ثقافتی طائفے،جسم فروشی اورعورتوں کی سمگلنگ

جمعرات 19 فروری 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

مسلم لیگ (ن)کے رکن صوبائی اسمبلی شیخ علاؤالدین گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں تقریباََ پھٹ ہی پڑے۔ انہوں نے اپنے درد دل کااظہار کرتے ہوئے انکشاف کہ لاہور ائیر پورٹ سے مڈل ایسٹ جانے والی ہر فلائٹ سے مجبور نوجوان لڑکیوں کو عیاشی کیلئے ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے اسمبلی کو بتایا کہ ابھی چار روز قبل کچھ ایسی نوجوان لڑکیوں کی گرفتاری عمل میںآ ئی ہے جنہو ں نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں دوبئی اسمگل کیا جا رہا تھا ،انہوں نے کہا کہ لاہور ائیر پورٹ پر کسی قسم کوئی مانیٹرنگ نہیں ہور ہی ، ایف آئی اے اہلکار اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے اور مافیاکھلے عام کام کر رہے ہیں۔


شیخ علاؤالدین لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے اس اہم مسئلے کی جانب صوبائی اسمبلی میں آواز اٹھائی اور پاکستانی خواتین کی بیرن ملک اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ صوبائی اسمبلی اس ”عبث“قانون سازی کی جانب قطعاََ توجہ نہیں دے گی ۔

(جاری ہے)

مجھے تو یہاں تک یقین ہے کہ رکن صوبائی اسمبلی کی تقریر کو مزے لے لے کر سنا گیاہوگا اور وقفے کے دوران دیگر ممبران اسمبلی اس پر قہقہہ زن بھی ہوئے ہونگے ۔

درحقیقت یہ ہر تھرڈ ورلڈ کنٹری کا مسئلہ ہے کہ ان ممالک میں مسائل کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے ٹھوس حل کیلئے خاطر خواہ اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ جہاں تک پاکستان سے خواتین کی بیرون ملک سمگلنگ کا مسئلہ ہے اس بابت کون نہیں جانتا کہ طائفوں کے نام پر ہم جو کچھ دوبئی اور دیگر ممالک میں بھیج رہے ہیں اس سے ہم پاکستان کی کونسی ثقافت کو متعارف کروانا چاہتے ہیں ؟۔

کیا پاکستان کی ثقافت فائیو سٹارہوٹلوں میں سجے تھیٹرز پر برہنہ مجرے کرنا ہے ؟۔کیا پاکستان کی ثقافت دوبئی کے گرینڈ حیات اور مرچی جیسے ہوٹلوں میں مقیم غیر ملکی سیاحوں کو پاکستانی لڑکیاں فراہم کرنا ہے ؟۔دراصل یہ جناب ذولفقار علی بھٹو کا آئیڈیا تھا کہ پاکستانی ثقافت کے فروغ کیلئے ثقافتی طائفوں کا تبادلہ کیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ”ثقافت“ کو فروغ دینے کیلئے بیرونی دنیا سے ثقافتی طائفوں کے تبادلے کا آغاز پاکستان میں خواتین کے ساتھ جبری مشقت کا نقطہ آغاز ثابت ہوااور ان ثقافتی طائفوں کی آڑ میں خواتین کی اسمگلنگ کی ابتدا ہوئی۔

ان برائے نام ثقافتی طائفوں کی منزل عموماً یہی خلیجی ممالک ہوتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ بیرون ملک نرسنگ، گھریلو کام کاج اور بچوں کی نرسریز میں ملازمت کا جھانسہ دے کر خواتین کو سمگل کرنے کا سلسلہ بھی اسی دور میں زیادہ تیز ہوا جو آج بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ دوسری جانب اگر اندرون ملک خواتین کی سمگلنگ کا جائزہ لیا جائے تو حالات کو کسی طور اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ٍقحبہ خانوں میں کام کرنے والی خواتین کے حوالے سے انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ (آئی ایچ آر ایم)کی مرتب کردہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان میں قحبہ خانوں کا کاروبار تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ اب سے پانچ برس قبل صرف لاہور شہر میں قحبہ خانوں کی تعداد محض دو سو کے لگ بھگ تھی تاہم اب یہ تعداد دوگنا سے زیادہ ہوچکی ہے اور تقریباً ساڑھے چار سو کے قریب قحبہ خانوں میں یہ گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔

لاہورشہر میں اس پیشے سے وابستہ خواتین کی کل تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے اور ہر مہینے اس تعداد میں سو سے دو سو کے قریب خواتین کا اضافہ ہورہا ہے جبکہ پورے ملک میں قحبہ خانوں کی کل تعداد پندرہ لاکھ سے زائد ہے۔ سب سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان لاکھوں خواتین میں محض دوفیصد ایسی ہوتی ہیں جو اپنی رضامندی سے اس پیشے میں قدم رکھتی ہیں، 44فیصدخواتین غربت جبکہ32فیصد دھوکے اور فریب سے اس کاروبار کا حصہ بنائی جاتی ہیں۔

18فیصد کو جبر وتشدد کے ذریعے اس پیشے میں قدم رکھنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اس پیشے سے وابستہ محض چار فیصد خواتین وہ ہیں جو اسی ماحول میںآ نکھیں کھولتی ہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ لاکھوں کی تعداد میں بدکاری پر مجبور ان خواتین میں تمام کی تمام پاکستانی نہیں ہیں بلکہ بنگلہ دیش،برما،افغانستان اور روسی ریاستوں سے آنے والی خواتین کی بڑی تعداد بھی اس کاروبار میں شریک ہے۔

گزشتہ دس برسوں سے بنگلہ دیش سے پانچ لاکھ،افغانستان سے ایک لاکھ کے لگ بھگ اوربرما سے بیس ہزار خواتین پاکستان سمگل ہوکر آئیں اوراس پیشے میں شامل ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ روسی ریاستوں اوردیگر سینٹرل ایشیائی ممالک سے آنے والی خواتین کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ روسی ریاستوں سے اسمگل شدہ خواتین کی پاکستان آمد کا سلسلہ اس وقت تیز ہوا جب نائن الیون کے بعد خطے میں امریکی اور نیٹو افواج اوردیگر غیر ملکی ایجنٹس کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا۔

اسی طرح قدرتی آفات جہاں لاکھوں افرادپر قیامت بن کرٹوٹتی ہیں،وہیں یہ آفات ایسے مکروہ دھندوں میں ملوث افراد کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔ قدرتی آفات کا شکار ہونے والوں میں بہت سے ایسے خاندان بھی ہوتے ہیں جو ایسے عناصر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے مرتب کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار گیارہ کے دوران2089خواتین کو اغوا کیا گیا۔

ان میں سے اکثریت کو آخرکار لاپتہ قرار دیدیا گیاتھا۔صوبہ پنجاب سے سب سے زیادہ یعنی1846 خواتین اغوا ہوئیں، خواتین کی تجارت کا سبب بننے والا دوسرا بڑا صوبہ سندھ رہا جہاں152 خواتین اغوا ہوئیں۔ خیبر پختونخواہ میں47،بلوچستان میں 17 جبکہ اسلام آباد کے علاقے سے27خواتین اغوا ہوئیں۔ ان میں سے کتنی خواتین بعدازاں مردہ حالت میں پائی گئیں اور کتنی سمگلنگ کا شکار ہوگئیں، اس بارے میں پاکستان کاکوئی سرکاری اور غیر سرکاری ادار ہ کسی قسم کی حتمی رپورٹ مرتب نہیں کر سکا۔

اس قبیح اور گھناؤنے کاروبار کی روک تھام کیلئے اگر پنجاب اسمبلی میں آوازی اٹھائی گئی ہے تو اس آواز کو نظر انداز کرنے کی بجائے عملی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں ۔ایف آئی اے کی معاونت سے لاہور ائیر پورٹ سمیت دیگر ہوائی اڈوں پر کڑی نگاہ رکھنی چاہئے تاکہ خواتین کی سمگلنگ کی روک تھام ممکن ہو سکے ۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے خصوصی استدعا ہے کہ طائفوں کے نام پر چلنے والے اس مکرو کاروبار کوفوری طورپربند کر دیاجائے اور طائفوں پر پابندی عائد کر دی جائے ۔ بیرون ممالک پہنچ کر یہ طائفے کسی بھی طور پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کرتے بلکہ بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :