تاریخ کا سفر !

پیر 2 مارچ 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

جیرڈ ڈائمنڈایک مشہور سفید فام مصنف تھا ، وہ اپنی زندگی میں ایک بار نیو گنی گیا ، وہاں اس کی ملاقات ایک کالے سے ہو ئی ،کالے نے سوال کیا ”تم سفید فام لوگ اتنے ذہین کیوں اور کیسے ہو ؟تم ہر روز ایک نئی چیز ایجاد کرتے ہو ،تم سفید لوگ جب بھی یہاں آتے ہو اپنے ساتھ نئی نئی چیزیں لے کر آتے ہو ، ہم کالے لوگ بہت کم چیزیں بناتے ہیں اور نہ ہمیں بنانی آتی ہیں ، ایسا کیوں ہے ؟“جیرڈ ڈائمنڈ کے پاس اس سادہ سے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ، اس نے کالے سے معذرت کی اور وہاں سے چل پڑا ۔

وہ ساری زندگی اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا وہ کھوج لگاتا رہا کہ قوموں اور ملکوں کے حالات میں اتنا تفاوت کیوں ہے ،ایک قوم انتہائی ترقی یافتہ تو دوسری قوم زوال کی ندی میں کیوں بہہ رہی ہے ، وہ سوچتا رہا ، آخر پچیس سال بعد اس نے کالے کے جواب میں ایک کتاب لکھی جس کا نام ”گنز جرمز اینڈ سیٹل “تھا اس کتاب میں اس نے اپنی پچیس سالہ تحقیق اور جستجو کا خلاصہ لکھا ۔

(جاری ہے)

اس کتاب کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر خطے اور ہر کونے میں ماحول مختلف ہے ، لہذٰا جن قوموں کا ماحول اچھا تھا یا جن قوموں نے اپنا ماحول اچھا بنا لیا وہ قومیں آگے نکل گئیں اور جن قوموں نے ماحول کی پرواہ نہیں کی ماحول نے ان کی پرواہ نہیں کی اور آج وہ قومیں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں ۔
بظاہر یہ ایک عام سا تجزیہ ہے لیکن یہ حقیقت سے قریب تر ہے اورتاریخ اور فلسفہ تاریخ کے امام ابن خلدون نے بھی ماحول کو عروج وزوال کے حوالے سے ایک اہم عنصر کے طور پر شامل کیا ہے ۔

درا صل کسی قوم کی ترقی اور تنزلی کا معیار اس کی تخلیقی صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے اور تخلیق کا ری کے لیئے ماحول کا سازگار ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ ساز گار ماحول، معاشرتی استحکام ، باہمی تعاون، خوش اخلاقی، قوانین کی پابندی ، بڑوں کا احترام، مسکراہٹ ، امن و امان، عدل وانصاف ، میرٹ، منصوبہ بندی، تعلیمی ماحول ، خوشگوار فضا، تعلیمی اداروں کی کثرت، اظہار رائے، تحمل اور برداشت،وسعت ظرفی اور بلند حوصلگی یہ وہ ماحول ہے جس میں تخلیق کاری ممکن ہوتی اور جس میں کو ئی تخلیق کا ر جنم لیتا ہے۔

جبکہ ہمارا یہاں کا ماحول کیسا ہے ؟ آپ کسی سے راستہ پوچھیں گے وہ آپ کو یو ں گھور کے دیکھے گا جیسے آپ نے اس کا قرض دینا ہے ، آپ بس یا گاڑی میں بیٹھیں گے ہر کو ئی آپ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورے گااور آپ کو خو د پے شک ہونے لگے گا کہ میں کہیں ریمنڈ ڈیوس تو نہیں۔تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پندرویں صدی تک یورپ ہم سے آگے نہیں تھا اور چین اور جاپان کی ترقی تو ابھی کل کی بات ہے لیکن گوروں نے پندرویں صدی کے آخر میں اپنے ماحول کو تبدیل کرنا شروع کیا ، باہمی اختلافات کو نظر انداز کر کے نئے راستے تلاش کیئے اور رہی سہی کسر کولمبس نے پوری کر دی جس نے امریکہ دریافت کر کے یورپ اور اہل یورپ کے لیئے دولت کے دروازے کھول دیئے ، غربت بھی لڑائی جھگڑوں کی ایک وجہ ہے لیکن اب یورپ غریب نہیں رہا تھا ،امریکہ سے حاصل ہونے والی دولت نے اہل یورپ کو امن پسند بنا دیا تھا اور ان کی یہی امن پسندی ان کی تخلیق کا ری کا سبب بن گئی۔

ایشیا کے بحری راستوں پر مسلمانوں کے قبضے کی وجہ سے یورپ کی ساری تجارت رکی ہوئی تھی لیکن اہل یورپ کا جیسے ہی ما حول بدلا انہوں نے سب سے پہلے اس مسئلے کا حل نکالا ،گوروں نے ہندوستا ن اور ایشیاء کے ممالک سے رابطے کے لیئے نئے سمندری راستے تلاش کرنے شروع کر دیئے ، واسگو ڈے گاما نے یورپ کا یہ مسئلہ بھی حل کر دیا اور بحیرہ روم میں عثمانی ترکوں کی مڈل مین کی حیثیت ختم ہو گئی ۔

ماحول ساز گار ہونے کی وجہ سے اہل یورپ کا رجحان سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف بھی ہو گیا تھا ، جب نئے نظریات کی قدر کی جانے لگی اور تحمل و برداشت کی فضا قائم ہو گئی تو نئے نئے نظریات اور تھیوریز سامنے آنے لگیں ، نئی تحقیق اور ریسرچ ہونے لگی اور یہیں سے عیسائیت میں پروٹسٹنٹ فرقے نے جنم لیا۔ اس خوشگور ماحول اور نظریات کی آذادی نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کا ایک نیا ذوق پیدا کیا ۔

یورپ کے دانشور طبقے کو ایک نئی مصروفیت مل گئی ، اب ان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق اور ریسرچ کے مقابلے ہونے لگے ، نئے مقالے اور نئی کتابیں شائع ہو نا شروع ہوئیں ، نئی تحقیقات اور ایجادات سامنے آنے لگیں ۔ دانشوروں اور اسکالروں کی انجمنیں وجود میں آ گئیں ، ان کے تحقیقی مقالے چھپتے اور ان پر بحث ہوتی ۔ ان انجمنوں میں اسکالر اپنے مقالے پیش کرتے ، اس طرح کی انجمن یا اکادمی سب سے پہلے روم میں 1603میں وجود میں آئی ۔

اس کے بعد 1633میں فلورنس، 1660میں رائل اکادمی لندن اور 1666میں پیرس میں اس طرح کی اکادمیاں وجود میں آئی۔ حتیٰ کہ ان اسکالرز نے اس قدیم یونانی فلسفے سے بھی اختلاف شروع کر دیا جسے عیسائیت نے اپنے مذہب کا حصہ بنا لیا تھا اور اس سے اختلاف عیسائیت میں بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا ۔ یورپ چار پانچ صدیاں قبل جان چکا تھا کہ ہمیں من حیث القوم زندہ رہنے اور اپنی تہذیب کو باقی رکھنے کے لیئے ماحول کا سازگار ہونا ، نظریات کی قدر کرنا، میانہ روی اور تحمل وبرداشت انتہائی ذیادہ ضروری ہے ،یورپ نے چار صدیاں قبل مکالمے کی فضا، وسعت نظری، برداشت، بڑا پن ، اعلیٰ ظرفی اور اظہار رائے کی آذادی جیسی اخلاقی قدروں کو اپنے ماحول کا حصہ بنا لیا تھا اور ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کی وجہ سے ہی وہاں تخلیق کاری نے جنم لیا اور وہ ہم سے آگے نکل گئے ۔

آج ہمارے ماحول میں جو عدم برداشت کی فضا بن چکی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے ، نظریات کے اختلاف کو قتل وقتال کا سبب بنا لینا اعلیٰ درجے کی جہالت ہے اور آج ہم اس جہالت میں خود کفیل ہیں ،آئمہ اربعہ بھی اپنے ہمعصروں اور شاگردوں کے نظریات سنتے ، یہی وجہ تھی کہ اس وقت معاشرے کی ضروریات کے مطابق فقہ بنتی تھی ، آج معاشرہ بہت آگے نکل چکا ہے اور ہمیں پہلے سے کہیں ذیادہ نظریات کی آذادی کی ضرورت ہے ، آج ہمیں پہلے سے ذیادہ نئے نظریات او رافکار کی ضرورت ہے ۔

نئے نظریات اور تصورات ہی تخلیق کاری کا آکسیجن ہیں ، دلیل سے دلیل ٹکرائے گی تو سچ جنم لے گا ۔کہتے ہیں جب گلیلیو گلیلی کو اس کے اس نظریئے کی وجہ سے کہ ”زمین سورج کے گرد گھومتی ہے“عدالت میں پیش کیا گیا اور اسے اپنا یہ نظریہ واپس لینے پر مجبور کیا گیاتو اس نے بظاہرجج کے سامنے اپنے نظریئے سے رجوع کر لیا اور ساتھ ہی زمین کی طرف سر جھکا کے کہا ”یہ تو اب بھی گھوم رہی ہے“۔

جس طرح ایک انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ پورے معاشرے کو جس سے وہ اختلاف رکھتا ہے اس کو خاموش کرائے اسی طرح پورے معاشرے کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اس ایک انسان کوخاموش کرادے جو نئے نظریات اور افکار کی بات کرتا ہے ۔نئی سوچ ، نئی فکر ، نئے نظریات اور نئے افکار ہی کسی قوم کی بقاء اور ترقی کی ضامن ہیں لیکن افسوس آج ہمارا معاشرہ ان اعلیٰ اقدار سے مکمل طور پرتہی دست ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :