پارلیمان۔۔۔ ایک پیچیدہ نظام

جمعرات 19 مارچ 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سینیٹ کے انتخابات کے بعد نئے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی صاحب اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری صاحب اپنے عہدوں کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سینیٹ کے انتخابات کے ساتھ ہی جمہوریت کا عمل مکمل ہوا اور پارلیمانی نظام کی تشکیل کی طرف اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔ اب صرف فاٹا کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ پاکستان کے پارلیمانی نظام کے دونوں اہم ستون ہیں۔ سینیٹ یعنی ایوان بالا اور قومی اسمبلی یعنی ایوان زیریں دونوں مل کر پارلیمنٹ تشکیل دیتے ہیں۔سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران میں سے ہی کابینہ تشکیل پاتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف امور کی انجام دہی کے لیے قائم کی گئی کمیٹیوں کے ممبران کا چناؤ بھی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


پاکستان میں جس طرح باقی معاملات میں پیچیدگیاں موجود ہیں اسی طرح پارلیمانی نظام میں بھی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔

سینیٹ کے قیام کا مقصد تمام وفاقی اکائیوں کو برابر کی نمائندگی دینا ہے کیوں کہ قومی اسمبلی میں صوبوں کو نمائندگی آبادی کے تناسب سے دی گئی ہے۔ قومی اسمبلی کا طریقہ انتخاب عوام ہیں جب کہ عوامی نمائندے سینیٹ کی تشکیل کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔ اس وقت مجبوعی طور پر 446 پارلیمانی نمائندے ہیں۔ جن میں سے 104سینیٹ اور 342 قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔

سینیٹ کے 104ممبران میں فاٹا کے 4ارکان بھی شامل ہیں۔
بظاہر یہ نظام بہت سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن اصل میں انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس نظام کو شاید مکمل اوورہالنگ کی ضرورت ہے کیوں کہ موجودہ حالت میں یہ نظام عوام کو فائدے کے بجائے نقصان دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کہنے کو تو پارلیمان کے ممبر عوامی نمائندے ہیں لیکن یہ عوامی نمائندے صرف عوام ہی کو فائدہ نہیں پہنچا رہے باقی ہر کام کر رہے ہیں۔

سب سے بڑی خامی اس نظام کی یہ ہے کہ اس میں پیسہ شامل ہے ۔ حیران کن حقیقت یہ ہے کہ عوامی ایوان کا رکن بننا کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں مختلف ادوار میں الیکشن کمیشن کی طرف سے اخراجات کی تفصیلات طے کی جاتی رہی ہیں۔ لیکن یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے جس طرح کھلے عوام پیسہ خرچ کیا جاتا ہے وہ ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

اس کے علاوہ پارلیمنٹ کا ممبر بن جانے کے بعد اور خاص طور پہ قومی اسمبلی کا ممبر بن جانے کے بعد فنڈز کی صورت میں آمدنی کا نہ صرف ایک مستقل ذریعہ قائم ہو جاتا ہے بلکہ قومی اسمبلی میں آنے جانے کا خرچ بھی ملنا شروع ہو جاتا ہے اس کے علاوہ ممبران کو وفاقی دارلحکومت جیسے علاقے میں رہائش بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ماہانہ تنخواہ اور دیگر مراعات بھی ملتی ہیں۔

اور سب سے بڑھ کے اختیارات کا ناجائز استعمال قومی اسمبلی ممبران کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔ اختیارات کے استعمال میں سینیٹ ممبران بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عوام کی خدمت کرنے کے دعوے دار کروڑوں روپے خرچ کر کے ایوان کا حصہ بنتے ہیں اب یہ کروڑوں روپے کیا وہ عوام کی فلاح کے لیے خرچ کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید اتنا مشکل نہیں ہے۔

ایوان کا رکن بننے کے بعد کلف لگے کترے زیب تن کیے سردار۔ سوٹ بوٹ پہنے بابو۔ شیروانیاں پہنے جاگیردار عوام سے یکسر لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
سینیٹ کی صورت حال بھی کوئی خاص تسلی بخش نہیں ہے۔ ایوان بالا میں تمام صوبوں کو متناسب نمائندگی دی گئی ہے جب کہ فاٹا کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ لیکن سینیٹ کا کردار بھی عوام کی سمجھ سے تو بہر حال بالاتر ہے۔

جو لوگ قومی اسمبلی کے رکن نہیں بن پاتے ۔ یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سینیٹ کی اکثریت ایسے لوگ ہوتے ہیں جو یا تو قومی اسمبلی کا الیکشن ہار جاتے ہیں یا دیگر وجوہات کی وجہ سے قومی اسمبلی کے ممبر نہیں بن پاتے ۔ یعنی ایک جگہ سے ریجیکٹ ہونے کے بعد بھی دوسری جگہ موقع مل جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کو مجلس قانون ساز ہی کہا جاتا ہے یعنی قومی اسمبلی کا بنیادی کام قانون بنانے کا ہے ۔

تفصیلی رائے تو قانونی و آئینی ماہرین ہی دے سکتے ہیں لیکن ایک عام آدمی کی سمجھ بوجھ کے مطابق قومی اسمبلی اس کام کے سوا باقی سب کام کر رہی ہے اور قانون سازی صرف سیاسی جماعتیں بندر بانٹ کے لیے کر رہی ہیں۔ عوام کی فلاح کے لیے نہیں۔ جب کہ سینیٹ کا کام صرف برابر صوبائی نمائندگی اور قومی آہنگی کو فروغ دینا ہی رہ گیا ہے۔
عام آدمی پارلیمان کے بارے میں جو سوچتا ہے وہ شاید دیوانے کی بڑھکوں کی مترادف ہوں ۔

لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بڑھکیں نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ سب سے پہلی ضرورت قومی اسمبلی میں اصلاحات کی ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران میں فنڈز کی تقسیم روک دیں۔ ان کو مراعات بھی اتنی ہی دیں جتنی ایک عام سرکاری ملازم کو ملتی ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ جو بندہ کروڑوں روپے خرچ کر کے ایوان کا رکن بنے گا وہ کیسے خود کو عوامی نمائندہ کہلوانے کا حقدار ہو سکتا یا وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ عوام کی فلاح کے لیے کام کرے گا۔

قومی اسمبلی کے ممبران کو ممبر فنڈ اور صوابدیدی فنڈ کے دانے سے آزاد کر دیا جائے۔ اور ان کی مراعات بھی سرکاری ملازم کے برابر ہی کر دی جائیں تو پھر حقیقت واضح ہو گی کہ کتنے لوگ عوامی نمائندگی کے خیال سے ایوان کا رکن بننے کو ترجیح دیں گے۔ اس کے علاوہ اختیارات کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے تا کہ ایم این ایز کے سفارشی رقعے رک سکیں ۔

قومی اسمبلی کے اراکین کا صرف اور صرف کام قانون سازی ہونا چاہیے ۔ اس کے علاوہ ان کو کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی صورت میں وہی لوگ قومی اسمبلی میں آئیں گے جو واقعی لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں گے۔
سینیٹ کا ممبران کا انتخاب کروڑوں روپے کی بولیاں لگانے کے بجائے مختلف شعبہ جات کے ماہرین کو سامنے رکھ کر کیا جائے۔ ہر صوبے سے متناسب نمائندگی کو مد نظر رکھ کر ہی مختلف شعبوں کے ماہرین کو سینیٹ کا رکن منتخب کروایا جائے بے شک صوبائی ممبرز ہی ووٹ ڈالیں لیکن ہر صوبے سے ہر شعبے کا ایک ماہر ایوان کا رکن بنایا جائے۔

جیسے تعمیرات کے شعبے کا ماہر، تعلیم کے لیے کوئی ماہر تعلیم، کوئی اعلیٰ پائے کا ڈاکٹر، معروف قانون دان، صنعتکار اس کو شاید ٹیکنوکریٹس بھی کہا جا سکتا ہے لیکن ان میں صوبائی نمائندوں کا عمل دخل بہرحال رہنا چاہیے۔ سینیٹ میں منتخب ہونے والے ہر شعبے کے ماہر کو متعلقہ وزارت کا قلمدان سونپ دیا جائے تا کہ وہ اس وزارت میں اپنی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہیں بہتری کی راہ پہ گامزن کر سکے۔

اس کے علاوہ کسی بھی بنائے گئے قانون کی منظوری سینیٹ، متعلقہ وزارت، اور شعبے کے ماہرین کی مرضی کے بغیر نہ ہو۔ اگر وزارت خزانہ سے متعلق کوئی معاملہ ہے تو ہر صوبے سے ایک بہترین اکانومسٹ جب ایوان کا رکن ہو گا تو مشاورت میں کوتاہی ہونے کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے ۔ ہر وزارت اس بات کو یقینی بنائے کہ ترقیاتی فنڈز براہ راست بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ ہوں اور ان فنڈز کی کڑی نگرانی کے لیے ایک مکمل نظام موجود ہو۔

تا کہ کوئی ہیر پھیر نہ ہو سکے۔
آج اگر ہمارے نزدیک یہ اصلاحات اہم نہیں بھی ہیں یا آج اگر ہم ان کی ضرورت محسوس نہیں بھی کر رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ اس طرح کی دیگر اصلاحات وقت کی ضرورت بن جائیں گی۔ ضروری نہیں کہ تحریر کی گئی باتیں ہی ہمیں ترقی کی طرف لے جائیں۔ لیکن اگر ہمیں اپنا مقام اقوام عالم میں بنانا ہے تو ہمیں پارلیمان کو اتنا سادہ اور عام فہم کرنا ہو گا کہ ملک بناء کسی رکاوٹ کے ترقی کی راہ پہ گامزن ہو سکے۔ اور ادارے اپنا کردار بخوبی نبھاہ سکیں ۔ کیوں کہ پیچیدگی کسی بھی معاملے میں ہو تنزلی کی جانب پہلا قدم ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :