سہ ملکی تعلقات اور ابہام زدہ حکومتی پالیسیاں

جمعرات 12 مارچ 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

عالمی میڈیا کے توسط سے منظر عام پر آنے والی رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ و سلامتی امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ سول اور فوجی قیادت تمام اہم امور پر ایک ہی نقطے پر متفق ہے۔افغان پالیسی مل کر طے کی ہے۔بھارت سے تعلقات پر اتفاق رائے پیدا کیا جارہا ہے، امید ہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 2016ء میں پاکستان آئینگے۔دوسری خبر کے مطابق صدر اوباما کے بھارتی دورے کے فوری بعد وزارت خارجہ نے چینی صدر کے پاکستان کے دورے کا اعلان کیا۔

اس پر پاکستان میں مسرت اور خوشی کا اظہار کیا گیا کہ چینی صدر 23 مارچ کو قومی پریڈ میں مہمان خصوصی ہونگے۔ جب دورہ طے نہیں ہوا تھا تو حکومت نے اعلان کیوں کیا اور اب تک اس معاملے میں ابہام اور کنفیوڑن کیوں برقرار رکھی گئی۔

(جاری ہے)

ایسے اقدامات معاملات اور اعلانات حکومتی ساکھ کے مجروح ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان کی غیرجانبدارانہ پالیسی کا تقاضا ہے کہ خطے کے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کیا جائے۔

روسی صدر کا دورہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے مگر اس دور حکومت میں پیوٹن کا دورہ پاکستان طے ہوا اور پھر منسوخ ہو گیا۔ اس کو پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کی کامیابی کی کس کیٹگری میں شامل کیا جائے ۔خارجہ محاذ پر جو معاملات سیاسی و جمہوری حکومت کو اٹھانے چاہئیں‘ ان پر حکومت نے خاموشی اختیار کئے رکھی یا پسپائی اختیار کی گئی۔

عسکری قیادت نے بھارتی مداخلت کا کھل کر ذکر کیاحتیٰ کہ بھارت کو مداخلت سے باز رہنے کی وارننگ بھی دی جبکہ سیاسی قیادت یہ کہتی رہی اور اب بھی کہہ رہی ہے کہ غیرملکی مداخلت کے ثبوت مل گئے ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی خود قیادت کرینگے۔ انکے قائدانہ جواہر اب تک تو قوم کے سامنے نہیں آسکے۔

فوجی قیادت کی دہشت گردوں کیخلاف شٹل ڈپلومیسی دیکھنے میں آتی رہی ہے۔ آرمی چیف اور ڈی جی‘ آئی ایس آئی کبھی افغانستان جاتے ہیں اور کبھی امریکہ اور دیگر ممالک کے دورے پر ہوتے ہیں۔ آرمی چیف چین‘ ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ ان دوروں کا مقصد دہشت گردوں کے خاتمہ میں ان ممالک کا تعاون حاصل کرنا تھا۔ ایک جمہوری دور میں یہ کام فوج کے نہیں‘ حکومت کے کرنے کے ہوتے ہیں۔

عمومی رائے ہے کہ اپریشن ضرب عضب فوج نے شروع کرکے حکومت کو آگاہ کیا جسے اون کرلیا گیا۔ یہ تو واضح ہے کہ فوج کے دباؤ پر دہشت گردوں کی پھانسیوں کا عمل شروع ہوا اور آئین میں 21ویں آئینی ترمیم کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان گو سست روی کا شکار ہے مگر یہ بھی فوج کی ”خواہش“ پر ہی تشکیل پایا ہے۔ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ سول بالادستی کا لفظ زیادہ مناسب نہیں۔

جمہوری حکومت کا خاصہ ہی اسکی بالادستی ہے۔ اداروں کا کردار آئین میں معین کردیا گیا ہے‘ اس سے تجاوز خود ان کیلئے بھی بہتر نہیں مگر اس میں قصوروار اداروں سے زیادہ حکومت کو ٹھہرایا جائیگا جو اسکی اہلیت اور اپنی اتھارٹی پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ مشیر خارجہ کے بقول سول اور فوجی قیادت تمام اہم امورپر ایک ہی نکتے پر متفق ہیں۔ بادی النظر میں یہ نکتہ بھی عسکری قیادت کا مقرر کردہ ہے جس پر حکومت نے اتفاق کرلیا۔

تمام اہم امور پر اتفاق کا مطلب ہے کہ ایسے امور جو اہم نہیں ہیں‘ ان پر سیاسی و عسکری قیادت میں اتفاق نہیں ہے۔ مشیر خارجہ کا یہ کہنا کتنا مبہم ہے کہ بھارت سے تعلقات پر اتفاق رائے پیدا کیا جا رہا ہے۔ مشیر خارجہ کہتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بامقصد مذاکرات جاری رکھے گا‘ مزید یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشیدگی ختم کرنا چاہتا ہے۔

مشیر خارجہ کی دونوں نیک خواہشات ہیں مگر یکطرفہ ہیں اس لئے ان کا پورا ہونا ممکن نہیں۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ جے شنکر پاکستان آئے‘ انکے دورے سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئیں جو نقش برآب ثابت ہوئیں۔ جے شنکر کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے متعلق بات نہیں ہوئی۔ مشیر خارجہ انکے ساتھ بات چیت کو بھی جامع مذاکرات کیلئے پیشرفت قرار دے رہے ہیں بلکہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جے شنکر کے ساتھ جامع مذاکرات ہوئے تھے۔

سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری منصوبے کے قیام سے ملک میں معاشی خوشحالی آئیگی۔ اس منصوبے کو بھی شروع کرنے والوں نے ہی متنازعہ بنا دیا۔ حکومت بظاہر یقین دلاتی ہے کہ اس منصوبے میں تبدیلی نہیں ہو گی مگر خیبر پی کے میں حکومت کی اتحادی جماعتیں اے این پی اور جے یو آئی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش بجا ہے لیکن یہ محض خوش فہمی بلکہ غلط فہمی ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیگا۔

یہ استعمال کب رکا ہے؟ گو کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ پاکستان کو ایسا یقین دلاتے ہیں اور پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کیخلاف مبینہ اپریشن بھی کئے گئے ہیں مگر نہ تو فضل اللہ اور اسکے دہشت گرد ساتھیوں کو پاکستان کے حوالے کیا گیا اور نہ بھارت کو افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی سے روکا گیا ہے۔ہمارے خیال میں پاکستان بھارت تعلقات کی خرابی کی وجہ اعتماد کی کمی ہے اعتماد بحال ہو جائے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔

چینی صدر کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چینی صدر 23 مارچ کو پاکستان کا دورہ نہیں کر رہے مگر وہ بہت جلد پاکستان کا دورہ کرینگے۔ چینی صدر کے ساتھ روسی صدر کو بھی دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے، امید ہے روسی صدر بھی جلد پاکستان کا دورہ کرینگے۔سرتاج عزیز کو وزیراعظم نوازشریف نے جو بھی اور جب بھی ذمہ داری سونپی وہ اعتماد پر پورا اترے۔

سرتاج عزیز کی عمومی شہرت شریف اور صاف گو سیاست دان کی ہے۔ وہ سیاست میں لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا گزشتہ روز ایک تھنک ٹینک سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو ابہام سے لبریز اور خارجہ پالیسی و سفارت کاری کے محاذ پر پسپائی کی غماز تھی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور نے گزشتہ روز جو کچھ کہا‘ اس سے کئی معاملات میں کنفیوڑن پیدا ہوئی جبکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کرسٹل کلیئر ہونی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :