ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

اتوار 1 فروری 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

امریکی صدر کا دورہ بھارت ان دنوں ہاٹ ایشو بنا ہوا ہے۔ اس دورے میں سب سے اہم پیشرفت بھارت کے لیے سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے معاملات پہ پیش رفت ہونا تھا۔ یہ موضوع اپنی جگہ اہم ہے کہ اس معاملے پہ پیش رفت ہونا بھارت کی کامیابی شمار کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ دورہ ء اس قدر کامیاب تصور نہیں کیا جا سکتا جتنا واویلا وطن عزیز میں کیا جا رہا ہے۔

یہ واویلا کرنے والے شاید باہمی اشتراک کے کئی منصوبوں پر عمل پیرا ہیں اسی لیے وہ باراک اوبامہ کے دورہء بھارت کو تیز نشتر کی طرح پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ حقائق اس سے قدرے مختلف ہیں۔
اوبامہ کے دورہء بھارت کے بجائے نومبر 2014کا آرمی چیف کا دورہء امریکہ شاید زیادہ اہمیت کا حامل رہا۔

(جاری ہے)

اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل راحیل شریف امریکہ کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہے کہ پاکستان کی حیثیت اگر اتحادی کی ہے تو اسے اتحادی کا درجہ دینا بھی امریکہ کا کام ہے۔

اور یہ شاید پہلا موقع تھا کہ مسلح افواج کے سربراہ کو امریکہ میں اس درجہ پروٹوکول دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ امریکہ ہماری مسلح افواج کے سربراہ کو خصوصی پسندیدگی کی سند دیتا ہے۔ بلکہ اس کی وجہ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہے۔ افغانستان سے انخلا کے بعد کم و بیش 9800 غیر ملکی فوجی ہی افغانستان میں رہ جائیں گے ایسی صورت میں امریکہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان سے تعلقات خراب کرے۔

شاید اسی لیے جنرل راحیل شریف کے دورہء امریکہ کو خصوصی اہمیت دی گئی۔
امریکی صدر کے دورہء بھارت کو بھارتی میڈیا نے اس انداز میں پیش کیا کہ جیسے یہ پاکستان کے خلاف کوئی محاذ ہے۔ یا پاکستان کی ایسی ناکامی ہے جس کا مداوا ممکن نہیں۔ اس کو پاکستان کی ناکامی سے اس لیے تعبیر کیا گیا کیوں کہ امریکی صدر نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ حیرانگی اس بات پہ ہوتی ہے کہ امریکی صدر کے دورہء بھارت کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے جب کہ بعض لوگ شاید سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آرمی چیف کے دورہء چین کو پس منظر میں دھکیل رہے ہیں۔

حالانکہ بغور جائزہ لیا جائے تو بھارت امریکی صدر کے دورہء بھارت پہ خوش ہونے سے زیادہ اس بات پہ افسردہ ہے کہ آرمی چیف کے دورہء چین کے دوران چینی قیادت نے نہ صرف پاکستان کے لیے اپنی حمایت کو شخصیات سے مبرا قرار دیا بلکہ ساتھ ہی بھارت کو بھی متنازعہ معاملات میں محتاط رہنے کا مشورہ دے دیا ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات کے حوالے سے چین ایک مضبوط موقف رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر کے دورہء بھارت کے درمیان پیار کی جو پینگیں بڑھنا شروع ہوئی ہیں ان پر چین نے کھل کے اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے۔

اور اسی ناراضگی کا اثر ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج چین سدھار رہی ہیں۔ جہاں وہ چینی قیادت کو اوبامہ کے دورہء بھارت پر اعتماد میں لیں گی۔ اور یہ باور کروانے کی کوشش کریں گی کہ بھارت کسی بھی صورت خطے کی صورت حال کو خراب کرنے کی کوششوں میں شامل نہیں ہو گا۔
امریکی صدر کا دورہ ء بھارت کرنے کا مقصد بھارت کے ساتھ تعلقات سے زیادہ ایک مضبوطی معاشی طاقت چین کے خلاف محاذ قائم کرنا ہے اسی لیے چین نے واضح لفظوں میں بھارت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے اور چین جیسی عالمی طاقت کی واضح تنبیہ اس وقت یقینا بھارتی سورماؤں کو ہضم نہیں ہو پا رہی ۔

اور اسی بد ہضمی کا اثر پاکستان میں موجود امن کے نام نہاد پیامبروں کے لفظوں میں بھی یقینا دیکھا جا سکتا ہے۔ جو حکومت پاکستان کو سفارتی ناکامی پہ لعن طعن کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کی حکومت سے لاکھ اختلافات سہی لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ اوبامہ کا پاکستان کا دورہ نہ کرنا ایسی ناکامی نہیں ہے جس پہ حکومت کے لتے لینے شروع کر دیے جائیں۔


جنرل راحیل شریف اس وقت مسلح افواج کے سربراہ کے ساتھ ایک سفارتکار کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ جو پوری دنیا میں پاکستانی مسلح افواج کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے میں بھی سود مند ہو رہا ہے۔ 14جنوری کو دورہء برطانیہ آرمی چیف کے کامیاب دوروں میں اس لیے بھی تصور کیا جا رہا ہے کہ اس دورے کے دوران فوج کے ترجمان ادارے کے سربراہ DG-ISPR میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی ان کے ساتھ تھے۔

جنہوں نے پاکستان کا موقف پوری دنیا پہ واضح کر دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عالمی میڈیا کے منافقانہ کردار کو ایسے انداز میں بے نقاب کیا ہے کہ پوری دنیا حیران ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب شاید Do-More کا نعرہ ختم ہو گیا ہے اور اس کا کریڈٹ یقینا موجودہ آرمی چیف کو جاتا ہے۔
بھارت جنرل راحیل شریف کے چین کے دورے پہ اس وقت ایک عجیب دوراہے پہ کھڑا ہے۔

24 جنوری کے دورہ ء چین سے جنرل راحیل شریف نے چینی قیادت جن میں چین کے مرکزی فوجی کمیشن کے وائس چیئرمین فین چینگ لونگ(Fan Changlong) ، چینی ہم منصب جنرل کی جیانگ ہو (Qi Jianguo) ، سیکریٹری ڈیفنس سے ملاقاتیں کیں یہ تمام ملاقاتیں نہایت سود مند رہیں۔ اور چین نے نہ صرف سانحہ ء پشاور کے بعد سے پاکستان کے اقدامات کو سراہا بلکہ کشمیر پر اپنی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے چین کو ETIM علیحدگی پسند تنظیم سے نمٹنے میں بھی مدد ملی ہے جو چینی علاقے ژن جیانگ(Xinjiang) میں مسائل کا سبب تھی۔
لہذا امریکی صدر کے دورہء بھارت پر ہنگامہ برپا کرنے کے بجائے پاکستان کا موقف سفارتی محاذ پر اجاگر کرنا اہم ہے ۔ یہ کام ابھی اگر آرمی چیف کر رہے ہیں تو سول بیوروکریسی اور وزارت داخلہ کو بھی اس سلسلے میں مثبت اقدامات کرنا ہوں گے۔

امریکہ ایک عالمی طاقت ضرور ہے لیکن چین اور روس خطے کے دو اہم ممالک ہیں۔ امریکہ بھارت کو چین اور ایران کے خلاف استعمال کرنے کا سوچ سکتا ہے لیکن ہمیں یہ حقیقت یاد رکھنا ہو گی کہ یہ دونوں ممالک ہمارے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور روس کے ساتھ تعلقات میں پچھلے کچھ عرصے سے سرد مہری ختم ہونا شروع ہوئی ہے اس پر بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن سفارتی پالیسی اپنا کر ہی ہم نہ صرف پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں۔ بلکہ اپنی معیشت کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں۔ لہذا اوبامہ کے دورہء بھارت پہ رونے سے زیادہ اہم کام یہی ہے کہ ہم چین سمیت خطے کے دیگر دوست ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات پر توجہ دیں۔ یہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :