جموں و کشمیر میں موقع پرستی کا سیاسی موسم!

بدھ 11 فروری 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

گو کہ عام آدمی کا اِس بات سے دل ٹوٹتا ہے لیکن تبدیلیوں،شفافیت،اصولوں اور نہ جانے کیا کیا چیزوں کی باتیں کرنے والے سیاسی رہنمامیدانِ سیاست کے اِس (بے)اصول کومقدس مانتے ہیں کہ سیاست میں کوئی ابدی دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔جموں و کشمیر کی موجودہ سیاست ابھی اِسی (بے)اصول کو محور بناکر گھوم رہی ہے۔ جہاں ایک طرف بی جے پی کو روکنے کے نعرے کے ساتھ ووٹ حاصل کر چکی پی ڈی پی اِسی بی جے پی کو ریاست کے اِقتدار پر بٹھانے کے بہانے تلاش کر رہی ہے وہیں عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کانگریس کے اُنہی غلام نبی آزاد کی ناک بچانے کا بھیڑہ اُٹھا چکی ہے کہ جنہیں خودمسٹرعبداللہ ابھی دو ایک ماہ قبل ہی ”موقعہ پرست“ثابت کر نے میں اپنی ساری توانائی لگا رہے تھے۔

نیشنل کانفرنس کے دوش پر سوار ،کبھی کِنگ میکر کہلائے جاتے رہے،غلام نبی آزاد راجیہ سبھا کا الیکشن جیت کر قائدِ حزبِ اختلاف کی اپنی کرسی کو بنائے رکھنے کے جتن کر رہے ہیں لیکن اب کے اُنکا راستہ خاصا دشوار ہے۔

(جاری ہے)


جموں وکشمیر میں کانگریس کے غلام نبی آزاد،سیف الدین سوزاور نیشنل کانفرنس کے غلام نبی وانی رتن پوری ومحمد شفیع اوڑی کے پاس رہیں راجیہ سبھا کی چار نشستیں خالی ہو چکی ہیں جن کے لئے 07/فروری کو الیکشن ہونا ہے۔

حالانکہ چار نشستوں کا الیکشن شائد اُتنی بڑی بات نہ ہوتی لیکن لوک سبھا انتخابات کے بعد سے کشمیر سے کنیاکماری تک جو حیران کن سیاسی منظر نامہ بنتے دیکھا جا رہا ہے اُس میں یقیناََ اِن چار نشستوں کا انتخاب معمول سے زیادہ ہی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔چناچہ الیکشن محض چار نشستوں کا ہے لیکنتقریباََ سبھی پارٹیاں اِسے ناک کا مسئلہ بناکے چل رہی ہیں اور اِس لئے جوڑ توڑ کے علاوہ موقعہ پرستی کی سیاست عروج پر ہے۔


اسمبلی کے حالیہ انتخابات،جو تاہم ریاست کو ابھی تک نئی سرکار نہیں دلا پائے ہیں،میں بُری طرح کی شکست سے دوچار ہوئی سابق حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے تو ایک طرح سے ہاتھ کھڑا کر دئے ہیں جبکہ کسی آپسی مقابلہ آرائی کو روکنے کے لئے پی ڈی پی اور بی جے پی نے اشتراک کرتے ہوئے دو دو نشستوں پر لڑنے کا فیصلہ لیا ہے۔البتہ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ابھی چند ماہ قبل چھ سال پُرانا یارانہ توڑنے کے بعد ایکدوسرے پر سنگین نوعیت کے الزامات لگانے والی نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے تین سیٹوں پر مشترکہ اُمیدوار کھڑا کئے ہیں جبکہ چوتھی نشست کو نیشنل کانفرنس نے غلام نبی آزاد کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے۔


راجیہ سبھا کی اِن چار نشستوں کے لئے ایک ایسے وقت پر الیکشن ہو رہا ہے کہ جب جموں و کشمیر میں حکومت سازی کو لیکر قریب ڈیڑھ ماہ سے تعطل جاری ہے اور نو منتخبہ ممرانِ اسمبلی کی حلف برداری تک ممکن نہیں ہو پارہی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے میں راجیہ سبھا کی خالی ہوئی چار نشستوں کا الیکشن ریاست میں ایک اور دلچسپ صورتحال کو جنم دے چکا ہے۔ ا،نتہائی مشکل دور سے گذر رہی کانگریس غلام نبی آزاد جیسے ماہرِ سیاسیات کو راجیہ سبھا میں بر قرار رکھنے کے لئے جی توڑ کو ششیں کر رہی ہے۔

راجی سبھا میں آزاد کے نائب آنند شرما نے پچھلے دنوں دلی میں اعتراف کیا کہ اب کے جموں و کشمیر میں راجیہ سبھا کا الیکشن خاصا دشوار ہے تاہم نیشنل کانفرنس اور چند آزاد اُمیدواروں کے بھروسے اُنہوں نے آزاد کی نیّاکے پار لگنے کا یقین جتایا ۔دراصل کانگریس محض غلام نبی آزاد کی رُکنیت کے لئے پریشان نہیں ہے بلکہ پارٹی کو راجیہ سبھا میں مجموعی طور اپنے ارکان کی تعداد کی فکر لاحق ہے جو کم ہوئے تو پارٹی کی رہی سہی حیثیت بُری طرح متاثر ہو جائے گی۔

کانگریس کو مہاراشٹرا سے راجیہ سبھا کے رُکن موری دیورا کی فوتگی کی شکل میں حال ہی ایک نشست کھونا پڑی ہے جس پر واپس قبضہ پانا پارٹی کے لئے نا ممکنات میں سے ہے۔ایسے میں پارٹی ایک ایک سیٹ کو بچانے کے لئے فکر مند ہے جیسا کہ آنند شرما صاف صاف کہتے بھی ہیں”ہم راجی سبھا میں اپنی گنتی گھٹتے نہیں دیکھ سکتے ہیں جبکہ ہم غلام نبی آزاد کو پارلیمنٹ میں دیکھنا ہی دیکھنا چاہتے ہیں“۔


لوک سبھا یا اسمبلی کے انتخابات کے برعکس راجیہ سبھا کے لئے عوام نہیں بلکہ ممبرانِ اسمبلی ووٹ دینے کے اہل ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ ا،س خاص انتخابی عمل کی مہم اور ا،سکے دیگر معاملات بھی مختلف رہتے ہیں جو عوامی کی اکثریت کی سمجھ میں بھی نہیں آتے ہیں۔جیسا کہ ایک بزرگ سیاسی کارکن کا ،اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر، کہنا ہے کہ راجیہ سبھا کے انتخابات در اصل ایک الگ طرح کی سودابازی ہے۔

وہ کہتے ہیں”دہائیوں مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ راجیہ سبھا کے انتخابات ایک لے دے کے معاملے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے،میں نے کئی بار بولی لگتے دیکھی ہے“۔پھر الیکشن کمیشن نے چار نشستوں کے زیرِ تبصرہ الیکشن کے لئے تین الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کر کے اِس عمل کو تین الگ الگ الیکشن بنا دیا ہے۔یعنی ووٹروں کو الگ الگ تین بار،ایک بار دو اُمیدواروں کے لئے اور دو بار ایک ایک اُمیدوار کے لئے، ووٹ دینا ہوگا۔


جموں و کشمیر کی 87/رُکنی اسمبلی میں حالیہ انتخابات نے جو بساط بچھائی ہے اُسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی پارٹی اِس حالت میں نہیں ہے کہ اپنے بل پر راجیہ سبھا کی ایک بھی نشست حاصل کر پائے۔غور طلب ہے کہ پی ڈی پی جموں و کشمیر اسمبلی میں 28/نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے بطور اُبھری ہے جبکہ بی جے پی پہلی بار مُسلم اکثریت والی اِس ریاست میں 25/ممبران کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی ہے۔

سابق حکمران جماعت نیشنل کانفرنس اپنی تاریخ کی بد ترین شکست سے دوچار ہونے کے بعد 15/سیٹوں پر سمٹی ہوئی ہے جبکہ کانگریس کے پاس12/اور دیگراں کے پاس 07/نشستیں ہیں۔
چناچہ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ پہلی نوٹیفکیشن کے تحت نیشنل کانفرنس کی جانب سے سابق وزیر(مملکت)سجاد کچلو،جو حالیہ انتخابات میں کِشتواڑ کی نشست بی جے پی کے حق میں ہار چکے ہیں،جبکہ پی ڈی پی کی جانب سے حال ہی پارٹی میں آئے شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع کے فیاض احمد میر میدان میں ہیں۔

فیاض احمد میر ایک تاجر ہیں اور اُنہوں نے پہلی بار پی ڈی پی کی ٹکٹ پر کپوارہ سے اسمبلی کے لئے قسمت آزمائی کی تھی تاہم بھاری ووٹ لینے کے باوجود وہ بی جے پی کے اتحادی سجاد غنی لون کے نمائندہ کے حق میں محض کچھ ووٹوں سے ہار گئے تھے۔مفتی محمد سعید کی جانب سے میر کی نامزدگی پر کئی حلقے حیران ہیں اور اِسے مفتی کی مختلف سیاست کا ایک اور ثبوت بتاتے ہیں۔

دلچسپ ہے کہ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے فیاض میر کی نامزدگی پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ڈی پی نے ان پڑھ اُمیدواروں کو راجیہ سبھا میں بھیجنے کی تیاری کی ہے جو اِس اہم ایوان میں ریاست کی نمائندگی نہیں کر سکتے ہیں۔پی ڈی پی نے عمر کو مہذب انداز میں بڑا تیکھا جواب دیا تھا جسکے بعد نیشنل کانفرنس نے عمر پر تہمت لگائے جانے کا الزام لگایا تھا تاہم عمر کا بیان سامنے لانے والے ایک خبر رساں ادارے نے ثبوت موجود رکھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ”تہمت“کو حقیقت ثابت کردیا۔

چناچہ نیشنل کانفرنس کے سجاد کچلو کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ ہی نیشنل کانفرنس نے اِس سمت میں کوئی کوشش کی جبکہ فیاض میر کی کامیابی طے ہے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے پاس میر کی کامیابی کے لئے درکار ممبران سے زیادہ موجود ہیں۔دوسرے انتخاب میں نیشنل کانفرنس کے ناصر اسلم وانی،جو امیرا کدل حلقے سے پی ڈی پی کے حق میں اسمبلی کا الیکشن ہار گئے ہیں،میدان میں ہیں جن کا مقابلہ بی جے پی -پی ڈی پی اتحاد کے شمشیر سنگھ منہاس کے ساتھ ہے۔

یہ مقابلہ بھی یکطرفہ ہے کہ اُنہیں44/ووٹ درکار ہیں جو اتحاد کے پاس موجود ہیں۔
معاملے کو پُر پیچ اور دلچسپ الیکشن کا تیسرا مرحلہ بناتا ہے کہ جس میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے مشترکہ اُمیدوار غلام نبی آزاد بی جے پی کے چندر موہن شرما اور پی ڈی پی کے نذیر احمد لاوے کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے۔راجی سبھا انتخابات کا یہ مرحلہ دونوں،پی ڈی پی-بی جے پی اتحاد اور کانگریس-نیشنل کانفرنس اتحاد کے لئے ناک کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو اپنے مشترکہ27/ووٹوں کے علاوہ غلام نبی آزاد کی کامیابی کے لئے مزید پانچ ووٹ درکار ہیں جنکے حصول کے لئے جتن جاری ہیں۔کمیونسٹ پارٹی کے واحد ممبرِ اسمبلی یوسف تاریگامی نے واضح کیا ہے کہ وہ پی ڈی پی-بی جے پی اتحادکے خلاف یعنینیشنل کانفرنس- کانگریس اتحادکے حق میں ووٹ دے رہے ہیں۔البتہ اِس اتحاد کو گذشتہ دنوں تب زبردست دھچکہ پہنچا ہے کہ جب لداخ صوبہ کے زنسکار علاقہ کیآزاد اُمیدوار سید باقر رضوی نے پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی۔

یاد رہے کہ رضوی کے خلاف نیشنل کانفرنس نے اپنا اُمیدوار کھڑا نہیں کیا تھا اور وہ مذکورہ کو اپنے ساتھ گنتی چلی آرہی تھی تاہم اُنہوں نے گذشتہ دنوں پی ڈی پی کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کر کے پارٹی کو جھٹکہ دیا۔اُنکے علاوہ شمالی کشمیر کے حلقہ انتخاب لنگیٹ کے آزاد ممبرِ اسمبلی انجینئر رشید ،وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں حلقہ انتخاب خانصاحب کے حکیم یٰسین اور جموں کے اُدھمپور علاقہ کے آزاد ممبر اسمبلی پون گُپتا ہیں کہ جنکی اہمیت بڑھ گئی ہے اور جو زیرِ تبصرہ انتخابات کے تیسرے مرحلے میں فیصلہ کُن کردار نبھائیں گے۔

غلام نبی آزاد نے اِن تینوں کے ساتھ ملاقاتیں کر کے اِن کا ووٹ مانگا ہے تاہم ابھی تک واضح نہیں ہے کہ وہ کس کے نام پر مہر لگانے والے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکیم یٰسین اور انجینئر رشید سے ملاقاتوں کے دوران آزاد نے کہا ہے کہ راجیہ سبھا کے مسلمان قائد کے بطور وہ مسلمانوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتے ہیں لہٰذا اُنہیں ووٹ دینا ایک طرح سے مسلمانوں کے مفادات کی آبیاری کے جیسا ہوگا ۔

یعنی جیسا دھیس ویسا بھیس بناکر آزاد صاحب نے مسلمان کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے حالانکہ نئی دلی میں کانگریس کے یہاں حالیہ ناکامیوں کے حوالے سے جاری من تھن میں کانگریس اِس بات پر سوچ و بچار کرتی بتائی جا رہی ہے کہ کہیں اِسے مُسلمان حامی شبیہ نے نقصان تو نہیں پہنچایا ہے اور یہ کہ اِسے بی جے پی کی طرح ہندوتوا کی سیڑھی لگا کر ترقی کے آسمان چڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔


حکیم ییسین کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ غلام نبی آزاد کو ووٹ دیں گے حالانکہ ذراؤ کا کہنا ہے کہ خود آزاد کو اِس بارے میں پورا یقین نہیں ہے اور وہ اِس امکان کو رد نہیں کرتے ہیں کہ با الآخر حکیم یٰسن کابینہ میں شمولیت یا اِس طرح کی کسی للچانے والی پیشکش کے سامنے ماتھا ٹیک کر بی جے پی کے ساتھ اپنا سودا طے کریں۔تاہم انجینئر رشید نے ابہام کی صورتحال جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کوئی بھی فیصہ نہیں لے پارہے ہیں۔

غلام نبی آزاد کے ساتھ ملاقات کرنے کے ایک روز بعد بدھ کو جاری کردہ اپنے بیان میں انجینئر رشید نے ریاست میں بی جے پی کی موجودگی کے دوران راجیہ سبھا کے انتخابات کو انتہائی اہم اور پُر پیچ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انکے لئے صورتحال”نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن“کے مصداق ہو گئی ہے اور وہ خود کو ایک مشکل موڈ پر کھڑا پاتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ نہیں لے پا رہے ہیں۔

اُانہوں نے کہا ہے ”میں واقعیََ یہ فیصلہ نہیں لے پا رہا ہوں کہ راجیہ سبھا کے لئے میرا ووٹ کسے ملنا چاہیئے کہ جہاں بی جے پی کے مظالم پہ نظر جاتی ہیں وہاں کانگریس کی لمبی تاریخ پر نظر دوڑانے پر ایک بھی وجہ نہیں دکھائی دیتی ہے کہ جسکے لئے اس پارٹی کوہمدردانہ نظروں سے دیکھا جا سکے“۔اُنہوں نے کہا ہے کہ انکے پاس ووٹ کا بائیکاٹ کرنے کا راستہ موجود تو ہے لیکن بائیکاٹ کی صورت میں بی جے پی اتحاد کی جیت یقینی ہو جائے گی اور یہ خود بہ خود بی جے پی کو ووٹ دینے کے برابر ہو گا تاہم افضل گورو کی پھانسی سمیت کانگریس کے سبھی مظالم کو دیکھتے ہوئے اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا بھی ضمیر کی آواز کے خلاف ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے”غلام نبی آزاد صاحب کے ساتھ میری طویل میٹنگ ہوئی جس میں انہوں نے میرے ووٹ کی درخواست کی لیکن میں نے انہیں واقعہ بہ واقعہ وضاحتاََ کہہ دیا ہے کہ انکی جماعت کانگریس نے اہلِ کشمیر کو کون کون سے کانٹے چبو دئے ہیں اورکس طرح کانگریس مسلمانوں کی توقعات پر کھرا نہیں اتر پائی ہے“۔تاہم عالمی سہارا کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ انجینئر رشید با الآخر آزاد کے حق میں ہی ووٹ کرینگے۔


غلام نبی آزاد ،جنکا سیاسی کیرئر داوٴ پر لگا ہے،کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں بی جے پی اپنی کامیابیوں کے سفر کو بلا روک جاری رکھ پاتی ہے یا نہیں یا پھر پی ڈی پی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا یہ سب الگ لیکن جموں و کشمیر میں ابھی سیاسی پارٹیوں کی موقعہ پرستی کا ایسا مظاہرہ ہو رہا ہے کہ جسکی شائد کہیں نظیر نہیں ملتی ہے۔نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے مابین فقط دو ایک ماہ قبل ہوتی رہی لفاظی جنگ سے متعلق اخباروں میں چھپی خبروں کی سیاہی ابھی تازہ ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک بار پھر ایکدوسرے کے گلے ملنے لگی ہیں۔

وہی عمر عبداللہ جو اسمبلی کے انتخابات کے دوران آزاد کو موقعہ پرست اور نہ جانے کیا کیا پکارتے ہوئے اپنی ساری توانائی صرف کر رہے تھے آج اُنہی آزاد کو اپنے دوش پر اُٹھائے راجیہ سبھا میں بٹھانا چاہتے ہیں۔پی ڈی پی بھی وادیٴ کشمیر جیسے حساس علاقے میں بی جے پی کا ڈر پیدا کرکے پولنگ مراکز کے سامنے قطاریں لگوانے کے بعد اُسی بی جے پی کے ساتھ اِتحاد کر کے اِسی جماعت کو مظبوط کرنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ افضل گورو کے بچاوٴ کو اپنی سیاست کا محور بناکر چلتے آرہے انجینئر رشید اُسی کانگریس کے صفِ اول کے لیڈر غلام نبی آزاد کو جِتانے کے لئے بہانے تلاش کر رہے ہیں کہ جس نے گورو کے گلے میں پھندہ ہی نہیں ڈالا تھا بلکہ اُنکی نعش کے دیدار تک سے اُنکے لواحقین کو محروم رکھا تھا۔

حالانکہ موقعہ پرستی کو جواز بخشنے کے لئے سیاستدانوں کے پاس تُرکی بہ تُرکی جواب دستیاب رہتے ہیں ۔جیسا کہ غلام نبی آزاد نیشنل کانفرنس کے ساتھ تازہ یارانے سے متعلق کہتے ہیں”نظریہ اور اصولوں کے حوالے سے تو نیشنل کانفرنس اور کانگریس ایک ہیں اور دونوں ہی جماعتیں آزادی سے پہلے سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتی آئی ہیں“۔وہ کہتے ہیں کہ تب جموں و کشمیر میں کانگریس کا وجود بھی نہ تھا کہ جب نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبدلہ ریاست میں وہی سب کرتے رہے ہیں کہ جو مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو ،آزادی سے پہلے،ملک کے لئے کرتے رہے ہیں۔

اسمبلی انتخابات کے دوران دونوں جماعتوں کے مابین خود آزاد کی ذات کو لیکر ہوئی لفاظی جنگ سے متعلق سوالات کو ٹالتے ہوئے آزاد نے مزید کہا ہے”کبھی کبھی اختلافات بھی ہو سکتے ہیں لیکن جب بھی ملکی یا ریاستی سطح پر کوئی مشکل پیش آئی ہے آپ نے دونوں پارٹیوں کو ساتھ دیکھا ہوگا“۔
سیاست دانوں کی قسمت اچھی ہے کہ عوام کی یاداشت شائد کمزور ہوتی ہے یا پھر سب کچھ یاد رکھنے کے با وجود بھی وہ سوال پوچھنے کا جوکھم نہیں اُٹھاتے ہیں…سیاست دان یارانے جوڑتے اور توڑتے جاتے ہیں اور عیش کرتے ہیں سو وہ کرتے رہیں گے!(بشکریہ عالمی سہارا،دِلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :