مِیرا کی شاعری اور میرا مشورہ

اتوار 15 فروری 2015

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

لالی وڈ فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والی بہت سی اداکارائیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے اداکاری سے جی بھر جانے کے بعد گلو کاری میں بھی طبع آزمائی کی یا پھر اپنے ہی فیلڈ میں کمال حاصل ہو جانے کے بعد ہدایت کاری شروع کر دی ۔ اسی طرح فلمی دنیا کے بیشتر ستارے اپنے اندر پوشیدہ جوہر کو عوام کے سامنے لاتے رہے۔ حالیہ خبروں کے مطابق فلم سٹار مِیرا نے بھی بر ملا اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب شاعری بھی کریں گی۔

اس خبر نے چند دن میڈیا پر گردش کی اور مِیرا کا” عزم ِجواں “ ناظرین کی نذر کیا ۔ جن لوگوں کو مِیرا کی فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مِیرا میں اداکاری کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے یا رقص کا ، یا پھر دونوں ۔
میرے مشاہدے کے مطابق چند سال قبل سے لیکر اب تک مِیرا کے سامنے اس کی سب سے بڑی پرابلم اُس کی شادی کا نہ ہونا ہے ۔

(جاری ہے)

بیچاری نے اپنے داؤ پیچ کے ساتھ چند ایک اصحابِ زر اپنے گرویدہ کیے لیکن بات شادی پر منتج نہ ہی ہو سکی با لآخر مِیرا نے اپنی بے بسی صحافیوں کے سامنے اُگل ہی دی ۔اور اسے یہ کہنا پڑا کہ ”جس سے بھی میری شادی کی بات ہوتی ہے وہ شادی سے قبل ہی بھا گ جا تا ہے اب آپ ہی کچھ کریں “ ۔ہمارے صحافی برادران میں سے کسی کنوارے کو چاہیئے تھا کہ مِیرا کے لیے ”کچھ کر “ ہی دیتا ۔


اس میں کو ئی شک نہیں کہ نو عمری میں شہرت حاصل کرنے والی عصرِ حاضر کی اداکاراؤں میں مِیرا بھی ایک ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ مِیرا کی شہرت سے مرعوب ہو کر اس سے شادی کرنے کا خواب دیکھ لیتے ہوں اور پھر اچانک کسی دِن سوشل میڈیا پر چلنے والا مِیرا کا ”کلِپ “بھی دیکھ لیتے ہوں اور شادی کروانے سے توبہ کر لیتے ہوں ۔ اور مِیرا یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہوں ۔


کوئی امید بَر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
شادی کے لیے مِیرا نے جن لوگوں کو پرو پوز کیااُن میں ایک عمران خان بھی ہیں ۔ لیکن شومیٴ قسمت کہ کپتان نے مِیرا جی کو کوئی لفٹ نہ کرائی ، کلین بولڈ کرنا تو درکنار ، کوئی گُگلی یا یارکر تک بھی نہ مارا اور مِیرا جی خون کے آنسو روتی رہ گئیں ۔ پھر مِیرا جی نے کیپٹن نوید کو اپنی زلف کا اسیر تو کر لیا لیکن اس کے باپ نے بیٹے کو آڑے ہاتھوں لیا اور وہ بھی مِیرا کے ساتھ ایک ”سِین“فلمانے کے بعد پسِ پردہ چلے گئے اور مِیرا جی کے شادی کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔

اداکاری کے ساتھ ساتھ مِیرا کو انگریزی بولنے کا بھی ”دورہ“ پڑتارہتا ہے ۔ظاہری بات ہے جب دوسری اداکارائیں انگریزی میں بات کرتی ہیں تو مِیرا جی کیوں نہ کریں ۔ یہ اُن کی انگریزی ہی کے مر ہونِ منت ہے کہ ”خبر ناک “ جیسے شو میں آفتاب اقبال صاحب نے مِیرا کا ایک کردار ہمیشہ کے لیے پروگرام کا حصہ کر دیا ہے ۔ مِیرا کے نزدیک انگریزی بولنا ، بس انگریزی بولنا ہی ہو تا ہے ، Cup کو کپ کہہ دیا جائے یا سَپ کہہ دیا جائے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔

ویسے مِیرا کی انگریزی سن کر بڑے بڑے انگریز بھی ہکے بکے رہ جاتے ہیں ۔ امریکہ کے دورہ پر مِیرا صاحبہ نے ایک حکومتی عہدے دار کو اِس انداز سے سوال کیا ۔” Would you help us in street crimes? “ اور مخاطب بیچارہ چونک کر رہ گیا کہ اب کیا جواب دیا جائے ۔ البتہ اُس نے مِیرا کی بے بسی کو بھانپتے ہوئے ، اُس کا اصل مافی الضمیر سمجھ کر جواب دیا ۔
فرض کریں مِیرا شاعری میں ہاتھ پاؤں مرنا شروع کر ہی دیتی ہیں تو سب سے پہلے تو ہر ملنے ملانے والے کو ایک دن قبل فون کر کے بتا ئیں گی اور ممکن ہے کہ پریس کانفرنس بھی کر دیں کہ ”کل ہم شاعری کریں گے “۔

تمام دن شاعری کرنے کے لیے کاغذ قلم لے کر بیٹھی رہیں گی اور شام تک بمشکل کوئی ٹوٹا پھوٹا شعر ان سے بن پائے تو بن ہی پائے ۔ کیونکہ مِیرا صاحبہ کو ابھی یہ معلوم نہیں کہ شاعری کسی اہتمام سے نہیں ہوتی بلکہ کسی الہام ، وجدان یا آمد کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اُٹھتے ، بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے ، کسی بھی وقت اس کا نزول ممکن ہے ۔ بہر حال بفرض محال مِیرانے شاعری شروع کر ہی لی تو اس کی نظموں کے مو ضو عات کچھ یوں ہوں گے : ”ہوٹل میں “،”جب امی نے الیکشن ہارا “ ،” شبِ وصل۔

۔ پر شادی کہاں “، ” میری شادی کرواؤ “، ”دھوکے باز مرد “، بلینک چیک “،”وہ تکیے پہ خوش آمد یدلکھنا“، ”اب بس “ وغیرہ وغیرہ ۔
شاعری میں قافیہ پیمائی ، معاملہ بندی اور صنعتوں کا استعمال کچھ اس انداز سے نظر آ سکتا ہے کہ جس سے بڑے بڑے شعراء کے دل جلیں اور دنیا سے پردہ کر جانے والے شعراء کی روحوں کو تکلیف پہنچے ۔

اور اگر مِیرا کی کتاب مارکیٹ میں آجاتی ہے تو ان کی شاعری پڑھ کر کئی لوگ پاگل ہو سکتے ہیں یا پھر کم ازکم نفسیاتی مریض تو ضرور ہوں گے ۔ مجھے وہ وقت آج با ربار یا د آرہا ہے جب میں FM-88پر پروگرام کیا کرتا تھا اور میرے قریب ہی میرے بہت محترم چاچا یوسف بھی بیٹھ کرمجھے سنا کرتے تھے ۔ میز پر شاعری کی کافی کتابیں موجو د ہوا کرتی تھیں جن میں سے ایک کتاب شاعرہ (نام لکھنا مقصود نہیں ) کی تھی ۔

ایک دن چاچا یوسف نے وہ کتاب اٹھا ئی اور خاموشی سے پڑھتے رہے ۔ پرو گرام ختم ہونے پر مائیک بند ہوا تو چاچا نے کتاب زور سے میز پر پٹخ دی اور کہا ” اِک آنے دے کم دی شاعری نئیں ایس کڑی دی“ ۔
مِیرا صاحبہ کو میرا مشورہ یہی ہے کہ اگر کسی نے ان کی اداکاری یا انگریزی سے متاثر ہو کر اب تک ان سے شادی نہیں کی تو اُن کی شاعری کسی کو شادی پر اکسانے کا موجب کبھی بھی نہیں ہو سکتی ۔

انہیں چاہیئے کہ وہ اپنے اندر وہ جو ہر اور صلا حیت پیدا کریں کہ پروانہ خود بخود شمع پر آن مِٹے :
رُخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر دیکھیں ہے جاتا یا اِدھر پروانہ آتا ہے
ورنہ مثل مشہور ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا ۔ اور اگر آپ نے بطور شاعرہ اپنا لوہا منوانے کی ٹھان ہی لی ہے تو مشاعروں میں اُس وقت جایا کیجیئے گا جب منڈی میں انڈے اور ٹماٹر کا فی مہنگے ہو چکے ہوں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :