عدم توجہی

اتوار 8 مارچ 2015

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

#نواز شریف کے فارم ، کیپٹن صفدر کی ملز سے ٹرانسفارمر چوری۔خبر
پاکستان کے چور بھی بڑے بہادر اور ہوشیار ہو گئے۔ان کی چوریاں پہلے عوام کے لئے لمحہ فکریہ تھیں،اب تو چوروں نے وزیراعظم پاکستان کو بھی لوٹنا شروع کر دیا۔پولیس کے لئے بہت ضروری ہے کہ چوروں کو جلد از جلدبے نقاب کرے ورنہ ہم پاکستانیوں کے لئے بہت ہی مایوس کن حالات ہیں۔

جب تک پولیس وزیراعظم پاکستان کے چوروں کو نہیں پکڑے گی تب تک عوام کو دن رات لوٹنے والے چور اپنے آپکو خدانخواستہ ہیرو ہی سمجھیں گے ،یہاں پولیس کی پھرتی کے ساتھ ساتھ عوامی اعتماد کی بحالی کا سوال ہے؟اس لئے محکمہ پولیس کو فی الفور ٹرانسفارمر چوروں کی تلاش میں دن رات ایک کرنا ہوگا ۔عوام کی تشویش کا علاج پولیس کیسے کرتی ہے سارے پاکستانی اسی سوچ میں کرنٹ افئیر کے لئے اخبار ٹی وی ٹٹولنا شروع ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)


#پاکستانی کرکٹ ٹیم نے میچ جیتنا شروع کر دیئے۔خبر
مبارک ہو! ہم بھی جیتنا شروع ہو گئے۔مصباح کی ٹُک ٹُک میں بر کت آگئی ہے۔بہت افسوس ہے ناصر جمشید یونس خان کی طرح کھیلتا نہیں ہے پھر بھی ٹیم میں اوپننگ کرتا رہا ہے۔سرفراز احمدکو میچ کھلانے کے ثمرات ٹیم کو جنوبی افریقہ میں مل گئے ہیں۔اس نے نہ صرف پانچ کیچز لئے ہیں بلکہ 49سکور بھی بنائے ہیں۔

ناصر جمشید کی بیٹنگ نہ چلنا اور پھر بھی ٹیم کا حصہ ہونا معین خان کے جواء کلب میں موجود ہونے کی طرح ایک ایسا بڑا سوال ہے جس کو جواب آنا بہت ضروری ہے۔شاید ہماری ٹیم کے کسی سفارشی کا آئیڈیا ہو کہ خراب کھیل کھیل کے ایک دن ناصر جمشید بھی بیٹسمین بن جائے گا اسی یقین پر شاید مصباح بھی خاموش ہو۔ساؤتھ افریقہ کے میچ میں ہماری ٹیم میں غیرت مندی کا مظاہرہ کیا ہے اور اسی کی ہمیں ضرورت تھی۔

ہماری ٹیم کے بیٹسمین اگر سدھر جائیں تو ہمارے باؤلرز بہت کچھ کر سکتے ہیں۔آئرلینڈ سے اگر ہماری ٹیم جیت جائے تو شاید ہی عوام کے دل میں لڈو پھوٹیں ورنہ ہماری ٹیم کے کوارٹر فائنل میں نہ جانے پر پوری ٹیم پھوٹنے کا چانس ہے ہمارا مطلب ہے پھر فیچر میں نئی ٹیم بن سکتی ہے۔ظاہر ہے یہ پرفارمنس نہیں دیں تو کیا ہم سارے انہیں کھیلتے دیکھنا کیسے پسند کریں گے؟
#پشاورمیں دس ہزار والدین پولیو قطرے پلانے سے انکاری۔

خبر

نہ جانے کون سا دور آئے گا کہ ہماری عوام اور ہم با شعور ہونگے۔پولیو کے قطرے پلانا بہت ضروری ہیں۔امریکہ کا اسامہ بن لان کو پکڑنے کے لئے ویکسی نیشن کی مہم استعمال کرنا درست تھا یا غلط یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اسامہ بن لادن کے چکر میں اپنی نئی نسل کی زندگی خدارا تباہ مت کرو۔پولیو سے بچاؤ کے قطرے نئی نسل کے لئے لازمی جزو ہے ،احسا س کرو،پولیو کا وائرس ایک مہلک وائرس ہے جو نہ صرف جان لیوا ہے بلکہ بچوں کے پوری عمر معذور ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

بچے صحت مند ہونگے تو صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا،معاشرہ صحت مند ہو گا تو ترقی کے چانس بنیں گے۔قطرے نہ پلانے والی جاہلانہ سوچ کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔عمران خان صاحب خیبر پختوانخواہ میں دھاندلی سے زیادہ پولیو مہم چلانے پر زور دیں تو یقینا لوگوں کی دعائیں لیکرجنتی ہو جائیں۔
#راولپنڈی میں بسنت زوروں پر۔خبر
ہماری پولیس کو کیا ہو گیا؟بھائی جان آپ ورلڈ کپ کے میچز ضرور دیکھیں لیکن اپنے فرائض اد ا کرنا بالکل نہ بھولیں!اس پتنگ بازی سے پاکستان میں ہر سال کئی گردنوں پر ڈور پھرنے سے ہلاکتیں ہو جاتی ہیں،کئی نوجوان معذور ہو جاتے ہیں۔

راولپنڈی کے شہرو دیہاتی علاقوں میں چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ پتنگ باز سجنا بغیر ”پولیس“ کے قابو نہیں آتے۔اس پتنگ بازی میں کہیں کہیں تو ناجائز اسلحہ اور شراب پر دھمالیں بھی دکھائی دیتی ہیں۔میری پیاری پولیس جاگوآپ سے گزارش ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑو اور جرمانہ کرو ،آپکی عین نوازش۔
#سینٹ الیکشن ہو گئے۔

خبر

اس الیکشن پر بھی عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگایا لیکن اپنے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ارکان کو یرغمال بنا کر خود ہی دھاندلی کروا ڈالی۔دھاندلی کا شور مچانا گویا ان کی عادت ہے جیسے وہ کرکٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ آؤٹ کا شور مچاتے تھے۔ شرمیلا فاروقی اپنی شادی کے دن بھی ذرا بہ شرمائیں اور ووٹ ڈالنے ہاتھوں پر مہندی رچائے ارکان کے درمیان پہنچ کر نیا ریکارڈ لگا دیا،شرمیلا فاروقی اپنی شادی کے پنڈال سے ارکان کو آشیرباد پہنچ گئی۔

ان کے بقول دلہنوں کے شرمانے کا رواج اب ختم ہو گیا ہے اگر شرمانا ہواتو تھوڑا سا ولیمہ والے دن شرمالیں گی۔آرڈینس کے بعد دھاندلی کا چانس باقی تو نہیں تھا لیکن اگر پھر بھی دھاندلی ہوئی تو اس پر ارکان خود ہی ذمہ دار ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کو ایمانداری کی ہدایت دے۔
#بارشیں ایک ہفتہ مزید جاری رہیں گی۔خبر
یوں تو پورے ملک میں ہمارے سیاستدانوں نے سیوریج سسٹم ٹھیک کرنے کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا پھر بھی بلدیہ اور مقامی یونین کونسلز نے بھی اپنی ذمہ داریاں بھلادی ہیں۔

راولپنڈی کی مثال لیں کنٹونمنٹ اور یونین کونسل والوں نے ملازمین کی ایک فوج بھرتی کی ہوئی ہے لیکن گلی گلی اور سڑک سڑک پانی سے اٹی رہتی ہے۔پیدل چلنے والوں کو تالابوں سے گزرنا پڑتا ہے اور نالے کنارے گھروں میں پانی کا سیلاب امڈ آتا ہے۔گاڑی والوں کو گلیوں اور سڑکوں پر چلتے ہوئے پانی میں پل نظر نہیں آتے کئی بیچارے نالوں میں گاڑیاں پھنسا کے بیٹھ جاتے ہیں یا کئی گاڑیاں بیچ سڑک کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

چوہدری نثار سمیت تمام الیکشن میں جیتے ہوئے حضرات کو اپنے اپنے علاقوں میں عوامی مسائل کا ادارک ہونا چاہیئے۔اگر یہ لوگ اس دفعہ ڈیلیور نہیں کریں گے تو عوام اگلی دفعہ خدانخواستہ انہیں رجیکٹ کر سکتی ہے۔بجلی،پانی،گیس ،گلی اورسڑکوں کی مرمت منتخب شدہ نمائندوں کا کام ہے۔اگر انہوں نے یہ کام اپنے چمچے کڑھچوں کو سونپا تو وہ اس عوامی پیسے سے اپنے محل ہی بناتے رہیں گے عوا م کا ستیا ناس ہوتا رہے گا۔بارشیں ہونے سے سیاستدانوں کی عدم توجہی کا پول کھل جاتا ہے ۔ہماری دعا ہے کہ سب کو احساس ہو اور وہ عوام کے لئے کچھ کر گزریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :