سانحہ بلدیہ ٹاؤن:دستانوں کے بغیر دست قاتل

جمعہ 13 فروری 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

11ستمبر2012کو علی انٹرپرائیزز بلدیہ ٹاؤن ،کراچی میں آتش زدگی کا ہولناک واقعہ پیش آیا۔برآمدی غرض سے بنائے جانے والے قیمتی گارمنٹس والی اس فیکٹری میں آگ سرعت سے ہر سو پھیل گئی۔تنخواہوں کی چلت ہورہی تھی ،کل پندرہ سو مزدوروں میں سے فیکٹری کے اندر اور باہر تقریباََ چارسو مزدورموجودتھے۔آگ لگنے سے ورکرز میں بھگڈرمچ گئی مگر دروازے باہر سے تالا لگا کر بند کئے گئے تھے۔

آگ بجھانے کا فیکٹری کے اندر نہ تو کوئی موثر نظام تھا اور نہ ہی آگ کی اطلاع پاکر فائیر برگیڈ کی گاڑیاں فوراََ پہنچیں،فیکٹری مالکان کے مطابق انہیں آنے میں 75سے 90منٹ کی تاخیر ہوئی۔تب تک عمارت کے اندر پھنس جانے والے تمام مزدورراکھ کا ڈھیر بن چکے تھے،فائیر برگیڈ کی گاڑیوں نے 289مزدوروں کی جلی ہوئی ہڈیوں ،راکھ اور انکے خاندانوں کے مستقبل اور امیدوں پر پانی بہاکر اپنا ”فرض “ پورا کردیا ۔

(جاری ہے)

شرمناک حد تک بے حسی کی شہرت رکھنے والی صوبائی اور قومی حکومتیں اور سٹیک ہولڈرز ”حرکت “میں آگئے۔واقعہ پر غم اور صدمے کا اظہار کیا گیا۔ہلاک ہونے والے مزدوروں کے بچھے کچھے لواحقین،جن کا سب کچھ تباہ وبرباد ہوگیاتھاانہیں مالی امداد کا جھانسہ دیکر انکے پیاروں کے لہو کو ارزاں کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی۔ بیانات پہ بیانات داغے گئے۔

متحدہ قومی موومنٹ نے تو تین دن کے سوگ کا اعلان کرد یااوراپنے دفاتر پر سیاہ پرچم لہرانے کا حکم جاری کردیا۔متحدہ کے قائد الطاف حسین نے لندن سے اپنے بیان میں سندھ حکومت کو بلدیہ ٹاؤن اور اسی روز بندروڈ لاہور کی پلاسٹک فیکٹری میں آتش زدگی کے ان خونی حادثات کی فوری تحقیقات کرانے اور ذمہ داران کو بلا تاخیر سزا دینے کا مطالبہ کردیا ۔ ایم کیوایم گورنر سندھ نے فوری طورپر علی انٹرپرائیزز کے مالکان عبدالعزیز اور شاہد بھیلا پر سارا ملبہ ڈال کرانکے خلاف مقدمہ درج کرنے اور انکانام ایگزٹ کنڑول لسٹ میں ڈالنے کا عندیہ دے دیا۔

دو چار دن بیانات کی تندی جاری رہی ،اسی دوران سندہ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس بھی لے لیا۔ ایک تحقیقاتی ٹربیونل ریٹائیرڈ جسسٹس زاہد قربان علوی کی سربراہی میں قائم کیا گیا جس میں انکے ساتھ خلیل الرحمان شیخ تھے ۔اس ٹربیونل نے تین ماہ ”خوب محنت“کی اور اپنی رپورٹ میں وہی سارے” انگشافات“ کردئے جو کبھی بھی مخفی نہیں تھے۔مثلاََ فیکٹری 1934ء کے ایکٹ میں موجود قوائدوضوابط کے خلاف بنی تھی،عمارت فیکٹری ایکٹ میں بیان کردہ اصولوں کے خلاف تعمیر کی گئی تھی،بلڈنگ میں آتشزدگی کی صورت میں نکلنے کے راستے موجود نہیں تھے،ناقص حفاظتی اقدامات اورآگ بجھانے کا سامان اور پانی نہیں تھا،سول ڈیفنس کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور” مردہ “محکمہ لیبر کو بھی کوسا گیا،آخر میں اس ٹربیونل نے سارا ملبہ شارٹ سرکٹ پر ڈال کر اس خوفناک آتشزدگی کے معاملے کو محض ایک حادثہ قراردے دیا۔

یوں289قیمتی جانوں کی ہلاکت اور انکے بلکتے ہوئے خاندانوں کو” قدرت کی ستم ظریفی “کے روبرو بے آسرا چھوڑ دیاگیا۔اسی دوران متاثرہ خاندانوں کو لاش کی شناخت ،ڈی این اے اور ”امداد“ کے نام پر خوب ذلیل ورسوا کیاگیا۔ابھی تک کچھ خاندان اپنے پیاروں کی معیتیں ڈھونڈتے پھررہے ہیں۔دو سال پانچ ماہ کے بعد اچانک سندھ ہائی کورٹ میں رینجرز اور مشترکہ تحقیقاتی ادارے کی طرف سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا خونی واقعہ بھتہ نہ دینے کی وجہ سے پیش آیا۔

علی انٹرپرائیزز کے مالکان سے متحدہ قومی موومنٹ کے ایک مشہوراور اعلی عہدے دار کی طرف سے بیس کروڑ روپے بھتہ مانگنے کے حکم کی تعمیل نہ ہونے کی وجہ سے فیکٹری کو مزدوروں سمیت نذر آتش کردیا گیا۔علی انٹرپرائیزز کے مالکان ایم کیو ایم کے زبردست حامی تھے اور اپنے کاربار کو قائم رکھنے کے عوض پارٹی کو باقاعدگی سے بھتہ دیا کرتے تھے۔اس نئے تقاضے کی شکائت انہوں نے اپنے سیکٹر انچارج کو کی ،جس نے نائن زیرو میں اس کیس کی وکالت کی اور اپنے کلائنٹ کے بھتہ بڑھائے پر احتجاج کیا۔

مگر توتکار نہ صرف رائیگاں گی بلکہ ”اعلی ذمہ داران“ حکم عدولی پر مشتعل ہوگئے۔ بعدازاں بیس کروڑ بھتے کا مطالبہ” کراچی تنظیمی کمیٹی“ اور پارٹی کا متفقہ مطالبہ بن گیا اور اسکو ”حفاظتی فنڈ“ قراردیدیاگیا۔انکار پرسانحہ بلدیہ ٹاؤن برپا کردیا گیا۔ستم یہ کہ اسی دوران بھتہ کی طلبی اور انکار پر علی انٹرپرائیزز کی آتش زدگی کی خبریں بھی زیر گردش کرتی رہیں اور مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے تو باقاعدہ اس الزام کو عائد کیا مگر ان الزامات پر اس وقت توجہ دینے کی بجائے علی انٹرپرائیزز کے مالکان کو گرفتار کرادیا گیا۔

مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان کی رہائی پھر 15کروڑ روپے کے بھتہ کی ادائیگی پر عمل میں آئی۔یاد رہے کہ انہی دنوں اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے دورہ کراچی میں چیمبر آف کامرس میں خطاب کرتے ہوئے علی انٹرپرائیزز کے مالکان کے خلاف درج قتل کے مقدمات ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا تاکہ کاروباری لوگوں کا ”اعتماد“ بحال ہوسکے!!! سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ جی آئی ٹی رپورٹ اگر سچ ہے تو جسٹس زاہد قربان علوی کی رپورٹ کن بنیادوں پر مرتب کی گئی تھی؟ اگر بھتہ مانگنے والوں نے آگ لگاکر 289مزدوروں کو جلا کر بھسم کردیا اور فیکٹری مالکان کو مقدمہ درج کراکے جیل میں بھجوادیا،انکے بنک اکاؤنٹس منجمد کرادئے،انکا نام ای سی ایل میں درج کرادیا تو پھر پندرہ کروڑروپے بھتہ لیکر ان پر عائد فردجرم کے خاتمے سے بری کرانے تک پوری ریاست کے ڈھانچے ملوث ہیں ،متذکرہ بالا تمام اقدامات ایک دو یا چند افراد تو نہیں کرسکتے!!قانون نافذ کرنے والے،انصاف فراہم کرنے والے ادارے،جزا اور سزا کا تعین کرنے اور معافی تلافی کرنے والے تمام لوگو ں کا باہمی ربط ثابت کرتا ہے کہ حمام میں سب ننگے ہیں۔

دوسال پانچ ماہ تک جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹ منظر عام پر کیوں نہیں لائی گئی۔سانحہ پشاور سے کئی گنا بڑے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی سفاکیت پر ریاست کے اہم اور ذمہ دار اداروں نے وہ تیزی طراری اس وقت کیوں نہیں دکھائی جب انکو تو پتا چل گیا تھا کہ علی انٹر پرائزز میں 289مزدوروں کو زندہ جلانے کا واقعہ حادثہ نہیں‘ ایک منظم حملہ تھا، جس میں مالکان کے بھتہ نہ دینے کی سزا پانچ سے دس ہزارروپے ماہانہ اجرت لینے والے ان مزدوروں اور انکے خاندانوں کو دی گئی،جن کا اس دنیا میں کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

پشاور سانحہ تب تک اس ملک کا سب سے سنگین ترین اور دل سوز واقعہ تھا جب تک پاکستانی ریاست کی تمام طاقتور اور باخبرایجنسیوں کے اشتراک عمل سے مرتب شدہ رپورٹ منظرعام پر نہیں آئی تھی جس میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے واقعات،اسباب اور جرم کی نوعیت کی وضاحت کی گئی ہے۔مگر مزدوروں کے خلاف اتنی بڑی جارحیت کرنے والے فاشسٹوں کے خلاف دوسال اور پانچ ماہ تک چپ سادھے کیوں رکھی گئی؟اور اب اسکو منظر عام پر لانے کے کیا مقاصد ہیں؟ یقینا مزدوروں کے قاتلوں کو سزادینا مقصود نہیں ہے بلکہ اس خونی واقعے کے موجودہ رخ کو تاخیرسے ‘ ”زنبیل “ سے نکال کر منظرعام پر لانے کے‘ حکمران طبقے کے اپنے سیاسی یا حکمت عملی کے مقاصد ہوں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ قبل ازیں اس منظم قتل عام کو ایک حادثہ قرار کیوں دیا گیا اوراس موقف کی تصدیق کے لئے ”جوڈیشل رپورٹ“ کیوں گھڑی گئی۔داعش نے عراق اور شام میں اور طالبان نے افغانستان اور پاکستان میں ابھی تک صرف ایک ایک زندہ انسان کو جلایا ہے اور اس پر پوری دنیا میں کہرام مچ گیا ہے۔مگر پاکستان میں بھتہ کی غرض سے مبینہ طور پر ایک سیاسی پارٹی سے متعلقہ ذمہ دار افرادکی جانب سے 289محنت کش خواتین ،بچوں اور بڑوں کو زندہ جلادیا گیا تو کو ئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔

کوئی آل پارٹی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہ اپنے دفتروں میں ہی روزانہ وار کاموں میں مصروف رہے ۔صرف اس لئے کہ مرنے والے مزدورتھے؟بے بس اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے غریب،جن کے جینے اور مرنے کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ ایک طبقاتی سماج میں حکمران طبقے کا محنت کشوں کے لئے رویہ، سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر حکمرانوں کے ردعمل سے صاف عیاں ہوجاتا ہے۔

سماج میں بسنے والے پچانوے فی صدسے زیادہ محنت کش اپنے ہی دیس میں کتنی بے چارگی ،بے بسی اور بیگانگی کا شکار ہیں۔کبھی انکے بچے تھرمیں بھوک اور بیماریوں سے مرتے ہیں ،کبھی کسی کو حق مانگنے کی پاداش میں زندگی سے محروم کردیا جاتا ہے ۔کبھی بھوک سے بلکتے بچوں کی ماؤں کے پاس خو دکو مارلینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنے جسم وجان سے زیادہ عزیز بچوں کی اذیت نہیں دیکھ سکتیں۔

بوری بند لاشیں ہوں کہ سیاسی کارکنوں کی نہ رکنے والی اموات اور مسخ شدہ لاشیں ،ان تمام کا تعلق محروم طبقات اور محنت کشوں سے نکلتا ہے ۔ظالم قوموں کے حکمرانوں کی طرح ،مظلوم قوموں کے حکمران طبقے تک کوبھی بہت ہی کم کسی آزمائیش سے گزرنا پڑتا ہے ۔ساری اذیتیں،عقوبت خانے ،جیلیں اور مصیبتیں غریبوں کے حصے آتی ہیں۔ پھرحادثات کی نوعیت جتنی بھی مختلف ہو،مرنے والوں کی اکثریت غریبوں اور محنت کشوں کی ہوتی ہے۔

سیلابوں،زلزلوں،روڈ ایکسیڈنٹ،وباؤں،بیماریوں اوردھشت گردی ‘ہر جگہ مرنے والے مزدور اور محنت کش ہوتے ہیں۔اس کی وجہ بہت سادہ اور سیدھی ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے یا برابر رہنے والی آبادی ہر قسم کے تحفظ،ضرورتیات ،سہولیات ،اور معقول انفراسٹرکچر سے محروم ہے۔صاف پینے کے پانی سے لیکرناگزیر خوراک سے محروم جسموں تک‘ بیماریوں کی رسائی سہل اور ادویات کی فراہمی ناممکن بنادی جائے تو موت کا رخ سیدھا ہوجاتا ہے۔

ایسے سماج میں غریب کی زندگی ، پیدائش سے بڑھاپے تک کا سفرجوانی کے بغیر ہی مکمل کرکے ختم ہوجاتی ہے۔ دھشت گردی کے واقعات میں جس جسم کوخرید کر اس کے ساتھ بم باندھا جاتا ہے وہ بھی غریب ہوتا ہے اور اس خودکش بمبارکے ذریعے جن جسموں کوگوشت کے لوتھڑوں میں تبدیل کردیاجاتا ہے ان کی اکثریت بھی غریبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ عجب بات تو یہ ہے کہ بیس کروڑ روپے کابھتہ علی انٹرپرائیزز کے مالکان عبدالعزیز اور شاہد بھیلا وغیرہ نے نہیں دیا تھا مگر فاشسٹوں نے زندہ جلادیا 289محنت کشوں کو!!! مزدوروں اور محنت کشوں کا نہ رکنے والا قتل عام اور ہلاکتوں کے اس سلسلے کو روکنے میں حکمران طبقے کی کوئی دلچسپی ہے نہ ضرورت۔

یہ نظام اشرافیہ کے مفادات اور زندگیوں کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے،انہی کے اثاثوں،دولت اور منافعوں کو بڑھانے اور بچانے کے لئے محنت کش طبقے کی زندگی یا موت کی ضرورت کو استعمال کرتا
ہے۔محنت کش طبقے کواپنا جہاں تخلیق کرنے کے لئے سرمایہ داری نظام اور سامراجیت کی زنجیروں کوتوڑنے کے لئے اپنے طبقے کا وسیع تراتحادبناکرجدوجہد کرنا ہوگی ورنہ کبھی سانحہ کالونی ٹیکسٹائل ملز میں سینکڑوں مزدوروں کا اجتماعی قتل عام ہوگا توکبھی سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے ذریعے سینکڑوں کو زندہ جلا کر راکھ میں بدلا جاتا رہیگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :