وہ ایک سجد ہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

جمعہ 6 مارچ 2015

Qari Hanif Jalandhri

قاری حنیف جالندھری

ان دنوں ایک ہی وقت میں اذان اور نماز کی جو تجویز زیر غور ہے وہ کئی اعتبار سے قابل تحسین ہے ۔ اس تجویز پر ہر قیمت عملدرآمد کا اہتمام کیا جانا چاہیے ۔اگر ابتداء میں ہی اس پر سو فیصد عمل نہ بھی ہو سکے تو جس قدر ہو سکے اس تجویز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ امید ہے کہ رفتہ رفتہ اس کا ماحول بن جائے گا انشا اللہ اور اس سے کئی فوائد حاصل ہوں گے ۔


بیک وقت نماز اور اذان کا پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ ملک بھر میں نماز کا ماحول بنے گا چونکہ انسانی فطرت ہے کہ ماحول میں کوئی بھی عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے اس لیے چار وناچار ہر انسان نماز پڑھنے کی طرف متوجہ ہوگا ۔
دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ملک بھر میں یکسانیت ،یکجہتی،قومی وحدت اور اتحاد واتفاق کی فضا دکھائی دے گی جو ہر اعتبار سے ملک وملت کے لیے مفید اور کارآمد ہوگی۔

(جاری ہے)


اس کا تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ ایک مخصوص ،محدود اور مقررہ وقت میں نماز کا عمل سرانجام دینے سے جہاں کاروباری مراکز میں دکانیں اور کاروبار بند کرنے میں تاجروں اور خریداروں دونوں کے لیے آسانی ہو گی وہیں دفاتر وغیرہ میں بھی نماز اسی وقت کے اندر اندر ادا کر لی جائے گی اور بلاوجہ نماز کے نام پر وقت کے ضیاع اور بدنظمی پر بھی قابو پایا جا سکے گا ۔


اس کا چوتھا فائدہ یہ ہو گا کہ اس تجویز پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک بھر میں اقامت ِصلوٰة کا جو ماحول بنے گا وہ نسلِ نو کی تربیت اور نماز کی پابندی کا مزاج بنانے کے حوالے سے ممد ومعاون ثابت ہو گا ۔
اس سلسلے میں سعودی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بیک وقت اذان اور نماز سے جو نورانی اور روحانی ماحول دکھائی دیتا ہے وہ قابلِ تقلید بھی ہے اور قابل ِرشک بھی… جن خوش نصیب لوگوں کو اللہ رب العزت نے حج، عمرے یا کسی اور مقصد کے لیے سعودی عرب جانے کی سعادت سے نوازا وہ جانتے ہیں کہ وہاں اذان ہو تے ہیں کس طر ح ہر کوئی نماز کی تیاری میں لگ جاتا ہے ،کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں پر ہُو کا عالم ہوتا ہے ،کس طرح بازار اور مارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں اور کس طرح ہر کوئی ہر کام چھوڑ کر اپنے رب کی طرف سے ہونے والی منادی پر لبیک پکار اٹھتا ہے ۔

یوں سعودی عرب میں اقامت ِصلوٰ ة کے اس مثالی نظام کی بے شمار برکات اور اثرات ہیں جن کا ہر کسی نے اپنی نظر سے مشاہدہ کیا ہوگا لیکن کچھ ہی عرصہ قبل عالمی سطح پر اقامت ِصلوة کا جو ایمان افروز اور خوش کن منظر دیکھنے کو ملا اگر سعودی عرب کے اقامت صلوٰ ة کے کلچر کی کوئی اور خوبی نہ بھی سامنے آتی تب بھی یہی ایک واقعہ ایسا ہے جو اجتماعی اقامت صلوٰة کے مقاصد اور فلسفہ کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔


اس تاریخ ساز واقعہ سے صرف عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے کہ کس طرح امریکی صدر باراک اوباما اور امریکی خاتونِ اول کی سعودی شاہی محل میں آمد کے چند لمحوں بعد جوں ہی اذان کی آواز سنائی دی تو سعودی عرب کے نومنتخب فرمان روا خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے جملہ رفقاء اوباما اور امریکی خاتون اول کو اسی حالت میں چھوڑ کر نماز کے لیے چل دئیے ۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے اس عمل نے عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے بچے بچے کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ وہ جو علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا کہ
وہ ایک سجد ہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
دیتا ہے ہزار سجدوں سے آدمی کو نجات
شاہ سلمان کا یہ عمل علامہ اقبال کے اس شعر کا صحیح مصداق ہے ۔اللہ کرے کہ یہ صرف ظاہر ی نماز اور سجدے تک ہی موقوف نہ رہے بلکہ شاہ سلمان عملی طور پر بھی ایسی پالیسیاں اپنائیں جو صرف خدائے وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے والی،اسلامی تعلیمات کو اولین ترجیح بنانے اور دینی غیرت وحمیت پر مبنی ہو ں تب انشااللہ دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے گا ۔

ویسے سعودی عرب کے نومنتخب بادشاہ ،شاہ سلمان کی اسلام پسندی،قرآن کریم سے ان کی محبت،ان کی انصاف پسندی اور انسان دوستی کے جو تذکرے اور چرچے سنے ہیں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے بجا طور پر ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جس طرح انہوں نے نماز کے وقت عزم واستقلال اور جرأت و بانکپن کا مظاہر ہ کیا وہ اپنے طرزِ حکمرانی کو بھی اسی روش پر استوار کرنے کی کوشش کریں گے ۔

اگر ایسا ہو جاتا ہے تو انشا اللہ اس کے دوررس اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔
اگر دیکھا جائے تو شاہ سلمان کے اس عمل کے پس منظر میں جہاں دیگر کئی عوامل نظر آتے ہیں وہیں ایک نمایاں چیز یہ ہے کہ شاہ سلمان نے جس ماحول میں پروش پائی وہ اقامت صلوٰ ة کا ایسا ماحول تھا جہاں اذان کی آواز سن کر صر ف رب ذوالجلال کی بارگا ہ میں سجدہ ریز ہو نے کے علاوہ کوئی عمل اورکوئی مصروفیت آڑے نہیں آتی۔

یہ اس مثالی ماحول اور تربیت کا اثر ہے جس کی بنا پر شاہ سلمان امریکی صدر سمیت کسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں جبکہ ہمارے ہاں افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کسی معمولی سی مصروفیت کی وجہ سے ،کسی عام سے دوست یا مہمان کی آمد کے باعث ،غمی یا خوشی کے کسی بھی موقع پر نماز قضا ء کر لی جاتی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں اقامتِ صلوٰة کا ماحول بنایا جائے ۔

اس کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ماحول بنایا جائے ،جس طرح سعودی عرب میں وزارت امر بالمعروف اور اصلاح وارشاد کا شعبہ قائم ہے اسی طرح کا شعبہ یہاں بھی قائم کیا جائے اور صرف سرکاری کوششوں پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ تمام مذہبی رہنماء ، دینی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان خاص طور پر تبلیغی جماعت کے احباب ملکی سطح پر ایسے ماحول کو فروغ دینے کی جدوجہد کریں جس کے نتیجے میں ہماری قوم اور معاشرے میں بھی ایسے صالح افرادتیار ہوں جو شاہ سلمان کی طرح اس ایک سجدے کو ترجیح دینے والے ہوں جو آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات دلانے کا باعث بنے ۔

اگر ہم اقامت ِصلوٰة کی صورت میں اصلاح معاشرہ کی طرف پہلا قدم اٹھانے میں کامیاب ہو گئے تو قرآنی وعدے کے مطابق اقامتِ صلوٰة کا یہ ماحول ہر قسم کی بے حیائی ،برائی ،گناہ اور جرائم کی روک تھام کا ذریعہ بنے گا ۔انشااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :