آنسووٴں سے رشتہ

اتوار 29 مارچ 2015

Mubashir Mir

مبشر میر

ماڑی پٹرولیم کمپنی کے ڈہرکی آفس سے سائٹ وزٹ کے لیے روانہ ہوتے وقت میڈیا انچارج میجر (ر) عامر بلال نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی میں آپ کو ایک ایسی جگہ دکھا وٴں گا جسے دیکھ کر آپ خوش ہونگے اور حیران بھی ۔میں سوچنے لگا کہ آخر یہ کون سی جگہ ہوسکتی ہے کہ جسے دیکھنے کے بعد ان دونوں کیفیتوں سے گذرنا پڑے گا ۔صحافی کے لیے یہ بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ اسے زیادہ دیر تک حیرانگی اور انتظار میں رہنا مشکل سے دوچار کردیتا ہے ۔

میری بھی ایسی ہی کیفیت تھی اور ہر سوال کا جواب حاصل کرنے کی عادت خاموش بھی نہیں رہنے دیتی ۔آخر عامر بلال کویہ بتانا پڑا کہ مجھے امید ہے کہ آپ ہمارا کام دیکھ کر خوش ہوں گے اور داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے جبکہ حیرانگی اس صورت حال کو دیکھ کر یقیناً ہوگی ۔

(جاری ہے)


پٹرولیم انجینئر فیصل بٹ ڈبل کیبن گاڑی کو ٹوٹی پھوٹی سڑک پر بڑی مہارت سے چلاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور ارد گرد کے ماحول پر ان کا رواں تبصرہ بھی جاری تھا ۔

گوجرانوالہ سے تعلق اور کشمیری ہونے کے ناطے ان سے تھوڑی بے تکلفی بھی ہوگئی تھی ۔عامر بلال اور میڈیا ڈپارٹمنٹ کی معاون ملیحہ سعید بھی گاڑی میں موجود تھے ۔ملیحہ سے کراچی پریس کلب میں بھی ملاقات ہوچکی تھی یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ ادارے کا قیمتی اثاثہ ہیں کیونکہ کام میں مستعدی اور فعالیت ان کی شخصیت کا حصہ ہے ۔
میرا اشتیاق بڑھ رہا تھا کہ عامر بلال اپنے ادارے کا کون سا شعبہ دکھانے کے ارادہ رکھتے ہیں ۔

عامر کا وسیع تجربہ ان کی شخصیت سے جھلکتا ہے ۔ان کے مطمئن چہرے سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں گھبراہٹ نام کی چیز ان کو بے چین نہیں کرسکتی ۔وہ ہرطرح سے اپنا ٹاسک وقت سے پہلے مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔وہ بلاشبہ پاکستان کے گمنام ہیرو ہیں جو فقیروں کا بھیس بدل کر تماشہ اہل کرم دیکھنے کے عادی ہیں ۔
ہمیں بہت سی سائٹ دیکھنی تھیں ۔

ریجنل ہیڈ محمد اعجاز کے آفس میں اس پر ان سے بات ہوچکی تھی ۔محمد اعجاز بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہیں ۔پٹرولیم کی صنعت کے ساتھ ساتھ دنیا کی سیاست پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوا کہ وہ پٹرولیم پالیٹکس کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو بہت یادگار رہے گی کیونکہ انہوں نے پٹرولیم کے شعبے کے حوالے سے جو معلومات دیں اس سے میں تو یقیناً بہت متاثر ہوا ۔

لیکن ہمارے دوست ،بھائی اور ساتھی اظہر حفیظ بھی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے ۔گویا ہم دونوں متاثرین اعجاز ٹھہرے ۔بہرحال یہ اعجاز کا ہی اعجاز ہے کہ وہ اپنے علم کی بناء پر محفل پر چھاجاتے ہیں بلکہ سحر طاری کردیتے ہیں اور موضوع سے دلچسپی رکھنے والا شخص تو ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے ۔دوران گفتگو ایسی ہی کیفیت سے میں اور اظہر حفیظ گذرے جبکہ عامر بلال اور ملیحہ سعید نے ہماری کیفیت کو انجوائے کیا ۔


تھوڑی ہی دیر میں گاڑی ایک بلڈنگ میں داخل ہوئی تو دیکھ کر واقعی حیرانگی ہونے لگی اور عامر بلال کا جملہ بھی کانوں میں گونجنے لگا ۔مرد ،خواتین حتیٰ کہ بچوں کے جتنے چہرے نظر آرہے تھے اس پر بیچارگی ،غربت اور بے بسی نمایاں تھی ۔ایسا لگ رہا تھا کہ اگر ان سے بات کی تو بات سے پہلے ان کی آنکھوں سے آنسووٴں کی جھڑی لگ جائے گی ۔اس لیے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی ۔

ان کے چہروں پر ہی ان کی کہانی عیاں تھی ۔یہ سب لوگ آس پاس ہی نہیں دور دراز کے علاقوں سے ٹی بی اور دمے کے علاج کے لیے آئے ہوئے تھے ۔
ڈاکٹرتجمل نے صورت حال بتاتے ہوئے کہا کہ میں گذشتہ چھ برس سے ماڑی پٹرولیم کمپنی کے سی ایس آر شعبے کے تحت قائم کردہ اس ٹی بی سینٹر میں تعینات ہوں اور روزانہ ساٹھ سے اسی مریضوں کو چیک کرتا ہوں جن میں ساٹھ فیصد دمے کے اور چالیس فیصد ٹی بی کے مریض ہوتے ہیں ۔


یہ سینٹر جس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے اورمریضوں کی دیکھ بھال کے لیے پورا انتظام بھی جبکہ ادویات مستند اداروں کی بالکل مفت مہیا کی جارہی ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے میرے استفسار پر بتایا کہ اس علاقے کا ماحول ،غذائیت کی کمی اور صحت کی ناکافی سہولتوں نے ان لوگوں کو اس بیماری میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ماڑی پٹرولیم کے توسط سے ان کا کسی حد تک مداوا ہورہا ہے ۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ سندھ کے اس علاقے میں دور دور تک سرکاری سطح پر ان بیماریوں کے علاج کی سہولت میسر نہیں ۔جبکہ اس سینٹر تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ بھی مہیا نہیں ۔لوگ موٹر سائیکل کرایے پر حاصل کرتے ہیں اور سینٹر کا عملہ مریض کی آسانی کے لیے اسے کم از کم ایک ماہ کی میڈیسن مفت مہیا کرتا ہے ۔ڈاکٹر تجمل نے دیوار پر آویزاں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افسوس اس مہلک بیماری نے ہمارے قائد کی جان لی اور ہم نے اس بات سے سبق نہ سیکھا ۔

آج یہ بیماری قابل علاج ہے ۔یہاں ماڑی پیٹرولیم اپنا فرض نبھارہی ہے لیکن افسوس سندھ حکومت چین سے سورہی ہے ۔
خوشی اور حیرانگی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے ۔واقعی طبیعت بوجھل بھی ہوئی لیکن خوشی اس بات کی تھی کہ آج کا کمرشل ازم اس ڈاکٹر کو متاثر نہیں کررہا یہ ایک دور افتادہ علاقے میں قائم سینٹر پر اپنا سارا دن ان ہی مریضوں کے ساتھ گذارتا ہے ۔

شام کو کسی پرائیویٹ کلینک پر بیٹھ کر بے بس مریضوں کی کھال نہیں اتارتا بلکہ ہر لمحہ سچائی کے جذبے سے لوگوں کی خدمت کرنے میں گذار دیتا ہے ۔ہم نے گیس کے کنووٴں سے گیس حاصل کرنے کا عمل بھی دیکھا اور گیس کی تلاش کے لیے کنویں کھودنے کے عمل کا مشاہدہ بھی کیا ۔جدیدٹیکنالوجی کے استعمال سے زمین کے سینے میں دفن ان خزانوں کو حاصل کرکے ہر خاص و عام کے استفادے کے لیے قابل استعمال بنانے کا عمل بھی بہت ہی محنت طلب اور جفاکشی سے کم نہیں اور اس پر اس قیمتی قومی اثاثے کی حفاظت کا انتظام بھی متاثر کن ہے ۔

ماڑی پٹرولیم کے ایک خدمت گار سے لے کر اعلیٰ ترین تیکنیکی اور انتظامی ماہرین کی ٹیم نے سال ہا سال کی محنت سے جس طرح اس کو قابل فخر قومی ادارہ بنایا ہے وہ قابل تحسین ہے ۔یہ بات خوش آئند ہے کہ اس جدید ترین تیکنیک کو استعمال کرنے والا عملہ پاکستانی ماہرین پر مشتمل ہے ۔
میں خوشی اور حیرانگی کی ملی جلی کیفیت میں ہی تھا کہ عامر بلال ،سی ایس آر کے سربراہ کے ہمراہ مجھے مزید ایسی ہی کیفیت سے دوچار کرنے کے لیے ایک اور مقام پر لے گئے ۔

پروگرام کے اس دوسرے مرحلے میں موضع داد لغاری جہاں سے پاک بھارت سرحد چند میل کے فاصلے پر واقع ہے ایک اہم ترین یونین کونسل ہے لیکن اسکول کی حالت ناگفتہ بہ ہے ایک بہترین عمارت میں تبدیل کرنے کی فلم ہماری آنکھوں میں اترنے لگی جب اس کے متعلق تفصیلاً بتایا گیا کہ انتہائی مخدوش حالت میں اس اسکول میں بچے تعلیم حاصل کررہے تھے ۔ماڑی پٹرولیم کے ذمہ داران نے اس صورت حال کو محسوس کرتے ہوئے رضاکارانہ بنیادوں پر اس کی تعمیر کا بیڑا اٹھالیا اور اب یہ کافی حد تک مکمل ہوچکا ہے ۔


اسی طرح کچھ ہی فاصلے پر میٹرنٹی سینٹر دیکھ کر تو دل واقعی ایم سی پی ایل کوداد دینے پر مجبور ہوگیا کہ اس لق و دق صحراوٴں کے بیچ ماں اور بچے کی صحت کے لیے جس طرح عملہ خدمت میں مشغول نظرآیا میں اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔یہاں کی لیڈی ڈاکٹر اور اسٹاف بھی اسی طرح کے جذبے سے سرشار دکھائی دیا جس کا عملی مظاہرہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے تھے ۔


سب سے آخر میں عامر بلال نے ہمیں ایسی شاندار عمارت کے سامنے لاکھڑا کیا جو واقعی اسٹیٹ آف دی آرٹ کہلانے کی حق دار ہے ۔جہاں عنقریب اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے کا آغاز ہونے والا ہے جو اس علاقے کے عوام کی تقدیر بدل کے رکھ دے گا ۔اس اسکول کے سربراہ پروفیسر سحر جو کم از کم انیس زبانوں کے ماہر ہیں ان کی شخصیت نے بے پناہ متاثر کیا کہ ماڑی پٹرولیم نے ایک دور اندیش اور ماہر جوہری کی طرح اس نایاب ہیرے کو دریافت کیا اور اس تعلیمی ادارے کے ماتھے کا جھومر بنادیا ۔

اظہر حفیظ اس ادارے کے کونے کونے کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے میں محو تھے اور میں اس سوچ میں کہ آئندہ کئی سالوں کے بعد جب اس درس گاہ سے طلباء و طالبات فارغ التحصیل ہو کر معاشرہ میں عملی زندگی کا آغاز کریں گے تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ پھر یہاں کے گھرانے غربت کے منحوس چکر سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔سانسوں کی دوڑ جو کبھی کبھی تناوٴ کا شکار ہوجاتی ہے اور ناہموار راستوں پر چل پڑتی ہے اسے توازن نصیب ہوگا ۔

وہ مائیں جو زچگی کے دوران مشکل ترین لمحوں میں میٹرنٹی سینٹر تک پہنچنے کی امید میں کہیں رستے میں اکھڑتی سانسوں کے ساتھ اپنے نومولود بچے کی زندگی کی دعائیں مانگتے ہوئے اس جہاں سے گذر جاتی ہیں انہیں ایک صحت مند زندگی کی نوید ملے گی ۔
مجھے اس بات پر تعجب ہورہا تھا کہ جب پٹرولیم انجینئر فیصل نے ایک شاندار مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس علاقے کے ایک پیر صاحب جو بہت زیادہ سیاسی اثر رسوخ بھی رکھتے ہیں ان کی آمد کو شاندار اور یادگار بنانے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے ۔

تیاری آخری مراحل میں ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پیر صاحب جب اپنے مریدوں کو دیدار کروانے کے لیے ان کے علاقے کا دورہ کرتے ہیں تو ان کے لیے مرید نیا گھر تعمیر کرتے ہیں جس میں وہ بمشکل چند روز مریدوں کی میزبانی کا لطف اٹھاتے ہیں ،کاش پیر صاحب اپنی آمد کے موقع پر کسی اسکول ،ڈسپنسری ،سڑک یا ٹیوب ویل کی تعمیر کا حکم صادر فرمادیں تو ان کا دورہ دنیاکے لیے تویادگار ہوگا ہی آخرتکی زندگی بھی آسان بن جائے گی ۔


لیکن ایسا نہیں ہورہا ۔بھلا ہو ماڑی پٹرلیم کمپنی کا جو پورے علاقے کے مکینوں کی مسیحائی کرنے میں مصروف عمل ہے ۔ان بے بس لوگوں کے چہروں کو پر امید رکھنے کے لیے ان کے آنسووٴں سے رشتہ بنائے ہوئے ہے ۔نہ صرف ان کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں بلکہ ان کی غمی خوشی کے موقع پر میٹھے پانی کی بھری ہوئی بڑی بڑی گاڑیاں ان کے دروازے تک پہنچانے میں بھی تامل نہیں کرتے ۔

صحرا میں میٹھا پانی تو انمول ہوتا ہے ۔
ڈہرکی سے رخصت ہوئے ہوئے حیرانگی قدرے کم اور خوشی کا گراف بلند تھا کہ اس سفر میں جہاں ہردلعزیز دوست ملے وہاں اس بات سے اطمینان بھی ہوا کہ حالات جیسے بھی ہیں وطن عزیز پاکستان کی سا لمیت اور معاشی استحکام سے لے کر یہاں کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے والے بھی موجود ہیں جو مشکلوں کے حل کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :