سماج سیاست اورمنتخب ایوانوں کا فورم

اتوار 8 مارچ 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

سینٹ نتائج کے مطابق سینٹ کی 48 نشستوں کے انتخابات میں حکمران مسلم لیگ (ن) 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے سرفہرست رہی جس کی اب سینٹ میں مجموعی 26 نشستیں ہو گئی ہیں جبکہ سابق حکمران پیپلزپارٹی نے اپنی چھوڑی 21 نشستوں میں سے صرف آٹھ پر کامیابی حاصل کی۔ اس طرح سینٹ میں اسکی نشستیں 40 سے کم ہو کر 27 رہ گئی ہیں تاہم سینٹ میں اب بھی اسکی پوزیشن سنگل لارجسٹ پارٹی کی ہے۔

سینٹ انتخابات میں بلوچستان سے حکومتی امیدوار کے مقابل آزاد امیدوار کی کامیابی اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کے امیدوار افضل چن کو اپنی پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے مجموعی 16 ووٹوں سے بھی گیارہ ووٹ زائد ملنے سے یہ حقیقت تو واضح ہو گئی ہے کہ کسی بھی پارٹی کے ارکان کو پیسے کے زور پر یا کسی دباؤ کے تحت خریدنا چنداں مشکل نہیں۔

(جاری ہے)

چونکہ ارکان کو خریدنے کی روایت ماضی میں خود حکمران مسلم لیگ (ن) نے مستحکم بنائی تھی اس لئے اس کا یہی سیاسی طرزعمل اب اسکے گلے پڑ رہا ہے اور طبقاتی مفاد پرستیوں پر مبنی ان سیاسی رویوں سے ”سٹیٹس کو“ والا نظام مزید مستحکم ہو رہا ہے۔

اس صورتحال میں سب سے افسوسناک اور منفی سیاست عمران خان کی نظر آتی ہے جو بظاہر عوام کو ”سٹیٹس کو“ والے نظام سے خلاصی کے خواب دکھاتے ہیں مگر جب منتخب ایوانوں کے فورم پر ایسا کوئی موقع بنتا ہے تو وہ اسمبلیوں میں نہ جانے کی ہٹ دھرمی برقرار رکھ کر نظام کی تبدیلی کا یہ موقع بھی دانستہ طور پر ضائع کر دیتے ہیں جس سے اس تاثر کو ہی تقویت ملتی ہے کہ انکی پارٹی بھی عوام کو اقتدار میں شمولیت کے حق سے محروم رکھنے والی سیاست میں برابر کی حصہ دار ہے جبکہ انہوں نے گزشتہ چھ ماہ سے قومی‘ پنجاب اور سندھ اسمبلی کا بائیکاٹ کرکے وہاں عوام کو عملاً نمائندگی کے حق سے محروم کیا ہوا ہے۔

یہ پالیسی سراسر عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے جس کی بنیاد پر یقیناً عمران خان کو آئندہ انتخابات میں عوام کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑیگی کیونکہ انکی پارٹی کے ارکان کو منتخب کرنیوالے ووٹر بجا طور پر یہ سوچ رہے ہیں کہ انہوں نے منتخب ایوانوں کے اجلاسوں میں شریک ہی نہیں ہونا تو وہاں انکے حقوق اور مسائل کے حل کیلئے کون آواز بلند کریگا۔

حکمران مسلم لیگ (ن) کے پاس عمران خان کی ان سیاسی غلطیوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع موجود ہے مگر اس پارٹی کی قیادت نہ صرف ایسے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے کو تیار نہیں بلکہ خود بھی پے درپے ایسی سیاسی غلطیاں کر رہی ہے جس کی تلافی اس کیلئے ممکن نہیں رہے گی۔ سینٹ کے حالیہ انتخابات حکمران مسلم لیگ (ن) کیلئےwake up call کے مترادف ہیں۔ اسے اپنی صفیں درست اور آمرانہ طرز عمل سے نجات حاصل کرنا ہو گی ورنہ سلطانی جمہور کا خواب تعبیر ڈھونڈتے ڈھونڈتے قوم کو پھر ماورائے آئین ڈکٹیٹر شپ کی جانب لے جا سکتا ہے۔

سینٹ انتخابات کے حوالے سے مجوزہ 22ویں آئینی ترمیم بھی حکمران مسلم لیگ (ن) کے گلے پڑی ہوئی ہے جسے لانے کی سوچ تو بادی النظر میں سینٹ انتخابات کے موقع پر ہارس ٹریڈنگ روکنے کی تھی مگر اس مجوزہ ترمیم پر حکومت کو اپنی سیاسی سہولت کار پیپلزپارٹی کے علاوہ اپنی اتحادی جے یو آئی (ف) اور اے این پی کی بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جن کے خیال میں یہ ترمیم اپنے ہی ارکان کو مشکوک بنانے اور ان پر عدم اعتماد کرنے کے مترادف تھی۔

اگرچہ اس مزاحمت کے باعث حکومت نے 22ویں آئینی ترمیم لانے کے ارادے سے رجوع کرلیا مگر اسکے بارے میں یہ رائے اور بھی پختہ ہو گئی ہے کہ حکمران جماعت کو ایوان بالا میں عام آدمی کی نمائندگی سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اس مجوزہ ترمیم کے ذریعے کروڑوں کے پارٹی فنڈز کے عوض اشرافیہ طبقات سے لائے گئے اپنے امیدواروں کو ہارس ٹریڈنگ سے بچانا چاہتی تھی۔

ابھی اس پر مجوزہ 22ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پڑنے والا سیاسی دباؤ کم نہیں ہوا تھا کہ سینٹ انتخابات کیلئے پولنگ سے ایک رات قبل ہنگامی طور پر صدارتی آرڈی نینس جاری کرکے پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور جے یو آئی (ف) کی قیادتوں کو حکومتی پالیسیوں کے لتّے لینے کا مزید موقع فراہم کر دیا گیا چنانچہ اب سینٹ کے فورم پر حکمران مسلم لیگ (ن) کیخلاف پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم‘ جے یو آئی‘ مسلم لیگ (ق) اور اے این پی ایکا کئے نظر آتی ہیں جو پیپلزپارٹی کے امیدوار کو چیئرمین سینٹ منتخب کرانے کی واضح پوزیشن میں ہیں کیونکہ ان پانچوں جماعتوں کی اس وقت سینٹ میں مجموعی 51 نشستیں ہیں جبکہ چھ آزاد ارکان اور فاٹا کے انتخابات کے بعد اسکے چار ارکان بھی حکمران مسلم لیگ (ن) کی مخالف جماعتوں کے ساتھ مل کر سینٹ میں پیپلزپارٹی کیلئے چیئرمین شپ کی راہ آسان بنا دینگے۔

الیکشن کمیشن نے فاٹا کی چار نشستوں پر پولنگ انتخابات سے ایک روز قبل جاری ہونیوالے متنازعہ صدارتی آرڈی نینس کے باعث روک دیا۔ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس آرڈی نینس کو بدنیتی پر مبنی قرار دے کر کالعدم کردیا تو سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے بقول میاں نوازشریف کو حکومت سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :