لہورنگ عرب،خونخواراندھیرا

ہفتہ 4 اپریل 2015

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

عرب بہار کے نام پر مشرق وسطٰی میں شروع ہونیوالا آگ اور خون کا بھیانک کھیل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا،پورا کا پورا خطہ مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ شام اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔مرنیوالوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہی عالم مصر کا ہے۔ 1952ء سے جاری فوجی اقتدار میں سے 30 جون 2012ء سے 30 جون 2013ء تک کا صرف ایک سال ایسا تھا کہ جس دوران وہاں ایک منتخب صدر محمد مرسی اقتدار میں رہے۔

امید تھی کہ لیبیا میں نوزائدہ جمہوریت مضبوط و توانا ہو سکے گی لیکن 16 مئی 2014ء کو انقلاب کے بعد سے وہاں بھی خانہ جنگی کے الاؤ بھڑکا دیئے گئے ہیں۔عراق میں تباہ شدہ بغداد ہلاکو خان کی فرعونیت کی یاد دلا رہا ہے۔
فلسطین میں ہزاروں، لاکھوں لوگ ظلم اور بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔

(جاری ہے)

کئی جوانیاں لٹیں تو کئی سہاگ اجڑے، ہنستے بستے گھرانے خاکستر کر دیئے گئے صرف 2014ء میں غزہ پر اسرائیلی بمباری سے 18 سو کے لگ بھگ بچے اور عورتیں شہید ہوئیں۔

ایسا ظلم جس پر حیوانیت بھی شرما جاتی ہے۔ خطے کے نقشے پر جہاں بھی نظر دوڑاتے ہیں خون ہی خون نظر آتا ہے، آگ ہی آگ دکھائی دیتی ہے، ہر طرف بارود کی بو، بموں کی گھن گرج اور بندوقوں کی تڑتڑاہٹ سے کہیں بھی محبت کی خوشبو، امن کا گیت سنائی نہیں دیتا۔
فرانسیسی اخبار ویٹرن ٹوڈے نے اپنی رپورٹ میں مشرق وسطٰی میں قتل عام کے نئے منصوبے کا انکشاف کیا ہے،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ عراق و شام کا نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ایجنٹ ہے، اصل نام سائمن ایلیٹ ہے اور اُن کے ماں باپ دونوں یہودی تھے، سائمن خود بھی یہودی ہے، ایرانی ویب سائٹ ریڈیو ایجائل ڈاٹ کام نے اِس کی تصدیق کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی انتظامیہ ”عظیم اسرائیل“ منصوبہ کو کامیاب بنانے کے لئے ”دولت اسلامیہ عراق و شام“ کا پراجیکٹ لے آئی ہے، جب ایک وسیع علاقے پر کنٹرول سنبھالا جا چکا ہے تو امریکہ اور اُس کے اتحادی یہاں کی آبادی کو خون میں نہلائیں گے۔

پھر تیزی سے پورے کے پورے علاقہ کو یہودی ریاست میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اسرائیل کا یہ منصوبہ عرب بہار تحریک سے شروع ہوا جس کی ابتدا عراق، سوڈان، تیونس، مصر، لیبیا شام اور مالی سے کی گئی۔یمن میں سیاسی تحریک سے باغی تحریک بن چکی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اِس کی بھرتی کے لئے آنے والوں کی زیادہ تعداد یورپی ممالک سے ہے، کبھی جرمنی، کبھی برطانوی تو کبھی فرانسیسی لڑکیاں پکڑی جاتی ہیں،اگر داعش مسلمانوں کیلئے اتنی ہی مخلص ہے تو مردوں کو چھوڑ کر عورتوں کے پیچھے کیوں پڑ گئی، داعش والے جو کر رہے ہیں، جس طرح لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے، جلایا جا رہا ہے اِس کی اسلام توکیا کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا، یہ غیر انسانی فعل تو کوئی غیر انسانی فطرت کا شخص ہی کر سکتا ہے۔


یمن میں چھڑنے والی حالیہ جنگ بھی اس تباہی کے سکرپٹ کا حصہ دکھائی دیتی ہے، مختلف گروہوں شیعہ حوثی باغیوں، سنی قبائل، سعودی عرب، ایران، خلیجی ممالک، القاعدہ اور اب دولتِ اسلامیہ بھی شامل ہیں مفادات کی جنگ نے ملک کی صورتحال کو انتہائی سنگین کردیا ہے،حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ نے ملک میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے ہیں جبکہ خلیجی ممالک نے اپنے سفارت خانے جنوبی شہر عدن منتقل کر دیے ہیں۔


حوثی قبائل کے صدر عبدالربوہ منصور ہادی لاپتہ ہیں،سعودی عرب نے حوثی جنگجوؤں کیخلاف اپنی طاقت استعمال کرنا شروع کردی ہے،ساتھ ہی ساتھ دیگر اسلامی ممالک کوبھی اس میں اتحادی بننے کی دعوت دی گئی ہے،مصر کے جنرل سیسی اور پاکستان نے تو آمادگی ظاہر کردی ہے،دوسری جانب ایران حوثی قبیلہ کی کھل کر مدد کرے گا،ایرانی وزیر خارجہ نے تو علی الاعلان کہ دیا ہے کہ اس جنگ میں اٹھنے والا دھواں سعودی عرب جائے گا
ایک وقت تھا جب خطے میں قیادت تھی،اپنے فیصلے خود کرتے تھے،شام سے حافظ الاسد، عراق سے صدام حسین، سعودی عرب سے شاہ فیصل اور بعد ازاں شاہ عبدالعزیز کتنے ہی کمال کے لوگ تھے ایک ایک کرکے مار دیے گئے یا پھر وہ زندگی کے دن پورے کرکے کوچ کرگئے،محمد مرسی بھی جیل میں ہے،پوری دنیا میں آج طیب اردووان کے علاوہ کوئی لیڈر نہیں نظر نہیں آتا جس میں قیادت کی اہلیت ہو مسلمانوں کا درد ہو۔

طیب اردوان کو بھی اپنے ملک کا مفاد عزیز ہے،آج تو آبنائے ہرمز سے صحرائے عرب تک عربوں کی قیادت کرتا کوئی نظر نہیں آتا،ہر ایک نے اپنی ہی دکان کھول رکھی ہے،اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں،آج ایران کا احمدی نژادبھی موجود نہیں جو اس ظلم پر بول سکے،ایرانی سنیوں کیخلاف ساری طاقت صرف کررہے ہیں تو سنی شیعوں کو کافر کہ کر مار رہے ہیں۔
آج پوری دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو اسرائیل کو باز رکھ سکے کیوں کہ بحیرہ روم کے کنارے پر موجود اس صہیونی ریاست سے سب کے مفادات جکڑے ہوئے ہیں ۔

اور غلیل سے اسرائیل کا مقابلہ کرتی فلسطینیوں کی تیسری نسل سے نہ تو مسلم حکمرانوں اور نہ ہی عالمی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ مسلم حکمرانوں کو مقتل میں بکھری لاشوں سے کوئی غرض نہیں،ان کی تو طاقت امام،پیسہ ایمان ہے،ایک بھکاری کو پیسہ جہاں سے ملے گا وہی اس کا امام ہوگا،وہ پیسہ چاہے دلالی کرکے ملے یا اپنی عزت،خون بیچ کے ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :