آزادی اظہار رائے کی حدود کیا ہیں؟

جمعرات 22 جنوری 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

اگر آپ تقدس ،عفت اورعظمت و توقیر کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے متمنی ہیں تو پھر کسی نہ کسی طرح امریکہ کا ویزہ حاصل کیجئے ۔کسی بھی ٹریول ایجنٹ سے ٹکٹ لیں اور نیو یارک کا سفر کریں ۔نیو یارک ائیر پورٹ سے امیگریشن کے تقاضے پورے کریں اور ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی امریکہ مردہ باد کا نعرہ بلند کریں۔محض پانچ سے دس منٹ کا وقت گزرے گا چند باوردی اہلکار آپ تک رسائی حاصل کریں گے اور آپ کی مشکیں کس کر پیٹھ کے ساتھ لگاتے ہوئے باندھ دیں گے ۔

آپ کے چہرے پر کالے رنگ کا غلاف ڈالیں گے ۔ اس کے بعد آپ کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا جائے گا۔یہ سب اس لئے ہوگاکہ آپ نے امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگایا ہے اور امریکہ کو گالی دینا اور اس کے تقدس کو پامال کرنا قانونی طور پر جرم ہے۔

(جاری ہے)

اگر آ پ اس انجام کے بعد بھی ناموس و تقدس کا ادراک حاصل کرنے میں ناکام رہیں تو پھر یورپ کا سفر کیجئے ۔کسی بھی یورپی ملک میں پہنچنے کے بعد آپ وہاں ہولو کاسٹ واقعہ کو موضوع سخن بنائیں ۔

دوران گفتگو ہولو کاسٹ کی صحت پر استدلال پیش کریں ۔اگر کسی نے آپ کی یہ گفتگو سماعت کر لی اور یہ شکائت قانون نافذ کرنے والے اداروں تک پہنچ گئی تو یقین کر لیجئے کہ محض نصف گھنٹہ لگے گا اور آپ کسی پولیس اسٹیشن کی کرسی پر بیٹھے اپنے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کی کاپی کا انتظار کر رہے ہوں گے ۔اس ایف آئی آر کے نتیجے میں آ پ کو زیادہ نہیں تو تین سال تک کی قید ضرور ہوگی۔

اگر آپ کو اب بھی تقدس اور ناموس کا مفہوم سمجھ نہ آیا ہو تو ایک واقعہ سماعت کیجئے ۔۔دسمبر 2009ء میں لندن میں شدید برف باری اور دھند کے باعث پروازیں تاخیر کا شکار تھیں۔موسم کی بحالی کے باعث جب پروازوں کا آغاز ہوا تو انتظامیہ نے امریکی ائیر لائن کے جہازوں کو ترجیحی بنیادوں پر سفر کی اجازت دی ۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ائر پورٹ پر موجود ایک یمنی باشندے نے امریکہ مردہ باد کا نعرہ بلند کیا ۔

پلک جھپکتے ہی سیکیورٹی فورسز نے اسے آن گھیرا اور اس کے خلاف امریکہ کو گالیاں دینے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ 72گھنٹے کے بعد اس نوجوان کو عدالت میں پیش کر کے اس کا ریمانڈ طلب کیا گیا۔سیکیورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ وہ اس نوجوان کے متعلق یمن سے ریکارڈ منگوانا چاہتے ہیں۔
اب زرا تدبر کو بروئے کارلاتے ہوئے فیصلہ کیجئے کہ امریکہ ایک ملک ہے اور یہ ملک پچاس ریاستوں پر مشتمل ہے۔

یہ ریاستیں جن میں بیشتر ایسی ریاستیں بھی ہیں جو سمندر پار ہیں اور انہوں نے امریکہ سے الحاق کیا ہوا ہے تمام کی تمام قرہ ارض پر ہیں ۔ان ریاستوں کے تقدس کے بارے میں کسی الہامی کتاب میں درج ہے اور نہ کسی بھی دین کی تعلیمات ان کی حرمت کا حکم دیتی ہیں ۔اس کے باوجود یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے تقدس کی پامالی قابل سزا جرم ہے ۔اسی طرح ہولو کاسٹ ایک واقعہ ہے جسے مرگ انبوہ بھی کہا جاتا ہے ۔

فرانس اور جرمنی سمیت 13 ممالک ایسے ہیں جہاں ہولو کاسٹ پر کسی بھی نظر ثانی بلکہ اس کے بارے میں تحقیق کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اس پر تحقیقی بحث سے بھی بعض ممالک میں تین سے دس سال تک قید کی سزا اور جرمانے بھی ہوسکتے ہیں۔
راقم انتہائی احترام سے استفسار کناں ہے کہ کسی ایک ریاست کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنا اور کسی واقعہ کا انکار کرنا ناقابل معافی جرم قرار دیا جاسکتاہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے بڑے مذہب اسلام کے پیغمبرﷺکی ناموس اور تقدس کو موضوع بنانے اور اس پر ناقدانہ اظہار خیال کرنے والے ہر نوع کی پابندی اور حدود وقیود سے بے نیاز ہونے کے خواہشمند ہیں۔

فرانسیسی رسالے چارلی ایبڈو کے سروائیورز ایڈیشن پر امریکی صدر بارک اوباما اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے جس ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا ہے یہ واضح طور پر صلیبی جنگوں کا غیر اعلانیہ آغاز یا تسلسل ہے ۔ جمعرات کے روز ٹائمز اخبار میں لکھے گئے اپنے مشترکہ کالم میں یہ دونوں صاحبان لکھتے ہیں کہ ”جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اظہارِ رائے کی آزادی کو تشدد سے دبا سکتے ہیں ہم نے اپنے فرانسیسی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ان پر واضح کر دیا ہے کہ ہماری آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی جائیں گی، جب پیرس میں اس آزادی پر حملہ ہوا جسے ہم عزیز رکھتے ہیں تو دنیا نے یک زبان ہو کر اس کا جواب دیا، ہم ان وحشی قاتلوں اور ان کے مسخ شدہ نظریات کو شکست دیں گے “۔

یہ ان دونوں عالمی رہنماؤں کے خیالات ہیں جو نیا میں امن اور انصاف قائم کرنے کے دعویدار ہیں ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ بین الاقوامی انصاف اور امن کے نام نہاد ٹھیکیدار اپنی مرضی کا انصاف اور امن قائم کرنا چاہتے ہیں ۔اسلام کے نام لیواؤں کو جب متشدد رحجانات کا حامل قرار دیا جاتا ہے تو کیا یہ ناگزیر نہیں کہ اس کے اسباب بھی تلاش کیے جائیں ۔

جس روز بارک اوبامہ اور ڈیوڈ کیمرون کا یہ مضمون اخبار میں شائع ہوا اسی روز امریکہ کے سب سے بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنے صفحے اول پر لکھا ” فرانسیسی رسالے کا نیا سرورق اپنے ساتھ نئے خوف لے کر آیا ہے، اور اس بات کا خطرہ ہے کہ چارلی ایبڈو مزید تشدد کا نشانہ بنے گا“۔امریکہ ہی کے دانشور حلقے اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ جب آپ کسی بھی مذہب کے حاملین کو اشتعال دلائیں گے اورذمہ داران کو قرار واقع سزا نہیں دیں گے تویقینی طور پر وہ مایوس ہو کر متشدد رحجانات کی جانب راغب ہوں گے ۔

چارلی ایبڈو پیغمبر اسلام کی توہین پر مبنی 30لاکھ کاپیاں شائع کرتا ہے اور بین الاقوامی رہنما اسے لعن طعن کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تومتاثرین کے نزدیک اس یکجہتی کو ترغیب تصور کیا جائے گا ۔سترہ افراد کی ہلاکت کے بعد جس طرح سے پیرس میں”بین الاقوامی انجمن منافقین “نے اجتماع کا انعقادکیا اور آزادی اظہار رائے کے حق میں آواز بلند کی کیا ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اس بابت اشارہ کرتا کہ فرانس سمیت تمام ممالک مذاہب اور مذہبی شخصیات کی توہین کو غیر قانونی قرار دیں، اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس سے اسلامی انتہاپسندی کو فروغ ملے گا۔

کیا اس ”بین الاقوامی انجمن منافقین“میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو آزادی اظہار رائے کی حدودو قیود کے بارے میں استفسار کرتا کہ جناب آخر آزادی اظہار رائے کی حد کہاں سے شروع ہوتی اور اس کا اختتام کہاں ہوتا ہے ۔کیا عجب ہے کہ پیغمبر اسلام کی توہین تو ہوسکتی ہے مگر ہولو کاسٹ اور امریکہ کی توہین نہیں ہوسکتی ۔یہی وہ دوہرا معیارہے جس نے دنیا کے امن پر سوالیہ نشان ثبت کر رکھا ہے ۔

آخر میں اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ اس موقع پر تمام اسلامی ممالک کو غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے ممالک میں تعینات فرانس کے سفیروں کے خلاف مقدمات درج کر نے چاہئیں تاکہ دنیا بھر کو ایک توانا پیغام ملے کہ مسلمان کردار اور عمل کا نحیف تو ہو سکتا ہے مگر اپنے پیغمبر کے بارے میں کوئی بات برادشت نہیں کر سکتا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :