ہیں خبریں گرما گرم

ہفتہ 24 جنوری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

14اگست 1947 کو معرض وجود میں آنیوالی مملکت خداداد پاکستان کی تاریخ ساری کی ساری ہی ”گرما گرم “ خبروں سے ہی بھری ہوئی ۔لکھنے بیٹھیں تو خیال آتا ہے کہ اس واقعہ کو بھی فراموش نہ کریں اور وہ والا واقعہ بھی زیرقلم آنا چاہئے، گویا سال کے 365دنوں میں ہرروز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضروروقوع پذیرہوا ہے جس کی بابت لکھا جاسکتاہے۔ مگر دل کے پھپھولوں کا منظرعام پرلانے والوں کو عموماً دل جلے ہی کہاجاتا ہے مگر اس بیچاری قوم کاکیا کیجئے کہ جو گذشتہ67سالوں سے دل کے پھپھولے دکھادکھا کرتھک گئی مگر شاید ہرآنیوالے دن کے ساتھ ہی حکمرانوں کی نظر کمزور تر ہوتی جارہی ہے ۔

پہلے کسی نہ کسی ”نیک دل “ حاکم کی نظر چھوٹے موٹے عوامی مسائل پر پڑہی جاتی تھی مگر اب وہ مسائل بھی ”معمول“ کی چیز بن کر رہ گئے ہیں۔

(جاری ہے)

کسی محفل میں مسائل پر بات ہورہی تھی ایک شخص بولا کہ ”ہمارے علاقے میں صاف پانی نہیں ہے“ قریب بیٹھا مراثی فوراً بولا” پہلے کیہڑا ملدا سی“ دوسرے نے کہا سیوریج کا سسٹم خراج ہے“ مراثی نے جواب دیا ’ پہلے کیہڑاٹھیک سی“ تیسرے نے سڑک کاشکوہ کیا، مراثی کاجواب وہی، چوتھے کو سکول نہ ہونے کا شکوہ تو مراثی کاوہی جواب۔

لگتایہی ہے کہ حکمرانوں نے بھی مراثی کی اقتدا قبول کرتے ہوئے ”پہلے کیہڑا سی“ کی سوچ کو اپنارکھا ہے۔ چھوڑئیے چھوڑئیے ان دل کے پھپھولوں کو ، ذرا آج کے حالات کو ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔
#فی زمانہ پٹرول ایک نایاب چیز بن گیا ہے، اب تو اندھیرے میں چراغ لیکر کیا پورا سورج بھی ہاتھ میں لیکرڈھونڈنے نکلو تو نہیں ملے گا ۔ملے بھی کیسے، جب ملک میں ہے ہی نہیں۔

سنا ہے کہ اب باہر سے حسب سابق ”منگوایا “ جارہاہے۔ ”منگوایا“ پرزور اس لئے دیا ہے کہ یہ ہماریقومی پالیسی بن چکی ہے ،جس چیز کی پاکستان میں قلت ہوجائے تو بجائے اس کی وجوہات تلاش کرکے اصل ذمہ داران کیخلاف کاروائی کرنے کے، باہر سے منگواکر ”عارضی قلت “ دور کرکے گویا کوئی قلعہ فتح کرلیاجاتاہے۔خیر پٹرول کی قلت کے دوران کئی طرح کے ڈرامے سامنے آئے، بیچارے دولہے اپنی نئی نویلی دولہنیں چمکتی دمکتی گاڑیوں پر نہیں بلکہ گدھار یڑھیوں پر لے آئے۔

یوں بھی غریب آدمی کیلئے شادی کادن واحد ہی ایسی یاد گارہوتا ہے جس روز وہ ”وی آئی پی “ ضرور ہوتا ہے مگراس کے بعد ․․․․․گویا پھر ․․․․چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔ خیر وزیراعظم نے چند شخصیات کوعہدوں سے ہٹاکر اپنا فرض پوراکرلیاہے ، پٹرول کی آمد کے بعدیہ صاحبان پھرکسی نہ کسی اہم عہدے متمکن ہوجائیں گے اور”رات گئی بات گئی “ کے مصداق اس معاملے پر بھی ”مٹی پاؤ“ والا کام ہوجائیگا۔

لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ یہ بحران پیداکیوں ہوا؟؟ ذمہ داران کون کون تھے؟؟ کس کس نے اس بحران سے کس قدرفائدہ اٹھایا؟؟ اگر ذمہ داروں کو تعین کرتے ہوئے متعلقہ وزیر کو فراموش کردیاجائے تو کیا انصاف ہوپائیگا؟؟ سوالا ت بہت سے ہیں لیکن حکمرانوں کے پاس سوچنے کاوقت کہاں ہے
# سانحہ پشاور ملکی تاریخ کا اندوہناک واقعہ تھا ،اس واقعہ کے بعد یہ قوم ” ا مت واحدہ“ کانمونہ پیش کرتی رہی جگہ جگہ طالبان اوردوسرے دہشتگردوں پرتنقیدہوتی رہی، ا س سانحہ میں شہید ہونیوالے معصوم بچوں کے والدین کے آنسو ابھی تک خشک نہیں ہوئے ان کیلئے نعم البدل کی دعا تو کی جاسکتی ہے مگر جانیوالوں کی محبت کا نعم البدل کہاں سے آئیگا؟؟ ایک طرف قوم سانحہ کے سوگ میں ڈوبی ہوئی تھی تو دوسری جانب ایک عجیب وغریب ”سانحہ “ رونماہونے لگا، پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں اس کوآوازہ بلندہوتارہا، وہ ”سانحہ “ یہ تھا کہ پورے صوبہ میں ایک خاص گروہ (یابہت سے گروہ بھی ہوسکتے ہیں) کتے بلیوں کے بعدگدھوں کاگوشت فروخت کررہا ہے، اس ضمن میں ظاہری طورپر کاروائی کاسندیسہ دیاگیا مگر عملی طورپر ․․․․․ یہ واقعات رکے نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ جاری ہیں، سوچ رہے ہیں کہ آخرجو یہ مکروہ کام کررہے ہیں وہ بھی مسلمان ہی ہیں، انہیں بھی خبرہوگی کہ گدھاحرام جانور ہے بالکل اسی طرح جیسے کتے ،چیلیں بلیاں ہیں مگر انہوں نے علم ہونے کے باوجود محسوس چند سکوں کے لالچ میں نہ صرف مکروہ کام کیا بلکہ انہیں نہ تو قانون کی فکر ہے اور نہ ہی آخرت کی ۔

خیر چھوڑئیے کہ یہ ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے ہم آفات کے دوران بھی اپنے افعال بد سے باز نہیں آتے۔ جیسا کہ 2010 کے تباہ کن زلزلہ کے بعد بعض شقی القلب مجرمان مردہ عورتوں کے کانوں سے بالیاں نکالتے ہوئے کان تک کاٹ کرلے گئے، متاثرین کیلئے آنیوالا سامان لوٹ لیاگیا ۔اس کے باوجود ہم کس منہ سے حکمرانوں سے شکوہ کرتے ہیں، فرمان خداوندی ہے کہ”جیسے تمہارے روئیے ہونگے ویسے تم پر حکمران مسلط کئے جائیں گے “
#اسلامی نظریاتی کونسل نے بیک وقت تین طلاقوں کو جرم قرار دیاہے ۔

اجلاس کے بعد مولانا شیرانی نے بریفنگ میں کہا کہ پہلی طلاق پر رجوع کا فی ہے قبل ازیں اس حوالے سے امت کے مختلف مسالک میں اختلا ف رائے پایاجاتاتھا ، بعض مسالک کے مطابق بیک وقت تین طلاقیں بھی ایک ہی تصور کی جاتی تھیں جبکہ بعض کے مطابق یہ تین طلاقیں تین ہی تصور کرکے طلاق کاوقو ع پذیرہونا لازم ہے، تاہم اب اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلہ کے بعد کم ازکم مفتیان کرام ،علماکو اس حوالے سے امت مسلمہ میں شعور بیدار کرنا ہوگا اور اس بدترین فعل کی روک تھام کے حوالے سے بھی کام کرنا ہوگا کیونکہ یہ ایک ایسا سماجی فعل ہے کہ جس پر عرش تک ہل جاتا ہے
#عمرا ن خان پھر سے ”کھڑاک“ کے چکر میں ہیں گو کہ ان کی شادی کو ”نئے پاکستان“ کی طرف پہلا قدم قرار دیاجارہا ہے اب پتہ نہیں عمرہ سے واپسی پر وہ دوسرا قدم اسمبلیوں کی طرف بڑھاتے ہیں یاپھر ڈی چوک کی جانب․․․․ بہرحال ان کادوسرا قدم ہی دراصل ان کے آئندہ عزائم کی واضح نشانی ہوگا۔

فی الوقت تو انہیں حکومت سے شکوے شکایات بے شمار ہیں جوڈیشل کمیشن کے معاملے پر ان کا موقف وہی ہے جو پہلے تھا ، دیکھنا یہ ہے کہ سندھ اسمبلی سے چار اراکین کے استعفیٰ منظورہونے کی خبر سننے کے بعد وہ آئندہ کیا لائحہ عمل تیارکرتے ہیں، فی الوقت چونکہ موسم بھی ٹھنڈا ہے تو ہوسکتا ہے کہ ان کی سیاست پر بھی اس ٹھنڈ کا اثر موجود ہے تاہم جونہی موسم گرم ہوا تو جذبات کی گرماگرمی بھی دیکھنے لائق ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :