صحافتی اقدار

بدھ 14 جنوری 2015

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

غیرجانبداری ایک زمانہ میں صحافت کے ہر نوآموزکو سکھائی جاتی تھی ‘غیرجانبداری کے علاوہ حدودوقیود کے بارے میں بھی استاد لوگ ہی گائیڈ کیا کرتے تھے کیونکہ یہ لازم نہیں صحافت میں ڈگری حاصل کرلینے والے ہر شخص میں صحافی بننے کے جرثومے ہوں ‘صحافی کی خمیرہی الگ مٹی سے اٹھایا جاتا ہے ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ایک انسان کے دوسال لگتے ہیں صحافی بننے میں مگر پھر وہ زندگی میں کبھی”انسان“نہیں بن سکتا کچھ دن پہلے ایک بڑے صحافی نے اپنے ایک پوسٹ میں غیرجانبداری کی تشریح ان الفاظ میں کی ”غیرجانبدارصرف ہیجڑاہی ہوسکتا ہے “اگر یہ بات کسی جونیئرنے کہی ہوتی تو صرف نظرممکن تھا مگر ایک نامور سنیئرصحافی کو حدووقیود کو مدنظررکھنا چاہیے ‘میں یہاں مذہبی اصطلاح استعمال کرنے کی بجائے شعوری طور پر سائنسی اصطلاح ”نیچر“استعمال کرونگا کہ کہیں مجھ جیسے باقاعدہ کو بھی ”القاعدہ“کے کھاتے میں نہ ڈال دیں کہ مذہبی اصطلاحات کے استعمال کو بھی ایک مخصوص لابی طالبان سے جوڑدیتی ہے کیونکہ اسے لمبے چوڑے فنڈزاسی مقصد کے لیے ملتے ہیں اس پر پھرکبھی بات کریں گے ‘میرا تمام صحافتی جوگادریوں اور آزادی اظہار کے ”نام نہاد“علمبرداروں سے سوال ہے کہ دنیا میں کون سی چیز”نیچر “نے ایسی پیدا کی ہے جس کے لیے حدودوقیود مقررنہیں ؟جنگلوں میں رہنے والے درندوں کے لیے بھی حدودوقیود متعین ہیں تو انسانوں میں کیوں نہیں ہوسکتے؟ایک اقلیت ہے جس نے پوری دنیا میں اکثریت کو یرغمال بنا رکھا ہے ‘سرمایہ درانہ نظام کے ہرکارو ں کی اقلیت اور ہم اکثریت میں ہوتے ہوئے لاچار اور بے بس ہیں اعدادوشمار ڈھکے چھپے نہیں ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق ہماری دنیا یعنی ”پلاننٹ ارتھ“کی کل آبادی سات ارب سے تجاوزکرچکی ہے دوہزارچار کے سی آئی اے ورلڈفیکٹ بک کا ریکارڈ کہتا ہے کہ دنیا کی کل آبادی کا صرف بارہ فیصد لوگ ایسے ہیں جوکہ کسی مذہب کو نہیں مانتے ‘یعنی دنیا کے اٹھاسی فیصد لوگ کسی نہ کسی مذہب کو مانتے ہیں اب ذرا مجھے دنیا کے تمام مذاہب کا مطالعہ کرکے کسی بھی ایک مذہب کا نام بتادیں جس نے حدو دوقیود مقررنہ کررکھی ہے ‘کیا دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسا ہے جو کسی مذہب‘انسان‘گروہ ‘قبیلے‘قوم‘رنگ ‘نسل کا تمسخراڑانے کی اجازت دیتا ہو ؟مذاہب عالم کا ادانی طالب علم ہوں مجھے عالم فاضل ہونے کا دعوی نہیں مگر جوکچھ میں نے پڑھا میں کسی بھی مذہب کی تعلیمات میں یہ تلاش نہیں کرپایا کہ آزادی اظہار کی آڑمیں آپ کسی کے مذہب کا یا رنگ ونسل کا تمسخراڑائیں ‘صحافت کے لیے متعین کی گئی جدیداخلاقیات اہل مغرب کی مرتب کردہ ہے اور یہی ہمیں پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے ‘مغرب سے درآمد شدہ بلکہ مسلط شدہ صحافتی اخلاقیات بھی ہمیں بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ ہم جس کا چاہیں تمسخراڑائیں‘جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ایک چھوٹی سے اقلیت نے پوری نوح انسانی کو یرغمال بنا رکھا ہے دورجدید کی اس غلامی میں میرے آپ کے پینے کے پانی کے برانڈتک تعین یہ اقلیت کرتی ہے‘ہمارے بچے دودھ کون سا پیئیں یہ بھی سرمایہ درانہ نظام کے یہ کل پرزے طے کرتے ہیں آزادی‘انسانی حقوق سب کاغذی نعرے اور وعدے حقیقت میں بدترین غلامی‘فرانس میں جوکچھ ہوا وہ قابل مذمت ہے اور ہم کی مذمت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ہم چارلی جیسے دیگر مغربی اخبارات کی بھی مذمت کرتے ہیں جنہوں نے آزادی اظہار کے نام پر ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمانوں کی دل آزاری کی اور جو اہل مغرب کی اپنی ناکامیوں اور نالائقیوں کو چھپانے کے لیے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک مسلسل ایک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں‘ ایک مخصوص لابی پاکستان سمیت دنیا بھر میں چارلی ایبڈو کے واقعہ کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی سرتوڑکوشش کررہی ہے حالانکہ اس کی وجوہات سیاسی ہیں ‘ایک مسلمان کی حیثیت سے حرمت آقائے دوجہاں ﷺ پر جان قربان کردینے سے بڑا اعزازمیرے لیے کوئی اور نہیں ہے مگر میرے آقاء ومولاﷺ تو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کربھیجے گئے‘آپﷺ کی ذات گرامی تو رحمت ہی رحمت تھی‘عفو اور درگزرکا یہ عالم کہ فتخ مکہ پر ہندہ تک کو معاف فرمادیا جس نے آپ کے چچا حضرت حمزہ  کے جسد مبارک کی بے حرمتی کی ‘آپﷺ اس عور ت کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے جو ہادی برحقﷺ پر کوڑا پھینکتی تھی ‘کسی صحابی  نے فتح مکہ پر کہا آج بدلہ لینے کا دن ہے آپ سرکارﷺ کو علم ہوا تو فوری طور پر فرمایا نہیں آج رحمت اور بخشش کا دن ہے‘آج معاف کردینے کا دن ہے ‘اس زمانے میں فاتحین شہروں کے شہرجلادیتے تھے مگر یہ فاتحﷺ ایسے تھے جن کا کوئی ثانی نہ ہوا اور نہ کبھی ہوگا جس کو سوہنے رب نے رحمت العلمین کہہ کر پکارا ‘شمع رسالت ﷺ کے پروانے آپ ﷺ کی حرمت پر جانیں نچھاور کرتے آئے ہیں اگر یہ معاملہ گستاخانہ خاکوں سے جڑا ہوتا شمع رسالت ﷺ کے پروانے سالہاسال انتظار نہیں کرتے عامرچیمہ نے تو انتظار نہیں کیا وہ تو بھاگا بھی نہیں ‘میری اپیل ہے اس معاملے کو سنجیدہ لیا جائے محض اسلام مخالفت میں یا آقاؤں کی خوشنودی کے لیے جذبات کی رومیں بہہ کر ماردو‘کاٹ دو کے نعرے نہ لگائے جائیں ‘میرے نزدیک اس کے دوپہلو ہوسکتے ہیں ایک داعش کے سربراہ البغدادی کے خاکے جو چارلی ایبڈو نے حال ہی شائع کیئے اور دوسرا ”پیگیڈا“نامی اسلام مخالف تنظیم کی کاروائیاں ہیں جوکہ نہ صرف پورے یورپ بلکہ آسٹریلیا اور دیگر براعظموں تک پھیل رہی ہیں یہ تنظیم پرتشددکاروائیوں میں بھی ملوث ہے اور اس کے اراکین مسلمانوں کو ہراساں کرنے‘تشدد‘مساجد اور دیگر مذہبی مراکزپر حملوں میں بھی ملوث ہیں پوری مغربی دنیا سے اس تنظیم کو فنڈزمہیا کیئے جاتے ہیں مگر اہل مغرب اسے دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیتے کیونکہ یہ عیسائیت کی ایک تحریک ہے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے "Patriotic Europeans Against the Islamisation of the Occident" انتہاپسند عیسائی تحریک ہے جس نے سیاست کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ‘آسٹریلیا میں تو مسلمانوں پر باقاعدہ حملے کیئے گئے اور بہت سارے علاقوں میں پولیس نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ غیرضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں آج تک ہمارے صحافتی جوگادریوں نے کبھی اس پر بات نہیں کی اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل نے کسی خصوصی شو کا انعقادکیا ‘اغیار کے دوہرے معیار تو تھے ہی اب اپنوں نے بھی یہ اپنا لیے ہیں ‘انسان کی ہلاکت قابل مذمت ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ”انسان کا قتل پوری نوح انسانی کے قتل کے مترادف ہے“انسانی خون کا ارزاں انسانیت کش سرمایہ درانہ نظام نے کیا ہے اپنے معاشی فائدے کے لیے جنگیں تک کروائی ہیں انسانوں کی کھال میں چھپے ان بھڑیوں نے ‘دنیا اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے کہیں مذہب تو کہیں ‘رنگ ونسل اور زبان کے نام پر نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں اور میڈیا اس ابلیسی لشکر کا ہراول دستہ ہے ‘اب ہتھیاروں سے لڑائی کی بجائے میڈیا کے محاذ پر جنگیں لڑی جارہی ہیں ‘صرف پاکستان میں دیکھ لیں سینکڑوں کی تعداد میں ٹی وی چینلز‘کیبل نیٹ ورک کے ذریعے بھارتی چینلزکی یلغار ‘بچوں کے کارٹون تک مہابھارت کے کرداروں پر مشتمل مگر ہمارے متعلقہ ادارے بھنگ پی کر سوئے پڑے ہیں کہ ان کے ”متعلقہ“ادرے ”حصے“وصول کربیٹھے ہیں ‘اس دور میں کوئی ایسے تھوڑی پیسے دیتا ہے‘ مرحوم مجید نظامی صاحب کبھی کبھی ملاقات کا وقت دے دیا کرتے تھے ‘صحافت کا یہ مرد مجاہد پیرانہ سالی میں بھی نہیں جھکا ڈٹا رہا تارلوگوں نے بات پھیلا رکھی تھی کہ نظامی صاحب کا اخبار مسلم لیگ(ن)کا ترجمان ہے مگر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جتنی شدیدتنقیدکا نشانہ نظامی صاحب میاں نوازشریف کو بناتے تھے شاید ہی کسی اور کو انہوں نے کبھی بنایا ہو اور پھر سب نے دیکھا کہ نوازشریف کے گرد جمع ہونے والے ”قوال“کہاں سے نکل کرآئے اور ان کا تعلق کس اخبار سے تھا کوئی مشیرتو کوئی آرٹ کونسل کا چیئرمین‘کسی کو بنگلے اور پلاٹ کا تحفہ تو کئی کو گاڑیاں ‘خیرمجیدنظامی صاحب کی بات ہورہی تھی ایک مرتبہ دوران گفتگو ایک بڑے میڈیا گروپ کے بانی کا ذکرخیرآگیا جن کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ اب پاکستان میں حکومتیں میری مرضی سے بنیں گی مگر جب ”سوا سیر“ٹکرا یا تو معافی نامے چھاپے گئے‘جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس میڈیا گروپ کے اشتہار بند ہوگئے تو نظامی صاحب نے مصطفی صادق مرحوم جو اس وقت وزیراطلاعات تھے سے بات کی انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے براہ راست ملاقات طے کروادی نظامی صاحب کے مطابق ہم نے ”صاحب “کو سمجھایا تھا کہ آپ نے ہمت سے کام لینا ہے ہم لوگ آپ کے ساتھ ہیں بات کرتے ہیں آرمی ہاؤس پہنچے تو ہمیں مہمان خانے میں بیٹھادیا گیا کچھ دیر کے بعد جنرل ضیاء الحق مہمان خانے میں داخل ہوئے تو ان ”صاحب“نے آؤ دیکھا نہ تاؤجاکر ضیاء الحق کے قدموں میں بیٹھ گئے ‘نظامی صاحب نے کہا کہ ہمیں بڑی سبکی کا احساس ہوا کہ ”صاحب“کو تھوڑا حوصلے اور صبر سے کام لینا چاہیے تھا خیرملاقات کے بعد باہر نکلے تو میں نے خوب سنائیں کہنے لگے نظامی صاحب میرااخبار ایک مکمل کمرشل اخبار ہے اور میں ایک بزنس مین ہوں اپنے بزنس کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہوں باقی رہا عزت‘غیرت کا معاملہ تو جب بزنس کو نقصان ہوتا ہو تو بزنس مین ان کا نہیں سوچتا ‘آپ نظریاتی آدمی ہیں آپ اپناکام کریں میں اپنا کررہا ہوں ‘نظامی صاحب کی اس بات سے بخوبی اندازاہ لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا کے ان جوگادریوں کی نظرمیں پاکستان یا اسلام کی کتنی وقعت ہے ‘ہمارا ایک دوست نعرہ مستانہ لگایا کرتا ہے ”ریٹنگ کے لیے اور ڈالرکے لیے کچھ بھی کرئے گا سالا“اب اس نے اپنے نعرے میں ترمیم کرکے پاؤنڈ اور یوروکا اضافہ کرلیا ہے کہ یوکے ایڈ بھی میدان میں ہے ‘اب تو خیرسے باریاں لگ گئی ہیں ”پڑھانے“کی کمپین ایک کو ملتی ہے تو ”سکھانے “کی دوسرے کو ”صدائے امریکہ“کا بھی یہی حال ہے کہ کبھی ایک پر تو کبھی دوسرے پر ‘ایک اٹھائی گیرے کا تذکرہ رہ گیا صاحب نیویارک میں خیرسے باقاعدہ چوریاں کیا کرتے تھے‘پھرجعلی دستاویزات تیار کرنے کے دھندے میں لگ گئے اور جب کبھی کڑکی کے دن آتے تو چاقو لیکر نیویارک کی گلیوں میں لوگوں کو لوٹنے جیسا کارخیربھی انجام دے لیتے ‘پکڑے گئے تو عمر بھر کی پابندی لگا کر امریکیوں نے واپس بجھوادیا اب یہاں نہ صرف معتبربنے بیٹھے ہیں ایک اشاعتی ادارہ چلارہے ہیں جوئے‘شراب کی لت نے ابھی تک جان نہیں چھوڑی کہ ’چھٹتی نہیں ہے کافرمنہ کو لگی ہوئی‘مشرف کے دورمیں مشرف کے ”ایونٹ منیجر“اور زرداری کے دورمیں زرداری صاحب کے” ایونٹ منیجر“بنے رہے میاں نوازشریف کے ساتھ مشرف دور میں دشمنی پال لی اب لاکھ مافیاں مانگنے پر بھی معافی نہیں مل رہی تو گھسیانی بلی کھمبا انوچ رہی ہے‘نوازشریف صاحب کے سیکرٹری ڈاکٹرآصف کرمانی نے غلطی سے ایک بار میرانمبرملادیا اور لگے ”صاحب بہادر“کو صلوتیں سنانے تو میں نے عرض کیا حضور والا آپ نے میرا نمبرملادیا ہے او ر جس خبرکا ذکر آپ کررہے ہیں اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں کہنے لگے تمہیں پتہ ہے پنجاب ہاؤس کے باہرآکر گھنٹوں بیٹھا رہتا ہے کہ کوئی اندرلے جاکر معافی دلوادے ‘میں نے عرض کیا جناب یہ بڑے لوگوں کے معاملات ہیں میں تو ایک معمولی ورکنگ جرنلسٹ ہوں ‘آپ جانے اور وہ جانیں میرا کیا تعلق ‘۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :