نیکو کارا کی بد کاری

جمعرات 2 اپریل 2015

Sabookh Syed

سبوخ سید

ایک منٹ کے لیے سوچئےکہ
اگر 14 اگست 2014 کی شب اسلام آباد میں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکنوں پر گولی چلائی جاتی تو آج اس ملک کا نقشہ کیا ہوتا ؟؟
سیدھی سی بات ہے کہ فوج اقتدار میں ہوتی اور میاں برادران جیل میں ہوتے ۔ مسلم لیگ ق اب ایک سیاسی قوت ہوتی ، ایک نئی پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بن چکی ہوتی ۔ زرداری صاحب ملک سے باہر ہوتے ۔

ایم ایم اے بحال ہو چکی ہوتی ۔
لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ نواز شریف کے اقتدار کو ایک ایس ایس پی نے بچایا ۔
اس ایس ایس پی نے کیا کیا ؟
یہ میں آپ کو بعد میں بتاتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں آپ کو 14 اگست 1948 کو پشاور میں سول سروس کے افسران سے کئے گئے خطاب کے بارے میں یاد دلاتا چلوں ۔
قائد اعظم نے 14 اگست 1948 کو ارکان سول سروس سے پشاور میں ایک ایسی بات کہی جو آج بھی ان افسران کے لیے گلے کی پھانس بنی ہوئی ہے ۔

(جاری ہے)

شاید قائد نہیں جانتے تھے کہ وہ جو بات کہہ رہے ہیں ،انہیں مستقبل میں پورا کرنا تحریک پاکستان سے زیادہ دشوار اور مشکل کام ہوگا ۔ قائد اعظم نے کہا کہ
’’سول سروس کے افسران کسی بھی سیاسی دبائو کو خاطر میں نہ لائیں،نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کے دبائو کا شکار ہوں بلکہ اپنے فرائض بغیر کسی خوف کے ایمانداری، اصول، دیانتداری کے ساتھ انجام دیں۔

کرپشن، بدعنوانی اور اقرباپروری بیماریاں ہیں‘‘
قائد اعظم کے اس حکم کو تقریروں میں دھرانا ،
اسے خوبصورت فریم میں دیوار میں لکھوانا تو آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنے کی صورت میں آپ کا وہی حشر کیا جائے گا جو ایس ایس پی اسلام آباد محمد علی نیکو کارا کا کیا گیا ۔
محمد علی نیکو کارا سے پہلے صرف ایک مختصر سا واقعہ اور بھی پڑھ لیجئے تاکہ سارا منظر نامہ آپ کے سامنے واضح ہو جائے ۔


جب زرداری دور میں پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا تو مسلم لیگ ن کے ملک بھر احتجاجی تحریک کی کال دے دی ۔شیخوپورہ کے جلسے میں میں ایک پولیس اہلکار نے جذبات کی رو بہہ کر یا طے شدہ منصوبے کے تحت بیلٹ اور بیجز اتار کر میاں نواز شریف کو دے دیے جس پر میاں صاحب کی خوشی دیدنی تھی ۔ اس وقت میاں صاحب کے چہرے پر نہاری اور پائے والی روغنی تھی ۔

انہوں نے اس پولیس اہلکار کی بیلٹ جلسے میں لہرا کر لوگوں کو سول نافرمانی کی عملی دعوت دی ۔ اس وقت بھی میاں صاحب کے اس طرز عمل کو میڈیا میں تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ میاں صاحب غلط ٹرینڈ سیٹ کر رہے ہیں ۔
اب آتے ہیں محمد علی نیکو کارا کی طرف کہ اس نے کیسے نواز شریف کی حکومت بچائی ؟
گذشتہ برس ماہ اگست کے وسط میں عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنے دیے ۔

چار دنوں بعد تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے مقرر کردہ جگہیں چھوڑ کر پارلیمان کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا تو نواز حکومت نے ایس ایس پی محمد علی نیکو کارا کو زبانی لاٹھی چارج اور فائرنگ کا حکم دے دیا ۔
ایس ایس پی محمد علی نیکو کارا نے کہا کہ اول حکم تحریری طور پر دیا جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ دھرنے والوں پر گولی چلانے کے بجائے ان سے مزاکرات کر کے علاقہ خالی کرایا جائے ۔


محمد علی نیکو کارا کو علم تھا کہ جو حرکت ماڈل ٹاؤن میں کی گئی ہے ،اسے ایک بار پھر دھرانے کی غلطی کی جارہی ہے ۔
محمد علی نیکو کارا نے لاٹھی چارج اور فائرنگ کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار تو مغلیہ شہزادوں نے محمد علی نیکو کارا کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔نواز حکومت کے گولی چلانے کے آرڈر ماننے سے محمد علی نیکو کارا نے انکار کیا جس کی وجہ سے ملک کشت و خون سے بچ گیا لیکن کریڈٹ نواز حکومت لے رہی ہےکہ اس نے مظاہرین کے ساتھ بڑے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا ہے ۔


ایس ایس پی محمد علی نیکو کارا کی برطرفی نے ثابت کر دیا ہے کہ پولیس کرپٹ کیوں بنتی ہے اور سیاست دان کیسے پولیس کی پیشہ وارانہ صلاحیت کو تباہ کر تے ہیں ۔یہ لوگ صدر ،وزیر اعظم تو بن جاتے ہیں لیکن ان کی سوچ تھانے کے ایس ایچ او کے آگے نہیں بڑھتی ۔ انہوں نے پولیس اور بیوروکریسی میں اپنے چند چمچے کھڑچے اکٹھے کیے ہوتے ہیں جو صبح و شام ان کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں ۔

انہیں ملک چلانے کے بجائے بجائے سر چمکانے والے تیل کی مالش کرنے والے نائی درکار ہیں
اور ہاں یاد آیا
وہ انقلابی چمپئن ، جو اپنے ہاتھوں سے آئی جی کو گولی مارنے کے نعرے لگاتے تھے ۔
وہ کہاں ہیں اب ۔؟؟
کاش پی ٹی آئی اور عوامی تحریک میں اتنی غیرت تو ہوتی کہ وہ ایس ایس پی محمد علی نیکو کارا کی بر طرفی کے خلاف ایک ریلی ہی نکال دیتے ۔


لیکن وہ کیوں نکالیں گے
ان کا پروگرام بھی محمد علی نیکو کارا نے خراب کر دیا ۔
اگر وہ گولی چلانے کا حکم دے دیتا ، تو بے شمار لاشیں گرتیں
لاشیں گرتیں تو پورے ملک میں فساد شروع ہو جاتا ۔
فساد ہوتا تو ایمپائر کی انگلی اٹھ جاتی ۔
ایمپائر کی انگلی اٹھتی نواز حکومت ختم ہو جاتی
نواز حکومت ختم ہوجاتی
تو یہ دونوں سمجھ رہے تھے کہ شاید انہیں اقتدار مل جاتا ۔


محمد علی نیکو کارا نے ایمپائر کا پروگرام بھی خراب کیا ۔
عمران اور قادری کا منصوبہ بھی تباہ کیا
اور یہ تو واضح ہے نا کہ جو دوسروں کو برباد کر تا ہے ،خود بھی برباد ہوتا ہے ۔
جس حکومت کو محمد علی نیکو کارا کی فراست نے بچایا تھا ،
اس محمد علی نیکو کارا کو اسی حکومت کی حماقت اور جہالت نے نوکری سے فارغ کر دیا ۔
خبر دار تم لوگوں نے مغلیہ شہزادوں کے اس قدم کے خلاف آواز بلند کی تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں سنتے جاؤ
یہ قائد اعظم والی باتیں ہمارے سامنے نہ کیا کرو
جاؤ ،،،،،، بھاڑ میں جاؤ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :