھر بھی عمران خان اور ان کی جماعت پارلیمنٹ میں واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہے۔

عمران خان نے خود تسلیم کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں واپسی کے حوالہ سے ان کی جماعت میں اختلاف ہے۔ ایک عمومی رائے ہے کہ سعودی عرب فوج بھیجنے کے حوالہ سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پہلے عمران خان کی واپسی ممکن نہیں۔ اس لئے عمران خان سعودی عرب پر جو بھی رائے دے رہے ہیں۔اس کا کوئی اثر نہیں، کیونکہ وہ رائے شماری کے وقت پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہو نگے۔


اِسی طرح مولانا فضل الرحمن بھی کوئی درمیان کا راستہ نکال لیں گے۔ یہی ان کی سیاسی مہارت ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے معاملہ پر بھی انہوں نے پہلے اپوزیشن کی حمائت کا اعلان کیا، پھر اپنا اعلان واپس لے لیا اور کہا کہ وہ پہلے وزیر اعظم کو ملیں گے۔ بعد میں انہوں نے وزیراعظم کو اپوزیشن کی حمائت پر راضی کر لیا اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا عہدہ حاصل کر لیا۔

اِسی طرح اکیسویں ترمیم کے وقت بھی وہ آخری وقت تک مذاکرات کرتے رہے اور باہر رہے۔ اسی لئے اس بات کے امکانات کافی کم ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن پارلیمنٹ میں سعودی عرب کی کوئی کھلم کھلا مخالفت کریں گے، بلکہ وہ اپنی سیاسی مہارت کے مطابق درمیانی راستہ ہی نکالیں گے۔
سعودی عرب کے خلاف سیاسی جماعتوں میں اس وقت مجلس وحدت مسلمین اور جے یو پی شامل ہیں، یعنی شیعہ اور بریلوی جماعتیں سعودی عرب کی حمائت کے خلاف ہیں، لیکن یہ جماعتیں پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہیں۔

اِس لئے جس طرح حافظ سعید کی کھلم کھلا سعودی عرب کی حمائت کا بھی پارلیمنٹ پر کوئی اثر نہیں، کیونکہ حافظ سعید یا ان کی جماعت کا کوئی رکن پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہے۔ اس لئے جو جماعتیں پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہیں ان کی رائے صرف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں تو مدد گار ہو سکتی ہے ، لیکن وہ کسی بڑے فیصلہ کی نہ تو رائے ہموار کر سکتی ہیں اور نہ ہی اس کو روک سکتی ہیں۔

ان کی حیثیت پریشر گروپس سے بھی کم ہے۔
اس لئے سیاسی منظر نامہ تو یہی بیان کر رہا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی حکومت سعودی عرب کی حمائت میں جس حد تک جانا چاہے گی۔ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ میاں نواز شریف یہ گیم اکیلے نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی عسکری قیادت بھی اس میں ان کے ساتھ ہے، بلکہ وہ پارلیمنٹ سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینے کی پوزیشن میں ہیں۔

حکومت کا اعلیٰ سطحی وفد سعودی عرب کا دورہ کر آیا ہے۔ خبریں یہی ہیں کہ سعودی عرب نے مکمل عسکری تعاون مانگا ہے اور حکومت پاکستان یہ تعاون دینے کے لئے تیار ہے۔ اس لئے پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس ایک رسمی کارروائی ہو گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سعودی عرب کی حمائت کے حق میں قرارداد منظور کرے اور اس حوالے سے اختیار وزیراعظم کو دے دے۔

اور پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے اختیار حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف سعودی عرب کی حمائت میں کھل کر سامنے آجائیں ۔ اس کے بعد وہ جو بھی کریں گے ۔ اگر اس پر تنقید کی جائے گی توحکومت کہے گی کہ اسے پارلیمنٹ نے یہ کرنے کا اختیار دیا ہے، اس لئے میاں نواز شریف ایک محفوظ گیم کھیل رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ پارلیمنٹ کیا کرے گی، بلکہ انہیں علم ہے کہ پارلیمنٹ میں وہی ہو گا جو وہ چاہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :