آہ۔۔۔۔صادق فقیر

جمعرات 12 مارچ 2015

Nadeem Gullani

ندیم گُلانی

26 فروری2015کی شام کے پونے سات بج رہے تھے،موبائل پہ بیل بجنا شروع ہوئی،حیدرآباد سے میری بہن کا فون تھا،سامنے سے سلام کے بعد دھیمے اور تھکے ہوئے لہجے میں ایک جُملہ اُبھرا”خبریں دیکھی ہیں“؟میں نے کہا نہیں،سامنے سے آواز آئی تمہارے دوست صادق کا سعودی عرب میں ایک ایکسیڈنٹ کے سبب انتقال ہو گیا ہے۔ماحول پر کچھ لمحوں کے لئے سکتاچھا گیا،آس پاس سے آنے والی ساری آوازیں گُم ہو گئیں،پھر اُس کے بعد کچھ دیر تک روایتی اور حوصلہ رکھے رکھنے میں مدفون ناکام جُملوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔

۔،کال ختم ہوئی تو میں فوراً ٹی وی کی جانب لپکا،جلدی جلدی چینلز چیک کرنے لگا،بلآخر ایک سندھی چینل کے ٹِکرمیں چلتی ہوئی اُسی منہوس خبر پہ نظر پڑی جو کہ میں اب سے کچھ دیر پہلے سُن چُکا تھا، سات بجے والی خبریں کے ٹی این نیوز پہ سُنی،اُس کی ہیڈلائنز کی پہلی خبر ہی صادق کی ڈیتھ کے حوالے سے تھی،یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اِس بے قدروں کے مُلک میں کسی چینل نے ایک فنکار کی خبر کو سب خبروں پر فوقیت دی،لیکن صادق۔

(جاری ہے)

۔!یعنی سندھ کے سُریلے اورنامور گائک صادق۔۔!، ایک حسین انسان صادق۔۔!،اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ میرے بھائیوں جیسے دوست صادق کی ڈیتھ کی خبر۔۔۔!اللہ اکبر۔۔۔ ․
ارے میں تو ابھی پچھلے یاروں کے یوں اچانک چلے جانے کا صدمہ برداشت کرنے کی ناکام کوششوں میں تھا، کہ اچانک ایک اور صدمہ۔۔۔،ایک اور غم ۔۔۔۔!اِس کیفیت میں غالب # کا اپنے ایک خط میں لکھاہُوا جُملہ اکثر یاد آتا ہے،”ہائے۔

۔۔،اتنے یار مَرے کہ جو اَب میں مَروں گاتو میرا کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا“۔
بیشک موت برحق ہے،لیکن جب تک دل اِس بات کو تسلیم کرنے کیطرح تسلیم کرنے کی کیفیت تک پُہنچے،تب تک کسی پیارے کا غم جھیلنے والے کو کئی اموات سے گُزر کے پھر سے زندہ ہونے کی پُلصراط سے گُزرنا پڑتا ہے۔
صادق فقیر ولد فیض محمد کی پیدائش 20مارچ1964کوصوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے شہر ڈیپلو میں ہوئی،بعدمیں صادق کا خاندان ضلع تھرپارکرکے شہر مٹھی آکر آباد ہُوا،صادق نے موسیقی کی تعلیم اپنے ماموں حُسین بخش فقیر سی لی ، 1980 ء کی ڈھائی میں مٹھی ڈگری کالیج سے ایم،اے کِیا،اور اِسی دوران ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے لئے اپنے پہلے گیت ریکارڈ کروائے،صادق کی ملازمت ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں تھی اوراِسوقت وہ ڈاریکٹر فزیکل ٹریننگ ضلع تھرپارکر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہا تھا،صادق نے اپنے فن کی نسبت سے دُنیا بھر کے دورے کِیے، صادق کو شاعرایاز گُل کے لکھے ہوئے گیت”توکھاں تھیندے دھار،کھلندے کھلندے یار“سے بے پناہ مقبولیت ملی۔

صادق کی آواز کے لئے سندھ کے نامور اور ہر دلعزیز شاعرشیخ ایاز نے ایک جگہ لکھاکہ ”میری شاعری کو جس آواز کی تلاش تھی یہ وہی آواز ہے “۔
صادق بُنیادی طور پہ تو ایک گائک تھا،لیکن صادق کا ادبی ذوق بھی بُہت اعلیٰ تھا،صادق مٹھی کی ادبی تنظیموں کا سب سے اہم رُکن تھا ،صادق کی خود منتخب کی ہوئی شاعری کہ جس کو اُس نے اپنے سُروں کی مالا میں پِروکر ہم تک پُہنچایا،سُن کے آپ صادق کے شعر و ادب سے گہرے تعلق کااندازہ لگا سکتے ہیں۔

صادق کی سلیکشن میں ہمیشہ اُن شاعروں کی شاعری رہی جو کہ خود اَدب کا اَٹوٹ حصہ ہیں۔
صادق نے کبھی بھی دوسرے بُہت سے گائکوں کی طرح جو بِک رہا ہے بنا لو ،کہ فارمولے پہ عمل نہیں کِیا۔۔،زندگی بھر سچا سُر اور سچی شاعری ۔۔، بس اور کچھ نہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ صاد ق میں روایتی گائکوں والی بھی کوئی خُو نہیں تھی ، عجیب آدمی تھا،پروگرام کے دوران پیسے لُٹاتی ہوئی پبلک کے بیچ میں سے اُٹھ کر اپنے بعد آنے والے فنکاروں کو بُلاکر ہنسی خوشی جگہ دے دیا کرتا تھا،صادق کی بیٹھک ہمیشہ آباد رہتی تھی ، اورساون کے مہینے میں تواُس کی بیٹھک اُس کے پاس آئے ہوئے مہمان دوستوں سے ہمیشہ کی طرح بھری ہی رہتی تھی،لیکن مٹھی شہر کی ہوٹلیں اور گیسٹ ہاؤس بھی اُس کے مہمانوں سے بھرے رہتے تھے ،پتہ نہیں کیا تھا اُس میں؟ کچھ سمجھ نہیں آتا۔


صادق کا خَلہ پُر ہونا ناممکن ہے،آج میرے ساتھ ساتھ تھرپارکر ،سندھ ،پاکستان اور پوری دُنیا کے شاعر ،ادیب ،دانشور،گائک اور وہ لوگ جو صادق کو سُنتے تھے اور اُس سے محبت کرتے تھے،اُن سب کی آنکھیں نم ہیں۔
میں ہمیشہ اپنی قوم سے اس بات پہ نالاں ہی رہاکہ اِس قوم کہ پاس فنکاروں کی کوئی قدر نہیں ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس بار سندھ اور تھرپارکر کے لوگوں نے میری زندگی بھر کی اِس شکایت پہ مرہم رکھا ہے،26فروری 2015صادق کی ڈیتھ کے بعد5مارچ2015 اُس کی تدفین تک، حکومتی فارملٹیز پوری ہوکر صادق کو اپنی مٹی اور اپنے وطن تک پُہنچنے میں 7دن لگے، لیکن آپ یقین جانئیے۔

۔، کوئی پل ایسا نہیں گُزرا کہ جس میں اِس مُلک کے پرنٹ میڈیا نے،ٹی وی چینلز نے،سوشل میڈیا نے یا کسی بھی عام سے عام شخص نے اپنی طرف سے کوئی کوتاہی کی ہو یا ایک لمحے کو بھی اتنے بڑے سانحے کو بھولے ہَوں۔جن آنکھوں نے صادق کا جنازہ دیکھا وہ حیران ہیں اور سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہنستی بستی ہوئی آبادیوں سے دُورتھر کے ریگستان میں یہ اتنے سارے لوگ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے ،ہزاروں لوگ ، ہزاروں آہیں ، ہزاروں سسکیاں ، ماتم ہی ماتم ۔

۔۔اللہ اکبر۔
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ میں صادق کے ساتھ گُزراہُوا وقت ،اور سُروں میں بھیگی ہوئی شامیں اور راتیں کیسے بُھلا پاؤں گا؟سچ پوچھو تو وہ ماحول ابھی اِس وقت بھی ایک حسین خُمار بخشے ہوئے ہے،اوروہ آوازیں کانوں میں رَس گھول رہی ہیں۔۔ ۔ لیکن صادق نہیں ہے۔
بار ہا دھیان ہٹانے کے باوجود بھی میرا دھیان 24فروری 2015کوعُمرے پہ جانے سے ذرا پہلے جناح ائیرپورٹ سے صادق کے اَپ ڈیٹ کئے ہوئے اِس فیس بُک اسٹیٹس سے نہیں ہٹ رہا۔
''Going to perform Umrah with my whole family..,Dear friends make dua for our safe departure and safe arrival''
اوراِس بات میں کوئی شک نہیں کہ پوری دُنیا میں رہنے والے اُس کے چاہنے والوں نے اُس کے لئے دُعا ضرور کی ہوگی ،لیکن شاید۔۔۔، میری دُعاؤں میں کہیں کمی رھ گئی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :