ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں

ہفتہ 10 جنوری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کچھ عرصہ قبل ایک نہایت ہی حلیم الطبع‘تعلیم یافتہ ‘ شفیق سے عالم دین سے گپ شپ ہورہی تھی ‘ ہم نے عرض کیا کہ عرصہ سے امریکہ اوراس کے حواری پاکستان کے دینی مدارس کے متعلق شرانگیز پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ یہاں تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ شرانگیزی ‘ دہشتگردی سکھائی اورجہاد کی تعلیم دی جاتی ہے ‘آخر پاکستان کا مذہبی طبقہ اور خاص طورپر بڑے بڑے دینی مدارس نے اس بارے میں کیا لائحہ عمل تیارکیا؟ جواب میں وہ نہایت ہی شفیق مسکراہٹ چہرے پرلاتے ہوئے بولے ”کیاکریں کہ ان کے پاس وسائل بہت ہیں اورہم ان کامقابلہ نہیں کرسکتے“ ہمیں ان کے جواب پربڑی حیرت ہوئی‘ صرف اتنا عرض کیا ” حضور!یہ الفاظ تو ہمیں مسلمانوں کے کسی دور میں بھی کسی صحابی‘ کسی خلیفہ حتیٰ کہ رسول خداﷺ کے دور میں بھی سننے کونہیں ملے۔

(جاری ہے)

بلکہ تاریخ تو بتاتی ہے کہ جب میدان جنگ میں کسی صحابی کی تلوار ٹوٹی تو رسول خدا نے کھجورکی خشک ٹہنی اسے دیدی کہ اس کے ساتھ لڑو اورپھر چشم فلک نے دیکھا کہ وہ جنگ اصحاب رسول نے جیت لی۔ ہم نے عرض کی محترم اللہ کی مدد تو تبھی ہی اترتی ہے جب ہم خود بھی کچھ کرنے کی جرات رکھتے ہوں گھر بیٹھے محض یہ امید رکھنا کہ اللہ کی مدد آن پہنچے گی وہ جیسا کہ ایک شعر ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہماری اس بات پرانہوں نے بہت ہی برا منایا اورپھر یہ کہہ کراٹھ کر چلے گئے کہ مجھے فرصت نہیں ہے۔

ان واقعات کو لکھنے کامقصد محض اتنا ہے کہ ہمارے اسلاف کی تاریخ تو ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے کہ انہوں نے جدوجہد کی ‘ دینی علوم کے ساتھ ساتھ وقت کے اہم ترین علوم پربھی ان کی دسترس رہی‘سائنس کی بے شمارایجادات مسلمانوں کی رہین منت ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج مسلمان اس میدان میں آگے نہیں آسکے؟ جواب سیدھاسادھا ہے کہ جب سے ہم نے دین ودنیا کو الگ کردیا ‘ دینی معاملات میں الجھاؤ کی پالیسی پرگامزن ہوگئے اوردنیاداری میں پڑکر دینی تحقیقات کوبھی فراموش کرگئے۔

بلکہ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جو دوسرے ممالک کی بنی ہوئی اشیا کواستعمال کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ہم نے کبھی سوچنے کی زحمت تک نہیں کی کہ آخر چھوٹی چھوٹی اشیا جن کی تیاری میں بہت سا وقت لگتا ہے آخر کن مراحل سے گزرکرہم تک پہنچتی ہے ‘ ہمیں نے تو محض ”میڈان“ کی مہر اورآگے اپنی پسند کے ملک کانام دیکھ کر فوراً سے پہلے خریدنے کوترجیح دیتے ہیں۔


دور کیوں جائیں اپنے پڑوسی ملک بھارت کو ہی دیکھ لیں‘یہ سیکولر سٹیٹ بھی ہمارے ساتھ آزاد دنیا کے نقشے پرطلوع ہوئی۔لیکن اسکی ترقی کاموازنہ اگر اپنے ہاں کی کرپشن سے کریں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوپاتا کہ ابتدائی دور میں گھٹن زدہ‘ چھوٹی سی مگراپنے ملک میں تیار ہونیوالی کاروں میں سفر کرنے والے بھارتی وزرا کویہی درس دیاگیا کہ ہم نے خود انحصاری کی پالیسی اپناناہے اورآج ٹاٹااورماروتی دنیا کی بہترین کمپنیوں میں شمار ہوتی ہیں۔

یہ حال صرف ایک شعبے کانہیں‘ کاسمیٹکس کا میدان ہو یا ٹیکنالوجی کاشعبہ ‘ بھارت ہرشعبہ میں تحقیقات کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے دوسری جانب ہم ہیں کہ ہم نے اپنے زوربازو پر ایٹم بم توبنالیا لیکن سوئی نہیں بناسکے شاید یہی وجہ ہے کہ توانائی کااژدھا مسلسل ہمارا پیچھا کررہاہے ۔ ہمارے سائنسی ‘ایٹمی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو خدا وند قدوس نے بے بہا نعمتوں سے منورکیا ہے اگر صرف ایک کوئلے کوہی استعمال کرلیاجائے تواس سے توانائی کابحران آئندہ کئی سالوں تک ختم ہوسکتا ہے اسی طرح بلوچستان کے وہ ذخائرجنکا ٹھیکہ ہم ٹکوں کے بھاؤ غیرملکی کمپنیوں کودے چکے ہیں آخرہم خود کیوں نہیں نکالنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

چلومان لیا کہ ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہیں لیکن کیا پاکستان کی مائیں ایسے بچے پیدانہیں کرسکتیں جن کاذہن ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے نہ ہو۔ محض ایک چھوٹی سی ارفع کریم نے یہ تو دکھادیاہے کہ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن ہم کچھ کرنا نہیں چاہتے ۔ ورنہ اگر ارفع پاکستان کاروشن چہرہ ہوسکتی ہے توکئی چھوٹے مگر باصلاحیت بچے اب بھی اس دھرتی پر‘ عالم اسلام میں موجود ہیں لیکن جیسا کہ ابتدائی میسج کاحوالہ دیا ہے کہ ہم دشمن کامقابلہ کرنے کی بجائے اسکی مو ت کیلئے دعائیں مانگتے ہیں اورجب دعائیں قبول نہیں ہوتیں توہم سوچتے ہیں کہ شاید ہمارا رب بھی ہماری نجات نہیں چاہتا حالانکہ ایسا نہیں ہے جب ہم جدید ترین تعلیم سے مستفید ہی نہیں ہونا چاہتے ہوں ‘ دین کو دنیا سے بالکل الگ کرکے محض یہی سمجھتے ہوں کہ محض عبادات کانام ہی دین ہے تو ہمارا حشر یہی ہوگا ۔

کیونکہ دین بھی تحقیق کی دعوت دیتاہے ‘لیکن ہم ہیں کہ شیرون جیسے مسلمانوں کے قاتل کی بابت میسج ملنے پرخوشی سے دوسروں کوبتاتے ہیں دیکھا کہ مسلمانوں کے قاتل کا حشر کیساہورہاہے؟ لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ دنیا اگرظلم پرتلی ہوئی ہے تو کیا ہم محض ظلم سہہ کراپنے ”فرائض“ پورے کررہے ہیں
حضرت علی المرتضیٰ  کا فرمان ہے بھی ظلم سہنا بھی ظلم کے متراد ف ہے
آخری بات:دینی معاملات میں لاعلمی کے باعث کوئی اگر ایسے گناہ کامرتکب ہوتارہے جس کی ظاہراًاتنی اہمیت نہیں تو اتنا گناہگار نہیں ٹھہراجاسکتا جبکہ اگر کسی شخص کواس گناہ کے مضمرات کے ضمن میں علم ہویا اسے بتایاگیا ہو ‘ یابتایاجارہاہو اس کے باوجود وہ اپنی ”ضد “ پرڈٹا رہے تو وہ دوگنا گناہگار قرار دیاجاسکتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :