قاری کی بدکاری

جمعرات 8 جنوری 2015

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

انسان اور شیطان کی جنگ روز ازل سے ہی جاری ہے جو کہ ابد تک رہیگی۔ اس معرکہ میں جو شخص قوت ایمانی کے ساتھ خدا کے نازل کیے گئے ”قانون“ پر عمل درآمد کرکے نیکی کے راستے پر ڈٹا رہا اور اپنی تمام خواہشات نفس کو خدا کے قانون کے سپرد کرتا رہا ، وہ تو دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ٹھہرا لیکن جس نے اپنی خواہشات کوشیطان کے سپرد کر کے اپنے اندر شیطانی صفات پیدا کر لیں، وہ دنیا میں بھی ملعون ہوگا اور آخرت میں بھی نبی کریمﷺ کی شفاعت اور اللہ تعالی کی رحمت سے محروم ہوگا۔


انسان اپنی چھوٹی چھوٹی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنی قوت ایمانی کو کمزور کرتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ قوت نا پید ہو جاتی ہے اور انسانی جسم و روح سے سر زد ہونے والے گناہوں کے آگے ڈھال نہیں بن سکتی، نتجتا انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ کوئی صغیرہ و کبیرہ گناہ ایسے شخص کے لیے گناہ رہتا ہی نہیں۔

(جاری ہے)

اس کے احساسات معدوم اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔
حسب معمول چند روز قبل بھی بچوں کے ساتھ بدفعلی کے کچھ نئے واقعات کا میڈیا پر پرچار ہوتا رہا جن میں مزنگ کے علاقہ سے دو بچوں سے بد فعلی کے بعد ان کی نعشوں کا گندے نالے سے ملنا اور گرین ٹاؤن لاہور سے معین نامی 6سال کی عمر کے کم سن بچے کے ساتھ اسی کے استاد کے ہاتھوں بد فعلی جیسا مکروہ کام انجام پانا اور پھرمسجد کی سیڑھیوں سے لٹکا کر بچے کو پھانسی دینا شامل ہے۔

ان خبروں کا سننا تھا کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میرے جسم سے کچھ جان نکل گئی ہو اور میرے اعصاب شیل ہو گئے ہوں۔ مجھے اپنے آپ کو سنبھالنے میں کچھ وقت لگا۔ ایسے درندہ صفت انسان کو اپنے دل اور زبان سے لعن طعن کی۔ میں چونکہ اس وقت شادی کی ایک تقریب میں تھا اس لیے اس موضوع پر کچھ بھی لکھنے سے قاصر رہا۔ دوسری جانب میرے دوسرے کالم نگار ساتھیوں اور میڈیا کے اینکرز نے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہا۔

میں سمجھتا تھا کہ اب مجھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
کل میں جونہی فیس بک پر لاگ اِن ہوا، ایک دوست کی طرف سے شیئر کی گئیں معصوم معین کی تصاویر دیکھنے کو ملیں۔ سیڑھیوں پر رسیوں میں جکڑا ہوا عریاں بچہ، ایک پاؤں میں جراب جبکہ دوسرا پاؤں ننگا۔ جسم پر صرف ایک گرم جرسی تھی جبکہ ناف سے لے کر پاؤں تک تمام جسم عریاں۔ پھندے سے جھولنے والے اس بچے کو اس کی ماں نے کتنے ناز کے ساتھ ناشتہ کروا کر علی الصبح قرآن پاک کی تلاوت سیکھنے کے لیے مسجد کے قاری کے پاس بھیجا ہوگا اور اسے کیا معلوم کہ آج اس کا بیٹا اپنی تمام تر شرارتوں اور خوبصورت مسکراہٹوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہ کر اس منزل کا راہی بن جائے گا جہاں سے آج تک کوئی لوٹ کر نہیں آیا۔


میرا اس بچے کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہیں ہے لیکن تصاویر دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے میں آج کافی مر گیا ہوں۔ میری آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے اور دل میں وہی جذبات تھے جو غازی علم دین شہید کے دل میں راج پال لعنتی کے لیے ہوں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس ماں کا کلیجہ کیوں نہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہوگا جس نے اس فرشتے کو 9ماہ تک اپنی کوکھ میں رکھا۔

اس باپ کا دل کیوں نہ پھٹ گیا ہوگا جو اپنے اس ننھے معصوم کی کفالت کا فریضہ انجام دیتا رہا اور اپنی پدرانہ شفقت و محبت اس پر نچھاور کر کے اس کے نخرے برداشت کرتا رہا ہوگا اور اس کی نت نئی فرمائشوں کی تکمیل کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہوگا۔
کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اغلام بازی کی یہ بری خصلت حضرت لوط  کی قوم میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

جب ان کی بستی میں کچھ فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں مہمان بن کر ٹھہرے تو اس قوم نے حضرت لوط سے ڈیمانڈ کی کہ ان لڑکوں کو ان کے حوالے کیا جائے تا کہ وہ اپنی شیطانی ہوس کی آگ ٹھنڈی کریں۔ لیکن اللہ نے ان کو ایسا کرنے کی توفیق نہ دی اور ان پر یہ حقیقت واضح کر دی کہ وہ لڑکے دراصل فرشتے تھے۔آج میری نظروں میں ننھا معین بھی با لکل ایسا ہی ایک فرشتہ ہے، نہایت پاک اور گناہوں سے مبرّا، اور وہ درندہ صفت انسان با لکل ایک شیطان جس نے فرشتے کو بھی نہ بخشا اور اپنا منہ کالا کیا۔


انسانی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جن میں شیطانی صفت استادوں نے اپنے ہی شاگردوں کے ساتھ بد فعلی کی، ان میں مسجدوں اور مدرسوں کے قاری صاحبان صف اول میں ہیں۔ یہاں میری مراد تمام قاری صاحبان نہیں ہیں ۔آج بھی بے شمار ایسے قاری صاحبان اور علماء موجود ہیں جنہوں نے صاف سلیٹ جیسے ذہن رکھنے والے بچوں کو عالِم و فاضل بنا کر معاشرے کا بھلا کیا۔


استاد اور شاگرد کا رشتہ بہت مقدس ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مقد س ر شتے پر آنچ نہ آنے پائے لیکن نجانے کیوں انسان اتنا کمزور ہو جا تا ہے کہ وہ اللہ ہی کے گھر میں قرآن و حدیث جیسی عظیم کتب کے حصار میں رہتے ہوئے ایسی قبیح حرکات کر ڈالتا ہے کہ سننے والے شرم و حیا سے پانی پانی ہو جاتے ہیں ۔ میرے نزدیک ایسے جرائم کے روز افزوں بڑھنے کی وجو ہات درج ذیل ہو سکتی ہیں ۔


1 -کچھ نااہل قسم کے قاری حضرات جو باقاعدہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے ، گلی محلوں کی مساجد اور چھوٹی چھوٹی درسگاہوں میں سر چھپالیتے ہیں اور اپنی جہالت کی وجہ سے ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
2 - بعض ایسے قاری حضرات بھی موجود ہیں جن سے بچوں کو سخت سزائیں دینے سے متعلق دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے اساتذہ بھی ہمیں اسی طرز و طریق پر پڑھاتے آئے ہیں ۔

ہو سکتا ہے کہ ایسے قارئیوں کے ساتھ ان کے استادوں نے بھی گھناؤنا کھیل کھیلا ہو جس کی یہ لوگ تقلید کر رہے ہیں ۔
3 - ایسے کرائم و جرائم کی ایک وجہ مسجد و مدرسہ انتظامیہ کی غفلت اور بے اعتنائی ہے جو ایسے لوگوں کے کردار پر اندھا اعتماد کر کے انہیں وقتاً فوقتاً چیک نہیں کرتی ۔
4 - آج کل کے دور میں موبائل فون کا بے دریغ استعمال ، گانوں کا لوڈ کروانا اور فحش فلموں کا دیکھنا ایک عام سی بات بن چکی ہے جو دراصل ایک جرم ہے ۔

ماضی بعید میں میں نے بذات ِ خود ایک قاری صاحب کو خفیہ انداز میں ٹیپ ریکارڈ رپر گانے سنتے ہوئے دیکھا ہے ۔
5 - بعض قاری صاحبان ” خلوت میں وہ مَے خوار ہے جلوت میں نمازی “ کے مصداق ہوتے ہیں ۔ زمانے کی نظروں میں پاکیزہ و ارفع مقام رکھنے والے بالآ خر اپنی حرکتوں کی وجہ سے اپنے اندر کا خبیث انسان معاشرے کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں ۔

معاشرے کو پندو و عظ کرنے والے ایسے نام نہاد قاری شراب چرس اور شیشہ پیتے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں ۔
6 - بعض درندہ صفت کنوارے ایسے قاری جنہوں نے اپنے استادوں کے خوف کی وجہ سے اپنی جنسی خواہشات کو ایک عرصہ تک دبا کر رکھا ہوتا ہے ، جب وہ خود استاد کے مقام پر پہنچتے ہیں تو چونکہ آزاد ہوتے ہیں، لہذا ایسی درندگی کی اوج تک جا پہنچتے ہیں ۔
اس ضمن میں حکومتی اراکین اور عوام کو درج ذیل تدابیر اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔


1 - تمام مساجد اور مدرسوں کو رجسٹر ڈ کیا جائے اور ان کے تدریسی سٹاف کو باقاعدہ انٹرویو اور ٹیسٹ کے مراحل سے گزار کر منتخب کیا جائے ۔ علماء بالخصوص قاری صاحبان اچھے اچھے اداروں سے باقاعدہ تعلیم و تربیت یافتہ ہوں ۔
2 - صرف ماتھے کے محراب اور داڑھی شریف کو ہی شرافت و کردار ِ حسنہ کا سرٹیفکیٹ سمجھ کر آنکھیں بند نہ کر لی جائیں بلکہ انتظامیہ و والدین کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں سے اِن استادوں کے کردار اور رویوں کے متعلق جانکاری حاصل کرتے رہیں ۔


3 - مسجد و مدرسہ انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہونی چاہیئے کہ وہ وقتاً فوقتاً قاری صاحب کا موبائل فون بھی چیک کرے اور اس کے رہائشی کمرے کی خفیہ چیکنگ بھی ہوتی رہے ۔
4 - مسجد و مدرسہ میں صرف شادی شدہ اور پختہ ذہن قاری حضرات ہی متعین کیے جائیں ۔ ان حضرات کا سابقہ ریکارڈ جاننے کی بھی اشد
ضرورت ہے ۔
5 - قاری حضرات کو یہ بالکل اجازت نہ ہو کہ وہ کسی بھی بچے کو علیحدگی میں مِل سکیں ۔

اسے اپنے کمرے میں لے جا سکیں یا اُس سے ذاتی خدمت کروا سکیں مثلاً سر کی مالش کروانااور مُٹھیاں بھروانا ۔
6 - تمام بچوں کو ایک ہی وقت میں اکٹھے پڑھایا جائے اور بیک وقت سب کو چھٹی ہو ۔ کسی بچے کو سبق یاد نہ ہونے کے بہانہ سے زائد وقت ٹھہرانے کی اجازت نہ ہو ۔
7 - حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے اور مختلف سیمینار کاا نعقاد کر کے بچوں اور ان کے والدین کو جنسی تشدد سے اچھی طرح آگاہ کرے اور بچوں میں یہ جرأت پیدا کرے کہ ایسے نا سُوروں کے پہلی بار چھونے پر ہی اپنے والدین کو کھل کر بتائیں نہ کہ خاموش اور دبے رہیں ۔

اس سلسلے میں چھوٹے چھوٹے کلپ بنا کر ٹی ۔وی پر چلائے جائیں ۔
ضرورت ا س امر کی ہے کہ اراکین ِحکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اغلام بازی کے ارتکاب کرنے والے قاریوں کو سرِ عا م پھانسی کے پھندے پر لٹکائیں کیونکہ ان کو خفیہ طور پر پھانسی دینا بھی ایک خفیف انصاف ہو گا ۔ معین جیسے نجانے کتنے معین ہوں گے جن کو ان درندوں نے موت کی بھینٹ چڑھا دیا ہو گا ۔ انسانی قلبوت میں پوشیدہ ایسے شیطانوں کو سرِ عام پھانسی دینے سے ہی ان جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے اور غم کی وجہ سے نڈھال ، نیم مردہ والدین کے زخمیوں پر کچھ مرہم رکھا جا سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :