عوامی حکومت کے ثمرات!

اتوار 1 فروری 2015

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

سانحہ پشاور کے بعد موجودہ حکومت نے عملی طور پر دہشتگردی کی لعنت سے نمٹنے کے عزم کااعادہ تو کیا مگر حکومتی اقدامات سے لگتا ہے کہ حکومتی فیصلے حکومت کے ان دعوؤں کے کا ساتھ دیتے نظر نہیں آتے۔انسداددہشتگردی کیلئے حکومت نے کچھ اہم فیصلے تو کئے مگر ان اہم فیصلوں سے دہشتگردوں کو نقصان ہو یا نہ ہو لیکن یہ فیصلے کم از کم عوامی مسائل میں اظافے کا باعث ضرور بن رہے ہیں ۔

مثلاََ حکومت نے وقت کی نذاقت کے پیشِ نظر انسدادِ دہشتگردی کی غرض سے چند متنازعہ کتب پر پابندی کا اعلان کیا ۔ تاکہ متنازعہ لیٹریچر کے ذریعے پھیلنے والی شدت پسندی پر قابو پایا جا سکے ۔مگر انتہا پسندی پر مبنی مواد پر پابندی کی آڑ میں اصلاحی کتب پر پاندی عائد کرنا سرا سر زیادتی اورقابلِ مذمت فعل ہے۔

(جاری ہے)

مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس حکومتی حکم کی آڑ میں چند اسی کتب پر بھی پاندی لگائی جا رہی ہے جو کہ خالصتاََ اصلاح کی غرض سے لکھی گئیں۔

مثال کے طور پر ایک کتاب بنام مسائل توحید و بدعت پر بھی پابندی لگائی گئی ۔یہ کتاب کسی قسم کے انتشار پسند مواد پر مبنی نہیں بلکہ خالصتاََ توحید کے موضوع پر لکھی گئی۔ دوسرے نمبر پر ایک کتاب بنام آپ کے مسائل اور انکا حل بھی اس فہرست میں شامل ہے اور یہ کتاب خالصتاََ روز مر زہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل پر لکھی گئی۔تیسرے نمبر پرکتاب اختلاف ِامت اور صراطِ مستقیم پر بھی پاندی عائد کر دی گئی جبکہ یہ کتاب خاص طور پر امت میں موجود اختلافات کے حل اور وحدتِ امت کی غرض سے لکھی گئی۔

چوتھے نمبر پر با ادب با نصیب نامی کتاب پر بھی پابندی عائد کردی گئی جو کہ تربیتِ اولاد کیلئے نصیحت پر مبنی حکایات پر مرتب کی گئی۔بانچویں نمبر پر ادیان ِ باطلہ اور صراطِ مستقیم نامی کتاب بھی پاندی کا شکار ہے جو کہ خالصتاََ وحدتِ امت کی غرض سے اور امت میں موجود بگاڑ کو دور کرنے کی غرض سے لکھی گئی ۔یہ وہ چند کتب ہیں جن پر حکومت نے دہشتگردی کے خاتمے کی غرض سے پابندی لگائی ہے اور متعلقہ تاجران کو باقاعدہ طورپر حکم دیا جا چکا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر تمام تر اشتعال انگیز مواد بشمول مذکورہ بالا کتب متعلقہ حکام کو جمع کرادیں تاکہ وہ اس قسم کے مواد کو نذِ آتش کیا جا سکے۔


اب یہاں بنیادہ طور پر سوال پیدا پوتا ہے کہ اس بات کا تعین کون اور کیسے کرے گا کہ کونسی کتاب انتشار پھیلا رہی ہے اور کونسی اعتدال پسند مواد پر مبنی ہے؟حکومت نے کونسا ایسا ادارہ یا اتھاڑتی قائم کی ہے جو کہ اس قابل ہے کہ ایک ایسی جامع حمتِ عملی وضع کر کے جس کی بنیاد پر اچھی اور بری کتب میں تمیزکی جا سکے؟کونسا ایسا پمانہ تیار کیا گیا ہے جس پر اعدال پسند اور شر انگیزی پر مبنی کتب کو پر کھا جائے گا ؟
دوسری جانب جن تاجروں نے پیسے لگا کر ان کتب کو تیار کیا ، کیا حکومت انکو تھوڑا بہت معاوضہ بھی دیگی یا انہیں اس بات پر ہی اکتفاء کرنا ہو گا کہ یہ ایک عوامی حکومت کا عوام کے وسیع تر مفاد میں عوامی فیصلہ ہے؟ یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جو نشر و اشاعت کے شعبے سے منسلک ہر فرد کی آواز بن کر ابھر رہے ہیں۔

اور یہ کاروباری طبقہ حکومت کی ایسی بے فائدہ پالیسیوں پر نہ ڈرف سراپئہ احتجاج ہے بلکہ دیوانہ وار یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا اسے کہتے ہیں جمہوری حکومت جو عوامی مسائل کو کم کرنے بجائے عوامی مسائل میں دن بدن اضافے کا باعث بن رہی ہو؟۔یہ کیسی عوامی حکومت ہے جو تاجروں کے معاشی قتلِ عام کی مرتکب ہو رہی ہے؟ کیا اسے کہتے ہیں عوام پسند پالیسیاجو عوام کا ہی گلہ دبا دیں؟ کیا اسے کہتے ہیں جمہوری حکومت جس کے اندازِ حکمرانی کو دیکھ کر آمریت بھی شرا ما جائے؟۔

کیا ایسے اقدامات سے دہشتگردی# سے چھٹکارہ حاصل ہو گا ؟یہ وہ سوال ہیں جنہوں نے موجودہ حکمرانوں کے بہترین حاکم ہونے کے دعوؤں پر کئی سوالیہ نشان لگا دےئے ہیں۔ اور اگر ہمارے حکمرانوں کا یہی طریق رہا تو پھر صورتِ حال آپ کے سانمنے ہے۔اور کل کو اگر کوئی بھی حکومت مخالف تحریک چلتی ہے تو اسکی ذمہ حکومتی پالیسیاں ہوں گی نہ کہ کوئی دوسری طاقت۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :