آخر کب تک؟

ہفتہ 24 جنوری 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

پاکستان میں ہر روز ایک نیا سانحہ جنم لیتا ہے اور ہم سب دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ سانحہ ہمارے ساتھ نہیں ہوا چلو ہم تو بچ گئے اس سے یاد آیا کہ ایک بار ایک صاحب اپنے دوست کے ہاں ہانپتے کانپتے پہنچے اور کہا یار اج میں مر مر کے بچیاں آں(دوست آج میں مر مر کے بچا ہوں) اس کے دوست نے بے ساختہ جواب دیا فکر نہ کر بچ بچ کے وی مر جائیں گا(فکر نہ کرو بچ بچ کے بھی مر جاو گے) اور اگر دیکھا جائے تو صورت حال ایسی ہی نہیں ہو چکی کسی دوست رشتے دار یا کسی سے بھی ملیں ہر ایک کے منہ سے یہ جملہ بے ساختہ سننے کو ملے گا کہ پتہ نہیں دوبارہ مل سکیں گے کہ نہیں حالات ہی اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ نہ جانے کب کہاں کیا ہو جائے ۔

اور ہو بھی رہا ہے، دہشت گردی کے واقعات اپنی جگہ سوہان روح بنے ہیں جبکہ ریاستی امور میں حکومت کی ناہلی نے تو شہریوں کی جان ہی نکال کر رکھ دی ہے ایک بحران ختم نہیں ہوتا دوسرا سر اٹھا لیتا ہے ، بجلی کی کمی ہی ان سے دور نہیں ہو رہی تھی کہ گیس کی قلت بھی سامنے آ گئی اس سے جان نہیں چھوٹی تھی کہ پٹرول نے برا حال ہی نہیں کیا پہیہ ہی روک دیا اور پہیہ رکنے کا سیدھا سا مطلب ہے زندگی رک جاتی ہے ، پٹرول کے لئے شہریوں کی خواری اور زلت کے ایک ہفتے بعد جا کر حکومت کو احساس ہوا کہ ملک میں کوئی مسلہ ہے اور پھر نوٹس ، معطلیاں ، اور اپنوں کے بچانے کے بہانے سامنے آنے لگے ہم ابھی تک بنیادی مسلوں میں ہی الجھے ہوئے ہیں نہ انہیں ختم کرتے ہیں نہ ہمارا سفر جاری ہوتا ہے ترقی معکوس حرکت تیز تر اور سفر رکا ہوا۔

(جاری ہے)

دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی جبکہ پاکستان میں اس کا فائدہ عوام تک پہنچانے کی بجائے پٹرول ہی نایاب کر دیا گیا اس سے بڑھ کر کسی بھی حکومت کی نااہلی اور کیا ہو گی ابھی کچھ دن پہلے لاہور میں وزیر اعلی ہاوس کے باہر اندھوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی اور پاکستان کی بدنامی ہوئی ، جبکہ یہاں شائد کسی نے اس پر شرمندگی بھی محسوس کی ہو ، اور اب سکول کے نہتے معصوم بچوں پر پولیس تشدد جس کے نتیجے میں ایک بچے کے کان کے پردے تک پھٹ گئے ، اس پر حسب معمول اور روایت وزیر اعلی کا نوٹس اور بس، جبکہ بچے کے والدین کو ڈرا دھمکا کر پولیس کے خلاف بیان واپس لینے کے دباو کی روایت بھی برقرار ،کیا حکومتیں ایسے چلتی ہیں؟ سکول کے بچوں پر پولیس کے تشدد نے ایک بار پھر دنیا کے میڈیا میں پاکستان کو شہہ سرخیوں میں جگہ دی۔

کب تک ہم یونہی دنیا بھر میں تماشہ بنتے رہیں گے اور کب ہم ان بنیادی مسلوں سے نجات حاصل کریں گے اور کب تک ہم صرف نوٹس لیتے رہیں گے؟ ، پولیس کے اسی طرح کے ناروا رویوں ، بہیمانہ تشدد اور سلوک کی کوکھ سے سے دہشت گردی جنم لیتی ہے کیا اس کا احساس ہے حکومت کو ؟ کہ شہری کس اذیت کا شکار ہیں ان کے لئے جینے کے باعزت راستے بند کئے جارہے ہیں ،ان حالات میں عوام کو یہ کہتے سنا جا رہا کہ نا جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں۔


یہ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ بدترین تصور کیجاتی ہے صورت حال اتنی دگرگوں ہے کہ دنیا کے تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو پاکستان جانے کو منع کررکھا ہے اور جو اس ملک میں ہیں انھیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جارہا ہے جبکہ کاروباری سرگرمیاں معطل ہوتی جارہی ہیں، بیرونی سرمای کار یہاں آنے سے کترنے لگے ہیں سیاحت کا شعبہ ناکامی کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہا ہے، تعلیمی اداروں کو قید خانوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے جبکہ ضرورت ہے بچوں کو خوف کی فضا سے نکالنے کے لئے ایسے اقدامات اٹھائے جاتے جن میں ان کی حوصلہ افزائی کے کام کئے جاتے ، تفریح سرگرمیوں کو فروغ دیا جاتا ، موٹی ویشنل لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ،دشمن کے بارے بتایا جاتا کہ اس سے کیسے لڑنا ہے ان کی جسمانی اور زہنی تربیت کی جاتی، اونچی دیواریں اور خوف کا ماحول بچوں میں کئی طرح کے نفسیاتی عوارض کا سبب بنے گا جس کا حکومتی کرتا دھرتاوں کو کوئی خیال ہی نہیں ۔


اس وقت تمام حکومتی اداروں کی کارکردگی صفر ہے عوام الناس کی شنوائی ہی کہیں نہیں ٹریفک کی صورت حال دیکھیں تو روزانہ پانچ سو کے قریب حادثات ہو رہے ہیں جن میں ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں اور زخمی بھی ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے اور اس کے بہاو میں کوئی خلل نہ آئے اور حادثات مٰں کمی کے زمہ دار ٹریفک وارڈن نے سب سے آسان کام تلاش کر لیا ہے وہ صرف چالان کرنا یا خوش گپیوں می مصروف رہنا دھڑا دھڑ چلان کر کے ”قومی خزانے“ کو بھرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ عوام کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں اس کا کسی کو زرا خیال نہیں ہے اور سڑکوں کی ابتر حالت کی بنا پر لوگوں کی گاڑیاں موڑسائکلیں خراب ہو رہیں ہیں اور حادثات کا بھی سبب ہیں ان کی مرمت پر توجہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے بندہ یہاں کس کس بات کا رونا روئے جگر کو پیٹنے اور دل کو رونے کے لئے کوئی الگ سے بندہ رکھنا پڑئے گا۔


کسی بھی ملک کی ترقی کا معیار وہاں کا نظام حکومت اور عوام کو دی جانی والی سہولیات کی فراہمی سے لگایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ابھی تک تعلیم اور صحت کی سہولیات ہی شہریوں کو میسر نہیں سرکاری ہسپتالوں کی حالت اور عوام کی مشکلات کے حوالے سے ہر روز ٹی وی چینلز سیاپا کرتے پائے جاتے ہیں جبکہ تعلیم کے معیار اور سہولتوں کی کمی کی بنا پر اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں،ہم ابھی تک ایسا قومی نصاب بھی ترتیب نہیں دے سکے جو قومی وحدت کا شاہکار ہوتا اور قوم ایک اکائی بن سکتی بچوں کی زہن سازی کئے بنا ہم کس طرح اس ملک سے انتہا پسندی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

قومی قیادت سے دست بدستہ گزارش ہے کہ وہ ہجوم کو قوم بنانے کے لئے اور عوام کے بنیادی مسائل کے پائدار حل کے لئے کسی ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کی طرف جائیں کیونکہ عوام کی خوشحالی ہی مظبوط ملک کی بنیاد بن سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :