پُریقین لوگوں کا اکٹھ

منگل 24 فروری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

سرزمین پاکستان گذشتہ ڈیڑھ یا ا س سے زائدعشرہ سے جن مصائب اور مشکلات سے دوچار ہے اس کاادراک سبھی کو ہے، دہشتگردی کے اس جن نے جہاں ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا وہاں معاشرتی حوالے سے قوم محدود سے محدود ترہوتی جارہی ہے اگر پچھلے آٹھ دس سال کے دوران ہونیوالی سرگرمیوں ،عام شہری کی چال ڈھال ،سرگرمیوں کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ ا یک ایسے ماحول میں جب لوگ خود کو گھروں ،مساجد میں محفوظ نہیں سمجھتے ایسے میں گھر بیٹھے ہوئے انہیں اتنا اطمینان ضرور ہوتاہے کہ وہ اپنے اہل خانہ خاندان کے لوگوں کے ساتھ موجود ہیں۔

اسے بیچارگی کی انتہا سمجھا جائے یا پھر عدم تحفظ کااحساس ،بہرحال دونوں صورتیں ہی پاکستانی قوم کے محروم، مایوس رویوں کو ظاہر کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

ان رویوں کے حوالے سے پاکستان پرمسلط ہونیوالی حکومتوں نے بھی اپناسا کردار ادانہیں کیا اوراسے ”غیروں “ کی جنگ سمجھ کر اپناآپ کتراتے رہے لیکن سانحہ پشاور میں جب معصوم بچوں کو نشانہ بنایاگیا تو قوم کے ساتھ ساتھ حاکمین کو بھی احسا س ہونا لگا کہ اب ہمارے گھر جلنے لگے ہیں، انہیں بچانے کیلئے اب دو نہیں کئی قدم آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔

اس صورتحال میں کئی طرح کی پابندیاں، ضروری اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن کی وجہ سے کم ہوتی معاشرتی سرگرمیوں کی شرح مزید کم سے کم ترہوتی جارہی ہے۔ اب لوگوں کا ایک ساتھ مل بیٹھنا محال ہی نہیں ناممکن سا دکھائی دیتا ہے ،ادبی تقاریب خال خال دکھائی دیتی ہیں کہ ”سیکورٹی ریزن“ کی بناپر اجازت ہی نہیں ملتی، ایسے ماحول میں شعرا،دانشوران اپنے دل کی بھڑاس (یایوں کہاجاسکتا ہے کہ پوری قوم کے اندر کے دکھ کو ) صفحہ قرطاس پر بکھیررہے ہیں۔


صاحبو! آگ وخون کے اس کھیل نے پندرہ اٹھارہ سالوں سے قوم کے چہرے سے خوشیاں تک چھین لی ہیں اور ہر چہرہ اپنی جگہ فکر میں ڈوبا دکھائی دیتا تو ہرکسی کو فکر لگی رہتی ہے کہ نجانے اب کیا ہوگا؟؟اب تو خوشیوں کے ایام بھی مایوسی، فکرمندی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ایسے ماحول میں اگر کوئی امید کی شمع لیکر آگے بڑھے تو یقینا بہت بڑا جہاد ہوگا، کیونکہ اب ہرسو گھپ اندھیرا ہی اندھیرا اورمایوسی کے بادل چھائے دکھائی دیتے ہیں ۔

اس گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشنی محض دو ہی شعبہ جات سے ممکن ہے ،علم اورادب ،کیونکہ مستقبل میں انہی کا کردار اہمیت کا حامل ہوگا۔ جن شعبہ جات پر قوم کی امیدیں وابستہ تھیں وہ ان پر پورے اترنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں مگراب صاحبان علم دانش، ادب کے کاندھوں پرذمہ دار ی آن پڑی ہے، کوئی جالب ،قاسمی سا ہی میدان میں آکر اس اندھیرے کو پاٹ سکتا ہے، پروین شاکر جیسی میٹھی اورمدھر سروں میں گنگتاتی شاعری کرنیوالی کوئی شاعرہ اپنے خوبصورت لفظوں سے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کریگی اورکوئی اقبال مایوس قوم کیلئے دیدہ ور بنکرامیدوں کے چراغ جلائیگا ۔


آج یہ احساس یوں ہورہا ہے کہ گذشتہ کئی دنوں سے مسلسل سوچ میں مبتلا ہیں کہ جہاں جہاں علم کی روشنی پھیلی وہاں وہاں سے دہشت اوردہشتگردی کے اندھیرے بھاگ گئے لہٰذا اب ضرور ی ہوگیا ہے کہ علم کی روشنی کو زیاد ہ سے زیادہ پھیلایاجائے،ادب اورادب سے وابستہ لوگوں کو بھی ا س ضمن میں قوم کے احساس محرومی، احسا س عدم تحفظ کے خاتمہ کیلئے کردار اداکرناہوگا۔


صاحبو! ایک ایسے ماحول میں جبکہ ہرشہری خوف ویاس کی کیفیت کاشکار ہے ،ایسے میں اگر کوئی خاص فرد، تنظیم یا بہت سے لوگ اگر ”اجتماعیت“ کے فروغ کیلئے کوشش کرتے ہیں تو یقینا وہ لوگ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ایسے ادیب ،شعرا ، دانشوران، ماہرین علم وادب کیلئے موجودہ صورتحال امتحان سے کم نہیں ہے ، سانحہ پشاور کے بعد بچوں کے بڑھتے جذبات ، علمی شعبہ سے وابستہ لوگوں کے احساس ذمہ دار ی نے کم ازکم یہ تو بتادیا ہے کہ یہ قوم اگر کچھ کرنے پر آجائے تو یہ دہشت اوردہشتگردی کے اندھیرے بھاگ جائیں گے
پروفیسر ڈاکٹراشرف کمال جب یہ گفتگو کررہے تھے تو ان کے مطمئن چہرے پر امید کی روشنی واضح طورپر نظرآرہی تھی ،ڈاکٹرصاحب گورنمنٹ کالج بھکر کے انتہائی ہردلعزیز صاحب علم، شاعر ،دانشور ہیں قوم کی مشکلات پر کڑھتے رہتے ہیں شاید اسی لئے ہربار ملاقات ہونے پر وہ قوم کے دکھ کی ہی بات کرتے ہیں۔

بتارہے تھے کہ گورنمنٹ کالج بھکر کی تنظیم بزم فکروفن ہرسال مایوس چہروں پر خوشیاں لانے ،قوم کے باصلاحیت بچوں کو صلاحیتوں کے اظہار کیلئے ہرسال بین الکلیاتی مقابلہ جات کا انعقاد کرتی ہے جس میں صوبہ بھر کے معروف کالجز کے طلبہ حصہ لیتے ہیں جن میں مقابلہ قرآت ،حمدونعت ،تقاریر ،مباحثے وغیرہ ہوتے ہیں جبکہ آخری روز ملک کے حسین و باصلاحیت شعرا پر مشتمل محفل مشاعرہ منعقد ہوتی ہے یہ سلسلہ کئی سالوں سے مسلسل اورتواتر کے ساتھ جاری ہے گورنمنٹ کالج کی عمارت کو فخر حاصل ہے کہ یہاں سے علم حاصل کرکے جانیوالے آج ملک کے کونے کونے میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پراپنااور ملک کانام روشن کررہے ہیں وہاں یہ اعزاز بھی یاد رکھے جانے کے قابل ہے کہ انہی ہم نصابی سرگرمیوں کی بدولت کالج مذکورکو صوبہ بھر میں انفرادیت حاصل ہے۔

یقین کریں کہ جب ان سرگرمیوں کے دوران ایک ”عام شہری“ کی حیثیت سے شریک ہونے کا موقع ملا ،قوم کے ”مستقبل“ کے چہروں پر کھیلتی پُریقین مسکراہٹ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ قوم اب مزید اندھیروں میں نہیں رہے گی اس کا آنیوالا کل انشااللہ روشن ہوگا۔ ایک بار پھر اسی مقام ،اسی تنظیم کی طرف سے گورنمنٹ کالج بھکر میں علم وادب سے وابستہ لوگوں کا اجتماع ہوگا ، پُریقین لوگوں کا ایسا اکٹھ ، جس پر یقینا فخر کیاجاسکتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :