سانحہ بلدیہ ٹاؤن اور ہماری بے بسی

اتوار 15 فروری 2015

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

سانحہ پشاور کے بعد حکومت نے دہشتگردی اور انتہاء پسندی کی روک تھام کیلئے قانون سازی تو کی جو کہ اپنی نوعیت کا ایک اہم فیصلہ تھا۔ مگر اس معاملے میں حکومت کے متعصبانہ فیصلوں نے ا س اہم ترین قانون سازی کی افادیت پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے۔اکیسویں ترمیم کے تحت مذہب او ر مسلکی بنیادوں پر ہونے والی دہشتگردی یا شدت پسندی کے مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہوگی تاکہ سزا و جزا کے عمل کو یقینی طور پہ شفاف بنایا جا سکے۔


مگر یہ بات فہم سے بالا تر ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو سیاسی بنیادوں پر دہشتگردی یا انتہاء پسندی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں انکو اس قانون سے اثتثنی حاصل ہو گا۔اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہونے والی دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت عام عدالتوں میں ہوگی یا زیادہ سے زیادہ ایسے واقعات کی سماعت انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

یعنی ہیں دونوں ہی انتہاء پسند مگرمذہبی انتہاء پسندوں کیلئے سزا کے تعین کا پیمانہ الگ جبکہ سیاسی انتہاء پسندوں کیلئے قوانین الگ۔
اسی اکیسویں ترمیم میں کی جانے والی ترامیم کے بعد حکومت نے مذہبی بنیادوں پر انتہاء پسندی کے فروغ کیلئے سر گرمِ عمل سزایافتہ شدت پسندوں کو سزائیں تو دیں مگرجو کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم قدم ہے۔

مگر دوسری جانب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پہ آنے کے بعد جس میں ایک سیاسی جماعت کے رکن نے صرف بھتہ نہ ملنے پر 257 انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنا دیا کے خلاف قانون سازی کون کرے گا؟ کیا حکومت کا کام صرف مذہبی انتہاء پسندی کو روکنا ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں کے پالتو دہشتگردوں کے خلاف کوئی کار وائی نہیں ہو گی؟
سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں جن ما ؤں کی گودیں اجڑ گئیں انکو انصاف کون فراہم کون کرے گا؟ جن سہاگنوں کے سہاگ لٹ گئے ان کی داد رسی کون کرے گا ؟ جو بچے یتیم کر دئے گئے انکی کفالت کون کرے گا ؟ جن بوڑہوں کے بڑہاپے کے سہارے چھین لئے گئے ان سہارا کون دے گا ؟ جن بہنوں سے انکے بھائی چھن گئے انکے سر پہ دستِ شفقت کون رکھے گا ؟ جن سیاسی درندوں نے چند روپوں کے عوض انسانی جانیں ضائع کر دیں انکے خلاف قانو ن سازی کون کرے گا؟
یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج ہر پاکستانی کے دل و دماغ میں رقص کر رہے ہیں مگر متعلقہ حکام ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔

اور یہی وجہ تھی کہ حکومت کی جانب سے اکیسویں ترمیم میں متنازعہ قانون سازی کے خلاف کئی سیاسی، مذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا اور دانشور طبقے نے حکومتی فیصلے پر اصلاح کی غرض سے اس پرتنقید بھی کی ۔ اسی جانبدارنقطے پر سول سوسائٹی نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا اور حکومت سے درخواست کی کہ دہشتگردوں کو دہشتگرد ہی رہنے دیں اور انمیں مذہب یا سیاست کی بناء پر تفریق پیدا نہ کریں ۔

مگر حکومت نے کسی کو ملحوظ خاطر نہ رکھا ۔ اورآج یہ دن دیکھنے کو ملا کہ سانحہ پشاور سے بھی بڑے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے مجرم ہمارے سامنے کھڑے اپنے جرم کا اقرار کر رہے ہیں مگر ہم انکو بشمول انکی جماعتوں کے دہشتگردکہنے سے اور انکے مقدمات کو آرمی کورٹس میں پیش کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ہمارا قانوں صرف مزہب یا مسلک کی بنیاد پر ہونے والی دہشتگردی کی روک تھام کو یقینی بناتا ہے نہ کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی انتہاء پسندی کو۔


اور اگر یہ معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو ہم مذہبی انتہاء پسندی پر تو شاید قابو پالیں گے مگر سیاسی انتہاء پسندی کی تلوار پھر بھی ہمارے سروں پر لٹکتی رہے گی۔ اور ہم اسی طرح دست و گریباں ہوتے رہیں گے۔ لہذا اس ساری صورتِ حٓل کے پیشِ نظر حکومتِ وقت سے کو چاہئے کہ مہر بانی فرما کر اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کرے اور دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں جانبدار قانون سازی کی بجائے بلا تمیز برابری کی بنیاد پر قانون سازی کرے ۔ کیونکہ دہشتگرد دہشتگرد ہی ہوتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے ہو یا کسی سیاسی جماعت سے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :