سفرمدینہ،ماں اورجنت

جمعرات 26 فروری 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

کائنات میں بکھرا ہرذرہ اللہ رب العزت کی عظمت و کبریائی اوراپنی صفات میں یکتا ہونے کی گواہی دیتاہے۔اللہ رب العزت کی اس کائنات میں مجھ جیسے عام لوگ صرف چندمعلوم اشیاء پہاڑ، دریا، صحرا و سمندر کی وسعت اوربڑائی کاہی اندازہ کرسکتے ہیں۔اللہ کی کائنات اتنی وسیع وعریض ہے کہ انسان اپنی تمام تر کوشش اورترقی کے باوجود اللہ عزوجل کی لامحدوداورعظیم تخلیقات کا احاطہ کرنے سے قاصرہے۔

اپنے محدودعلم اورسوچ کی بنیاد پر ذہن میں خیال آتا ہے، آخرکیا وجہ ہے کہ ربِ ذُوالجلال نے اپنی محبت کے اظہار کے لئے مقرب فرشتوں کی پاکی،پہاڑوں کی بلندی، سمندرکی گہرائی،وسعت ِصحرا ،سورج ، چانداورمشرق ومغرب تک پھیلے آسمان پرچمکتے ان گنت ستاروں کی مثال دینے کی بجائے یہ کہاکہ اے انسان میں تجھ سے سترماؤں سے بھی زیادہ پیارکرتاہوں۔

(جاری ہے)


ایک قصہ جس میں عام انسان کوماں کی خدمت ،اطاعت ، فرمانبرداری کے بدلہ میں اللہ عزوجل نے جنت میں وقت کے نبی کا ساتھ عطاء فرمایا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ جنت میں میرے ساتھ کون ہوگا؟ارشادہوافلاں قصاب ہوگا۔آپ کچھ حیران ہوئے اوراس قصاب کی تلاش میں نکلے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ قصاب اپنی دُکان میں گوشت بیچنے میں مصروف تھا۔اپنا کاروبا رختم کرنے کے بعد اس نے گوشت کا ایک ٹکڑا کپڑے میں لپیٹا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قصائی کے گھرکے بارے میں مزید کچھ جاننے کے لئے مہمان کے طورپراس کے گھرچلنے کی اجازت چاہی۔


قصاب جب گھر پہنچاتواُس نے گوشت کو پکایا،پھرروٹی پکا کر اس کے ٹکڑے شوربے میں نرم کئے اورپھر دوسرے کمرے میں چلاگیا۔جہاں ایک کمزور بڑھیا چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔قصاب نے انتہائی ادب سے اُسے سہارا دے کراُٹھایااورپھر بڑے پیاراوراحترام سے ایک ایک لقمہ منہ میں دیتا رہا۔جب اُس نے کھانا تمام کیا تو بڑھیا کا منہ صاف کیا۔بڑھیا نے قصاب کے کان میں کچھ کہا جسے سن کرقصائی مسکرایا اور بڑھیا کو واپس لٹا کر باہرآگیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام سب کچھ دیکھ رہے تھے۔آپ علیہ السلام نے قصاب سے پوچھا یہ عورت کون ہے اور اس نے تیرے کان میں کیا کہا جس پر تومسکرا دیا؟
قصاب بولا اے اجنبی! یہ عورت میری ماں ہے۔ گھر پرآنے کے بعد میں سب سے پہلے اس کے کام کرتا ہوں۔یہ خوش ہوکر مجھے دعا دیتی ہے کہ اللہ تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھے۔ جس پر میں مسکرادیتا ہوں کہ بھلامیں کہاں اور موسیٰ کلیم اللہ کہاں۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کے قدموں میں جنت ہے،یعنی ماں کی خدمت اور فرمانبرداری پراللہ راضی ہوتا ہے۔جنت اللہ کی رضا کانام اور انعام ہے۔ماں اللہ کی ایسی خوبصورت عطاء ہے کہ اُس کی ہرسانس اپنی اولادکے لئے دعا ہے۔ ماں ایسی خوبصورت ہستی ہے، وہ خودچاہے کسی بھی حال میں ہو، اپنے پرآنے والی ہرتکلیف،مصیبت اور آزمائش تو برداشت کرلے گی،مگر اپنی اولاد کی ذرا سی تکلیف اس سے دیکھی نہیں جاسکتی۔

حصول ِمعاش کی خاطراپنے گھر،اپنے وطن سے دور رہتے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا۔میری طرح دیگردوست جواپنے گھراوروطن سے دور ہیں، اس تجربہ سے گزرے ہوں گے ۔کہ ماں نے فون پرآپ کی آواز سُن کرکہا ،بیٹاخیریت توہے؟تیری آوازبدلی بدلی سی ہے۔ میرادل رات سے بے چین ہے۔تمھیں کیا ہوا۔ آپ اپنی ماں کو پریشانی سے بچانے کی خاطراپنی تکلیف کا ذکر کرنے سے گریزکرتے ہیں،مگر ماں کہتی ہے نہیں !توضرورمجھ سے کچھ چھپارہا ہے۔

بیٹا اللہ خیر کرے میرا دل کہتا ہے کہ تم کسی مشکل اور تکلیف میں ہو۔میرے بچے تم ٹھیک توہو؟کہیں بیمارتو نہیں؟بتاؤناں کیا مسئلہ ہے؟جدیدتحقیق کے بعدسائنسدان بھی یہ کہتے ہیں کہ ماں کی آواز میں وہ اثر ہے جس سے انسان کوسکون ملتا ہے،چاہے ماں کی آوازآپ سات سمندر پار فون کے ذریعہء ہی کیوں نہ سُنیں ،یہ آواز آپ کو سکون کی دولت سے مالا مال کردیتی ہے۔


ایک بارسفرمدینہ کے دوران اپنی آنکھوں سے ربِ کریم کے تحفہء عظیم ماں اور بیٹے کے خلوص ومحبت سے بھرے جذبات کامشاہدہ کیا۔ایک عرصہ بیت گیامگرآج بھی وہ منظرمیری آنکھوں کے سامنے ہے۔میرادوست بہت خوش اورجلدی میں تھا۔اُس نے نہا دھو کر اچھالباس پہنااورکہاچلوآؤ آج مدینہ اورجنت ایک ساتھ دیکھتے ہیں۔پاکستان سے آئی میرے دوست کی ماں عمرہ کی ادائیگی کے بعداپنے گروپ کے ساتھ مدینہ جارہی تھی ۔

ہمیں اُن سے پہلے مدینہ پہنچناتھا۔روضہ پاک کی زیارت کے بعدماں جی سے ملاقات ہوئی۔میرے دوست نے میری خاموشی اور حیرانی کو دیکھ کرشایدخودی اندازہ کرلیااور پھر میرے قریب آکرکہنے لگا،آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہو۔میں بھی یہی سوچتاتھا کہ اب اس حال میں ماں جی کے لئے سفرکی صعوبتیں برداشت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ غربت اورحالات کے سبب اس سے پہلے یہ ممکن ہی نہیں تھا اور پھرسب سے بڑھ کریہ کہ بلاوا تواللہ کی طرف سے ہے،وہ جسے، جب اور جس حال میں چاہے بلانے پرقادر ہے۔

کتنے ہی دولت اورصحتمند انسان کرہ ارض پر موجود ہیں،مگر یہاں صرف وہی آتا ہے جسے اللہ کی طرف سے بلاوا آئے۔حالات اورمعذوری تو انسان کے لئے ہے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ سچی طلب ہو تو بلاوا ضرور آتاہے اور پھر بلانے والا کسی کو بے کس اور بے سہارا توہرگزنہیں چھوڑتا۔تھوڑے وقفہ کے بعدپھرگویا ہوا کہ ماں جی کے بہن بھائی اور سب رشتہ داروں کو اللہ عزوجل نے اپنے اور اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے گھر کی زیارت عطاء فرمائی۔

میں نے جب سے ہوش سنمبھالا،ان کی زبان پر ایک ہی خواہش اوردل میں ایک ہی آرزو تھی زیارت ِ مدینہ۔ تمام دُکھوں،تکلیفوں،بے پناہ مصیبتوں اور صدموں کو جھیلتے ہوئے مجھے پالا مگرآج تک اس ہستی نے کبھی مجھ سے کوئی فرمائش نہیں کی ما سوائے سفر مدینہ ۔
شاید ماں جی اب صرف اپنی دیرینہ دلی خواہش زیارت روضہ رسول ﷺ کی منتظر تھیں کہ روضہ رسول ﷺ کی زیارت کے ایک دن بعدماں جی کی طبعیت اچانک خراب ہوئی ۔

صعف اورناقابل ِبرداشت تکلیف سے ان کا براحال تھا۔درد سے چیخیں نکل رہی تھیں۔پھرایک لمبی خاموشی کہ جیسے تمام دُکھوں سے چھٹکارامل گیا ہو۔ ہسپتال پہنچے ،ایمرجنسی وارڈ میں موجودڈاکٹر نے آنکھیں اورنبض چیک کرنے کے بعد اشارہ سے سمجھایا کہ اللہ کی یہی مرضی تھی۔ڈاکٹرکے مطابق میرے دوست کی ماں اب اس دُنیاسے رُخصت ہوچکی تھی۔ اس بے بسی کی حالت میں ماں سے بچھڑنے پر میرادوست اپنی ماں کا ہاتھ پکڑکرپانچ سالہ بچہ کی طرح بلک بلک کر رویاکہ اس کو دیکھ کر ہرآنکھ اشک بار تھی۔

بقول ایک پنجابی شاعر
جگ تے کوئی دُکھ نہ ویکھے اس جنت دی چھاں دا
شالا رہوئے سلامت سجنوں سب تے سایہ ماں دا
کچھ ہی لمحوں بعدبیٹے کے ہاتھ کوچومتے ہوئے ماں جی نے نحیف اورکپکپاتی آواز میں کہا ، میرے بیٹے میں نے یہاں آکرتمہیں پریشان کیااورتکلیف دی مجھے معاف کردینا۔ وہاں موجود ڈاکٹر اور ہسپتال کا سٹاف حیران تھا،ڈاکٹر نے کہایہ معجزہ ہے ،کسی نے کہایہ ماں کی محبت ہے توکسی نے کہا ماں بیٹے کی خاطر موت سے لڑکرواپس آئی ہے۔


میری نگاہ نے رب کریم کے تحفہء عظیم ماں کے خلوص ومحبت سے بھرے جذبات کے اس خوبصورت وحسین منظر کوعکس بندکرلیا اورمیرا دل اس منظر اورکیفیت سے ایسا بندھ گیا کہ میرے لئے زندگی بھران لمحات کوبھولناناممکن ہے۔ اس دوران میں سوچ رہاتھا ،ربِ کریم نے ماں کتنی عظیم ہستی بنائی، جسے اس تکلیف دہ حالت میں بھی اولاد کی فکر کہ پردیس میں میری وجہ سے میرا بیٹاپریشان ہے۔ بے شک تمام تعریفوں کی حق دار اورپاک ہے اللہ عزوجل کی ذات ِاقدس جس نے پوری کائنات میں ماں سے زیادہ سچا،مخلص اور اس ہستی کا نعم البدل بنایا ہی نہیں کہ جس کی مثال دی جاسکے ،یہی وجہ ہے انسان سے اپنے تعلق اور محبت کے اظہار کے لئے اللہ عزوجل نے ماں جیسی بے مثل ہستی کوبطور مثال پیش کیاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :