ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں

جمعرات 19 مارچ 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

بات پرانی ضرور ہے لیکن ذہن میں آج بھی تر وتازہ ہے۔ گوالمنڈی چوک سے براستہ نسبت روڈ، دیال سنگھ لائبریری کے عقب پر واقع اپنے تین منزلہ مکان کی جانب پیدل رواں دواں تھے! میں اور میرے ابو! 4 مرلے کا وہی تین منزلہ مکان جس نے اردو ادب کے کئی عظیم ناموں کے روز و شب کو اپنے کمروں، باورچی خانوں ، بیٹھک، بالکنیوں ، صحن، منڈیروں اور چھتوں پر پروان چڑھتے دیکھا۔

ایسی ہستیاں کہ نام لکھتے ہاتھ کانپ جائیں۔ احمد ندیم قاسمی، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، توصیف احمد اور خالد احمد! میرے ابو۔آج ماضی میں جھانک کر دیکھنے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ 4 مرلہ کا ایک تین منزلہ گھر بھی کس قدر وسیع اور کشادہ ہو سکتا ہے۔ گھر بڑا ہوتا ہے گھر والوں کی شخصیت سے نہ کہ اپنے رقبے کی بنیاد پر اور ساز و سامان کی بہتات سے۔

(جاری ہے)


ذکر تھا اس یادِ ماضی کا۔ رات دس ساڑھے دس کا وقت تھا۔ صاف ستھرے تاروں بھرے آسمان کی طرف منہ اٹھائے میں ایک چھوٹا سا بچہ اپنے ابو کی انگلی تھامے اٹھکیلیاں کرتا اور بے تکان ابو پر سوال در سوال جڑتا چلا جا رہا تھا۔ آسمان،سورج، چاند، ستارے، سیارے اور کائنات چھوٹی عمر سے ہی میرے لیے بے حد دلچسپی، تجسس اور سوالات کا سبب رہے ہیں۔ میری اس دلچسپی کی وجہ بھی ابو ہی تھے کیونکہ انہوں نے ہی ہمیں سوال کرنا سکھایا اور جواب کو پرکھنا بھی۔

سو میں نے حسبِ عادت خوب سوچ کر ابو کو پچھاڑنے کی نیت سے ستاروں کی جانب دیکھتے ہوئے سوال داغا! ابو اس کائنات کی سب سے تیز چیز کیا ہے۔ جو سب سے تیز چلتی ہو ! سب سے زیادہ تیز!! ابو نے جواب دیا: روشنی۔ میں نے فاتحانہ قہقہ لگایا اور کہا: ابو آپ کو کچھ نہیں پتا۔ میں بتاتا ہوں آپ کو۔ اس کائنات کی سب سے زیادہ تیز چیز ہے ’نظر‘! یہ دیکھیں۔

میں نے آسمان کی ایک طرف منہ اٹھا کر کہا: یہ میں نے ابھی اس والے ستارے کو دیکھا اور اب یہ دیکھیں! ساتھ ہی سر کو جھٹکے سے گھما کر دوسری سمت میں آسمان پر دوسرے ستارے پر نظر جماتے ہوئے کہا : دیکھا کتنی جلدی میری نظر ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک پہنچ گئی!!! ابو نے مسکرا کر مجھے فاتح قرار دے دیا اور پھروہ چند اشعار گنگنانے لگے اور میں ان کی انگلی تھامے خاموشی سے ان کے منہ سے نکلتے الفاظ کو سمجھنے کی کوشش کرنے میں محو ہو گیا۔

ان کا یہی رویہ تمام عمر ہر اس شخص کے ساتھ رہا جو ان کے قریب تھا۔ سامنے والے کی غلطی پر مسکرا کر خاموش ہو جانا اور اسے فتح مند کر دینا پھر بعد میں کسی وقت چلتے پھرتے باتوں باتوں میں غلطی کی یوں تصحیح کر نا کہ سامنے والے کو اندازہ بھی نہ ہو۔
یہ یاد تحریرکرتے مجھے ان کی انگلی کا لمس ، آواز کی کھنکھناہٹ اور چہرے کی مسکراہٹ یوں محسوس ہوئی کہ گویا دہائیاں گزرے وہ لمحات میں نے پھر سے جی لئے۔

اور ان گنت یادوں سے یہ مخصوص یاد تحریر کرنے کی ضرورت یوں درپیش آئی کہ 19 مارچ 2013 کی رات 12:20 منٹ پر یوں ہی مسکراتے چہرے سے ابو ہم سب کو چھوڑ کر جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔میرے پاس اب بھی بے بہا سوالات موجود ہیں لیکن سہولت کے لئے جواب دینے والی وہ شخصیت طبعی طور پر موجود نہیں۔ شاید اسی لیے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں اب بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے !
خالد احمد فطرتاٌ شاعر اور ادیب تھے ٹھیک اپنے والد محمد مصطفی خان مداح کی طرح جنہوں نے احمد ندیم قاسمی کو پاکستان میں اپنے خاندان کا سرپرست ٹھہرایا تھا اور پھر احمد ندیم قاسمی نے بھی کمال خوبی سے اس ذمہ داری کو سر انجام دیا ۔

شعر اور ادب سے محبت کرنے والے خالد احمد کی شاعری اور تخلیقی فن پر بہت بات کر سکتے ہیں اور بلاشبہ ان کی شخصیت اورفن پر بہت کام بھی ہو رہا ہے جن میں پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے بھی شامل ہیں۔ لیکن ہر وہ شخص جو زندگی میں ایک بار بھی ان سے ملا ہو یا جس نے ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہو وہ شاعری سے زیادہ خالد احمد کی شخصیت اور محبت کی بات کرتا دکھائی دے گا۔

محبانِ خالد کی دلی کیفیت بیان کرنے کے لئے بھی خالد احمد ہی کی شہرہ آفاق غزل کا یہ شعرمستعار لینا پڑتا ہے کہ:
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
تمام زندگی بے لوث محبت بانٹنے والے خالد احمد کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا ! ادب اور شاعری کا فروغ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اپنے تک پہنچے کسی بھی شخص کو ہر ممکنہ حد تک خالی نہیں لوٹنے دیتے تھے اور یہی وجہ ہے ان کے جانے کے بعد بھی ان کا کوئی دوست، یار، قدر دان ، شاگرد، میل ملاقاتی انہیں بھلا نہیں پاتاکیونکہ خلوص ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور خالد احمد ایک عظیم تخلیق کار ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی عام سی پر خلوص شخصیت تھے۔

یہ خالد احمد کے اپنے الفاظ ہیں کہ میری والدہ نے مجھے بڑے شخص کی جو خوبیاں گنوائی وہ تو دراصل ایک سادہ سے عام انسان کی عادات تھیں۔
میں کیونکہ ان کا بیٹا ہوں تو اپنے بہن ،بھائی ، ماموں، والدہ اور رشتے داروں کی طرح اس موقع پر ایک عظیم ادبی شخصیت سے زیادہ اس رشتے کی کمی کچھ شدت سے محسوس کرتا ہوں جس نے تمام عمر ہمیں صرف اور صرف محبت سے نوازا، تمام غلطیوں کو مسکرا کر درگزر کر دیا پھر جانے کن کن مواقعوں پر لاشعوری انداز میں ان غلطیوں کو سنوار بھی دیا پھر 19 مارچ 2013 کو جاتے جاتے بھی رات ٹھیک 12:20 منٹ پر مسکراتے ہوئے یوں رخصت ہوئے کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ گھبرانا مت میں نے تم سب کو ہمیشہ مسکرانا سکھایا ہے۔

لیکن کیا کریں کہ انسان ہیں اور کمزور بھی! خالد احمد ہی کا شعر ہے:
مجھے پھر سے آن گھیریں وہی چھت وہی منڈیریں
تیری دھوپ گزر نہ پائی میرے دل کے بام و در سے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :