نیا پاکستان بن چکا ہے

اتوار 18 جنوری 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

عمران خان صاحب اب تک نہیں سمجھ سکے کہ سولہ دسمبر کو نیا پاکستان بن چکا ہے، افسوس ! پشاور میں درگت بننے کے بعد بھی نہیں۔مادر پدر آزاد، غیر ذمہ دار ٹی وی چینلوں نے جس طرح گذشتہ چند مہینوں سے پاکستان میں ہیجان بر پا کرنے کی کوششیں شروع کی ہوئی ہیں اسکی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ کاروباری الیکٹرونک میڈیا کی غیر ذمہ داری کی انتہا تھی جب ا س نے ان حالات میں بھی عمران خان اور ریحام خان کی دوسری شادی کے شادیانے بجانے شروع کیے۔

لہو میں ڈوبے ہوئے صوبے کی حکمران جماعت تحریکِ انصاف کی ملک بھر میں موجود قیادت کو ذرہ برابر شرم نہیں آئی اور شہر شہر خان صاحب کی مہندیاں اور سہرے گانے شروع کر دیے گئے۔ میڈیا پر بے دریغ پیسا لٹانے والی اس تحریک نے دوسری شادی کے اس واقعے سے بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور خان صاحب کی ”سادگی“ سے شادی کی رپورٹیں چلوانا شروع کردیں۔

(جاری ہے)

میڈیا رطب اللسان تھا کہ خان صاحب کی شادی پر نہ کوئی جشن ہوگا ، نہ بھنگڑے ڈالے جائیں گے اور نہ ولیمہ ہوگا بلکہ خان صاحب ایک مدرسے کے بچوں کو کھانا کھلائیں گے۔ ظاہر ہے یہ خان صاحب کی ایک عظیم قربانی تھی ، جبکہ ہمارے معاشرے میں تو جب کسی باسٹھ سالہ بزرگ کا کسی چالیس سالہ مطلقہ سے عقد ثانی ہوتا ہے تو بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں، ہفتوں جشن منائے جاتے ہیں اور ولیموں کی عظیم الشان دعوتیں سجائی جاتی ہیں۔

واہ رے بکاوٴ میڈیا ! پروپیگنڈے کے زور پر خان صاحب کی خود ساختہ عظمت میں خوب اضافہ کیا جارہا تھا۔
ڈی چوک میں نو سے بارہ والے اسپانسرڈ دھرنے سے جان چھڑانے اور دوبارہ اپنا گھر بسانے کے بعد خان صاحب کے پاس موقع تھا کہ ” بیبے بچوں “ کی طرح اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خیبر پختونخواہ کے عوام کے ووٹوں کو بنی گالا کی ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے بجائے صوبے کی حالت بدلنے میں جت جائیں۔

مگر آپ کے دل و دماغ میں چھایا ہوا خبطِ عظمت آپ کو زمین پر آنے ہی نہیں دیتا۔ آپ کے ” پیروکاروں“ نے جس طرح ” پھُوک “ بھر کے آپ کو قائد اعظم کے ہم پلہ لیڈر قرار دیا ہوا ہے ، ایسی صورت میں آپ نے یہ سمجھنا ہی ہے کہ پوری قوم آپ کی اداؤں کی دیوانی ہے اور آپ جو بھی حرکت فرمائیں گے ، پوری قوم جھوم جھوم کے بھنگڑے ڈالے گی۔ کنٹینر سے کی جانے والی بیہودہ تقریروں اور دھرنے والے ٹوپی ڈرامے نے آپ کی شخصیت کا پردہ عوام الناس پر تو پہلے ہی چاک کر دیا تھا مگر اکیسویں تر میم کے لئے ووٹ نہ ڈال کر آپ نے اپنے ”پیروکاروں “ اور صوبہ پختونخواہ کے عوام کے زخموں پر جو نمک چھڑکا ،معصوم بچوں کے کفن میلا ہونے سے بھی پہلے دوسری شادی ان زخموں پر مرچیں بن کر نازل ہوئی اور نتیجہ اسکول کے دورے کے موقع پر سامنے آگیا۔


اس وقت جب پوری قوم دہشت گردی کے خلاف ایک آواز بن چکی ہے، افواج پاکستان ضرب عضب میں پوری تن دہی سے مصروف ہیں، قبائلی علاقوں کے لاکھوں اندرونی مہاجرین ، کیمپوں میں رہنے پرمجبور ہیں ، مشرقی سرحدوں پر ہمارا ازلی دشمن پیچ و تاب کھا رہا ہے ، عمران خان نے دوبارہ دھرنوں اور اپنے سی، ڈی پلانوں کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ خان صاحب ان حرکتوں سے پاکستان کو اور کتنا نقصان پہنچائیں گے ۔

ضرب عضب شروع ہوتے ہی عمران خان اور ان کے سیاسی کزن کی طرف سے اسلا م آباد پر یلغار کس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش تھی؟ اور اب جب دوبارہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کا پروگرام بن رہا ہے تو عمران خان اور ان کے سیاسی کزن نے دوبارہ لنگوٹ کسنے شروع کر دئے ہیں، کیا یہ محض اتفاق ہے؟ عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا حکومت دوبارہ اسلام آباد اور دیگر شہروں کو یرغمالیوں کے نرغے میں جانے دے گی؟ اور ایک گملہ نہ ٹوٹنے کے نام پر عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی امداد کے کروڑوں روپے دھرنوں کی سیکیورٹی پر پھونکے جائیں گے؟ باقی ملک تو چھوڑیں ، خان صاحب کو تو پشاور چرچ دھماکے میں سو سے زیادہ لوگوں کی ہلاکت، ڈی آئی خان جیل حملہ، پشاور ائر پورٹ حملے، صوبے کے طول و عرض میں پولیس اہلکاروں پر حملے، اسکولوں کو بموں سے اڑانے جیسے واقعات بھی ٹس سے مس نہ کر سکے۔

اب خان صاحب، آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں کی شہادت کے صدقے ، قوم میں پیدا ہونے والے اتحاد کو تہ و بالا کرنا چاہتے ہیں، آخر یہ کس کا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟
عمران خان کا سارا زور اس بات پر ہے کہ پنجاب میں دھاندلی ہوئی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ عمران خان کے مطالبے پر فوری طور پر قانون سازی کرکے ایک خصوصی عدالتی کمیشن قائم کر ے۔ تحریک انصاف کے لگائے گئے الزامات کے مطابق دھاندلی کے مبینہ ذمہ داروں سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ، سابق جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام، ملٹری انٹیلیجنس کے بریگیڈیر، سا بق صدر آصف زرداری، سابق نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو، جیو ٹی وی کے مالکان اور اس وقت کے سینئر اسٹاف،سابق نگراں وزیر داخلہ ، پنجاب سے الیکشن کمیشن کے ممبر جسٹس کیانی، پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی، پنجاب کے صوبائی الیکشن کمشنر، پنجاب بھر کے تمام سابق ریٹرننگ افسروں (سول ججوں) اور اس وقت کی وفاق اور پنجاب کے سیکرٹری سطح کے افسروں اور ضلعوں کے ڈی سی او ز اور ڈی پی اوز پر الیکشن میں دھاندلی کے الزام میں مقدمہ قائم کیا جائے۔

بہتر ہوگا ان سب لوگوں کو گرفتار کر لیا جائے اور ان میں سے حاضر سروس افسروں اور دیگر عہدیداروں کو معطل بھی کر دیا جائے تاکہ یہ لوگ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ عدالتی کمیشن کو اس بات کا بھی پابند بنایا جائے کہ وہ یورپی یونین اور این ڈی اے سمیت تمام انٹر نیشنل آبزرور گروپوں کو بھی طلب کرے اور انکی باز پرس کرے کہ ان تمام اداروں نے الیکشن کے شفاف ہونے کی ” جھوٹی “ رپورٹیں کیسے جاری کیں۔

کمیشن کے قیام کی قانون سازی میں دھاندلی میں ملوث ان کر داروں پر الزام ثابت ہونے کی صورت میں سزا بھی تجویز کی جائے اور اگر الزام جھوٹا ثابت ہو تو جھوٹے الزام لگانے والوں کی سزا بھی تجویز کی جائے اور حکومت پاکستان کی طرف سے دھرنوں کی سیکیورٹی اور کمیشن کے قیام کے تمام اخراجات بھی جھوٹا الزام لگانے والوں سے وصول کئے جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :