روحانی ہریالی

اتوار 15 فروری 2015

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

آج کے دور کا ذہین انسان ایک روپے کے بدلے پانچ روپے کمانا چاہتا ہے۔ اس کی سوچ بہت مشینی بنتی جا رہی ہے۔ زندگی صرف پیسے کی انویسٹ منٹ نہیں۔ زندگی کیلکولیٹر پر جمع تفریق کرنے والے ہندسے نہیں۔زندگی کچھ جذبوں سے بھی عبارت ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف انسان چاند اور مریخ پر پہنچ چکا ہے تو دوسری طرف آنکھ کے بند ہوتے ہی ڈراؤنے اور خوفناک خواب اس کا مقدر بن چکے ہیں۔

کبھی وہ دیکھتا ہے کہ اس کا پیسہ چلا گیا ہے۔ کبھی اس کا کاروبارہ تباہ ہو گیا ہے۔ کبھی دیکھتا ہے کہ گاڑی ٹھک گئی ہے۔ دکان کو آگ لگ گئی ہے۔ کسی شخص نے پیسے ضبط کر لئے ہیں۔ بنک والے پولیس لے کر دروازے پر کھڑے ہیں۔ عدالت طلبی کا نوٹس آ گیا ہے۔ واپڈا والے میٹر اتار کر لے گئے ہیں۔ ڈاکو سب کچھ لوٹ کر فرار ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)

کرایہ دار، کرایہ بڑھانے کا تقاضا کر رہا ہے بیٹا امتحا ن میں فیل ہو گیا ہے۔

بیٹی کو سسرال والے تنگ کر رہے ہیں۔ مہلک بیماری نے گھیر لیا ہے۔ اس قسم کے خواب خیالوں نے ایک رحمت اور لطف اندوز چیز یعی نیند کو ایک زحمت میں بدل دیا ہے۔ اور وہ رات کو کئی دفعہ ہڑ بڑا کر اٹھتا ہے اور اس کا خوف تیز دھڑکتے دل ماتھے پر پسینے سوکھی زبان پر چند نہ سمجھ آنے والے الفاظ اس کی بے چینی بے کسی بے بسی اور بے قراری کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں۔

جو شخص رات کو پرسکون اور بے پرواہ ہو کر سو نہیں سکتا ، اس کی بے سکونی کا نتیجہ اس کا لوگوں سے بدتمیزی کا رویہ ملازموں پر تشدد چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑا کرنا اور پھر لڑنے مارنے پر آ جانا، تنقیدی رویہ، مزاج کا اکھڑ پن، طبیعت کا چڑ چڑا پن اور کام میں دل نہ لگنے کی صورت میں ہوتا ہے۔اچھی سوچ ایک انویسٹ منٹ ہے جو کہ ہمارے جسم اور روح پر اثر انداز ہوتی ہے۔

اچھی سوچ میٹھے پانی کا ایک چشمہ ہے جو کہ زندگی کی علامت ہے۔ اچھی سوچ گلاب اور انگور کا بیج ہے جس کے پنپنے پر گلاب اور انگور
ہی ملتے ہیں اور منفی سوچ گویا بیج ہے خاردار جھاڑیوں کا جو ہمیشہ تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم میں سے کئی لوگوں کا دماغ ہر وقت منفی سوچوں کیDust Bin بنا رہتا ہے۔کاش فلاں شخص کی دولت چھن جائے۔ کاش وہ کاروبار میں ناکام ہو جائے۔

کاش فلاں رشتہ دار کی بے عزتی ہو۔ وہ دوست آجکل مجھے لفٹ نہیں کرواتا، کاش وہ پولیس کیس میں پھنس جائے۔ کاش وہ نشہ پر لگ جائے۔ کاش اس کا فلاں سے رشتہ ٹوٹ جائے۔ کاش وہ ذلیل و خوار ہو ۔ ہم اسلام کے اس سنہری اصول کے مخالف چل رہے ہیں،جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے ر زق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اُسے چاہیے کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔

اگر ہم اس اصول کو اپنا لیں تو یقین کریں کہ ہمارے Growth مہینوں اور دنوں میں ہوگی کیونکہ بغض اور حسد انسان کو اندر سے کھاتا رہتا ہے اور انسان خود ہی اپنی آگ میں جلتا رہتا ہے۔بے شک حسد اور بغض ایک سماجی مذہبی اخلاقی اور معاشرتی بیماری ہے۔مسکراہٹ ایک اعلٰی انویسٹ منٹ ہے جو ہم خود پر اور دوسروں پر کر سکتے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکرانا صدقہ ہے۔

اس انوسیٹ منٹ کاOut put کیا ہوگا۔ہمار اImage خوب سے خوب تر ہوتا جائے گا۔ ہر وقت ہمارا دل باغ باغ رہے گا۔ ہم انواع و اقسام کی آفتوں ، مصیبتوں ، بلاؤں اور بیماریوں کا مقابلہ ڈٹ کر بے جگری سے کریں گے۔ مسکراہٹ ایک ایسی نعمت ہے جس سے ہمارے چہرے کے 720 پوائنٹ بیک وقت حرکت کرتے ہیں۔ مسکراہٹ کے علاوہ اور کوئی Exercise ہمارے چہرے کے720پوائنٹ کو حرکت نہیں دے سکتی۔

مسکراہٹ ہمیں ہمیشہ جازب نظر، جوان، تروتاہ، سرسبر شادات، ہر دلعزیز امید سے لبریز اور زندگی سے بھر پو ررکھتی ہے۔ اپنے غصے پر قابو ایک بہترین Investment ہے جوکہ ہم اپنے آپ پر اور اس معاشرے پر کر سکتے ہیں۔ یہ ایسی آگ ہے جس نے جیلیں بھر دیں اور نہ جانے کتنے ہنستے بستے گھروں کو جہنم کا نمونہ بنا دیا۔ اس ناسور کی وجہ سے ہمارے رشتے ناظے دوستیاں، پیار ومحبت، افراتفری قتل و غارت ، دشمنی عداوت اور نتقام میں تبدیل ہو کر زندگی کو اجیرن بنا یا جا رہا ہے۔

اپنی انا کو ختم کرنا ایک بڑی Investment ہے۔ انسان یہ گمان کرتا ہے کہ مجھے اللہ نے انوکھا ہی تخلیق کیا ہے۔ مجھ جیسا خوبصورت ،طاقتور توانا ،سخی، سیانا، ذہین ، فتین، دو اندیز دولت مند اور ڈیرے دار تو کسی ماں نے جناں ہی نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس آسماں نے ہلاکو خان، چنگیز خان اور سکندر و تمیور ہٹلر جیسے ظالم ، جار اور درندہ صفت انسان بھی دیکھے ہیں کہ خود کی ندیاں بہادیں اور انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنوا دئیے تو دوسری طرف یہی زمیں نے خالد بند ولید امام غزالی ایڈیسن ، مدر ٹریسہ، نیلشن میڈیلا، عبدالستار ایدھی، علامہ اقبال، اور قائدِ اعظم جیسے لیڈروں کے وجود کی تا قیامت گوہ رہے گی۔

جب اچھے اور برے ، نوری اور ناری، آبی، فضائی، خلائی، ہوائی رینگنے والے ، اڑنے والے، دوڑنے والے، دو پائے چار پائے والے سب مخلوق نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا ہے اور موت کی آغوش میں ایک دن چلے جانا ہے تو پھر تکبر اور غرور کس بات کا۔ حالانکہ پیدائشی لحاظ سے ایک گندہ قطرہ او ر مٹی جو کیڑوں کا مقدر ہے اس کے سوا کیا ہے۔ انسان کی حقیقت، انسان کو تکبر غرور اور انا زیب نہیں دیتی کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔

تکبر میری چار ہے اور جو مجھ سے میری چادر لینے کی کوشش کرتا ہے میں اس کو سزا دیتا ہے۔ اس انا کی نفی کرتے ہوئے بلھے شاہ نے فرمایا تھا۔
پھلاں دا تو عطر بنا
عطراں دا فر کڈھ دریا
دریا وچ فر رج کے نہا
مچھلیاں وانگوں تاریاں لا
فِر وی تیری بو نہیں مکنی
پہلے اپنی ’میں‘ مکا
دوسروں کو وقت دینا ایک بڑی Investment ہے۔ آج کے اس نام نہاد ترقی کے دور میں انسان انسان سے دور دور اور موبائل فون کے زیادہ قریب ہو گیا ہے۔

ہم لوگ اپنے ماں باپ کی نسبت ٹی وی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اپنے بھائی کا دُکھ درد بانٹنے کی بجائے انٹرنیٹ پر دوستیاں تلاش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ بیوی سے زیادہ دفتر سے پیار کرتے ہیں اور یہ رویہ نہ جانے کتنے ہی مسائل کا سبب ہے۔ اس کی بجائے اگر ہم دوستوں او ررشتہ داروں کے ساتھ وقت گزاریں۔ گھر واپس آنے کے بعد اپنا موبائل فون بند کر کے رکھ دیں تو یقین کریں کوئی قیامت نہیں آئے گی۔

ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا دو گھنٹے موبائل فون سے دور ہونا دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیل دے گا۔ دنیا کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ سٹاک مارکیٹ کریش ہو جائے گی۔ بنک قرضے دینے بند کر دیں گے۔ ملک کے ادارے تباہی کی طرف چلنے لگیں گے۔ عوام سڑکوں پر نکل کر جلاؤ گھراؤ شروع کر دے گی ا ور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو جائے گی حالاں کہہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔

اسلام کہتا ہے۔اپنے مسلمان بھائی کو وقت دینا بھی صدقہ ہے۔ اگر ہم دوسروں کے دُکھ درد بانٹیں گے تو اللہ ہمارا دکھ درد بانٹ لے گا۔ اگر انسان اپنی سوچ سے چمچ ٹیڑھی کر سکتا ہے اپنے ارادے سے مونٹ ایورسٹ فتح کر سکتا ہے۔ اپنی ہمت اور مردانگی سے سات سال کینسر جیسے مہک مرض سے لڑ سکتا ہے۔ اگر انسان اپنے عزمِ مصمم سے 27 سال جیل کاٹنے کے بعد ملک کا صدر بن سکتا ہے اگر انسان 62 دن تک بغیر خوراک کے زندہ رہ سکتا ہے۔ اگر انسان کارگل جیسی موت کی وادی میں Survive کر سکتا ہے اور 90 سال کی عمر میں 75 کلومیٹر روزانہ دوڑ سکتا ہے اگر انسان تاج محل اور دیوارِ چین بنا سکتا ہے کمپیوٹر ،روبوٹ، خلائی شٹل بنا سکتا ہے تو پھر دلوں کو سبزہ زار کیوں نہیں نہیں سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :