جمہوریت کی بحالی تک…؟

جمعرات 8 جنوری 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

شمالی وزیرستان کے علاقے وتہ خیل میں عید میلاد النبی کے روز نئے سال کا پہلا ڈرون حملہ کیا گیا جس میں سات عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں پانچ شدت پسندوں کے زخمی ہونے کی اطلاع بھی ہے۔ اس حملے میں حافظ گل بہادر اور ازبک کمانڈر عثمان خان کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا اور چار میزائل داغے گئے۔موصولہ اطلاعات کے مطابق اس ڈرون حملے میں بے شک سات عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں جن میں ازبک باشندے بھی شامل ہیں تاہم اس وقت جبکہ ہماری سکیورٹی فورسز خود پوری شدت کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف اپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں نمایاں کامیابیاں بھی حاصل ہو رہی ہیں اور اس وقت پوری قوم اور تمام قومی سیاسی، دینی قیادتیں اس اپریشن کے لئے افواج پاکستان کے ساتھ یکجہت ہیں جس کے باعث عسکری قیادتیں بھی اس اپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پْرعزم ہیں تو اس صورت حال میں بادی النظر میں ملک کی سرزمین پر غیر ملکی ڈرون حملے کا کوئی جواز نہیں بنتا جبکہ یہ حملے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کو چیلنج کرنے کے مترادف ہیں۔

(جاری ہے)

فوج نے 15 جون 2014ء کو ضرب عضب کا آغاز کیا تو دہشت گردوں کے منصوبے چوپٹ ہو گئے۔ انکی طاقت اور تکبر خاک میں مل گیا۔ یہ اپنے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان سے فرار ہو گئے‘ انکی اسلحہ ساز فیکٹریاں تباہ کر دی گئیں‘ کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم نیست و نابود کرکے رکھ دیا گیا۔ پہلے کی طرح دہشت گردی میں یہ لوگ بے بس ہو گئے تو انہوں نے سکول کے بچوں کو آسان ٹارگٹ سمجھ کر بربریت و سفاکیت کی نئی مثال قائم کر دی۔

سینکڑوں بچوں کو بے دردی سے شہید کر دیا جس کے بعد سیاسی قیادت کو فوج کے ساتھ شانہ بشانہ ہونا پڑا۔ آج دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے فوج‘ حکومت اور عوام یکسو ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اسی وقوعہ کے روز دہشت گردوں کی سزائے موت پر عائد پابندی ختم کر دی۔ ایک ایکشن پلان کا اعلان کیا جس پر تمام سیاسی قیادت متحد اور متفق ہو گئی۔ اس ایکشن پلان پر ایک آدھ روز میں عمل شروع ہو جائیگا جس سے دہشت گردوں کے خاتمہ کی منزل مزید قریب آجائیگی۔

آج دہشت گردوں اور دہشت گردی کا قلع قمع فوج‘ حکومت اور قوم کا نصب العین ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ جیتنے کیلئے پوری قوم کو کردار ادا کرنا ہوگا اس کیلئے فوج اور حکومت کو ان لوگوں کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا جو دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آج بھی دہشت گردوں کے سہولت کار اور حمایتی اسی سرزمین پر دندناتے پھرتے ہیں۔

ان میں کئی علماء ہیں اور کئی نے صحافت کا لباس لبادہ اڑھ رکھا ہے۔ ان پر ابھی تک تو ہاتھ نہیں ڈالا گیا شاید ایکشن پلان کی منظوری کا انتظار ہے۔ لال مسجد فیم مولانا عبدالعزیز کے گمراہ کن نظریات سامنے آچکے ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ طالبان کے پاس 600 خودکش بمبار لڑکیاں موجود ہیں‘ ان پر ایف آئی آر درج ہو چکی‘ نہ جانے حکومت کیلئے ان کو پس زنداں ڈالنے میں کیا امر مانع ہے؟اگر امریکہ کے پاس متذکرہ عسکریت پسندوں کے بارے میں اطلاعات موجود تھیں تو پاکستان امریکہ انٹیلی جنس شیئرنگ کے معاہدے کے تحت یہ اطلاعات پاکستان کو فراہم کر دی جاتیں جس کی بنیاد پر ہماری سکیورٹی فورسز خود ان کے خلاف کارروائی کرتیں جیسا کہ پہلے بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ہماری سکیورٹی فورسز کا اپریشن جاری ہے۔

یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ اس ڈرون حملے پر ہمارے دفترِ خارجہ کی جانب سے رسمی احتجاج کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ ڈرون حملہ پاکستان کی رضامندی اور اجازت سے کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر قوم کو اندھیرے میں کیوں رکھا جا رہا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ موجودہ صورت حال میں امریکہ کو سخت پیغام دیا جائے کہ وہ ہماری خود مختاری کے منافی ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کر دے اور ہمارے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کر کے دہشت گردی کے خاتمہ میں معاون بنے۔

ملک میں پھیلی بدامنی اور لاقانونیت میں ایک حصہ افغان مہاجرین کا بھی ہے‘ دہشت گردی میں بھی یہ لوگ کسی حد تک ملوث پائے گئے ہیں۔ انکے کیمپوں اور بستیوں میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ انہی کے بھیس میں پاکستان میں کارروائیاں کرکے دہشت گرد افغانستان فرار ہو جاتے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو انکے کیمپوں تک محدود کردینگے۔ آخر ہم ان مہاجرین کا کب تک بوجھ برداشت کرینگے جو ہمارے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ ان کو کیمپوں تک محدود نہ کریں‘ ان کو سرحد پار انکے ملک میں بھجوا دیں جہاں آج امن بحال ہو چکا ہے۔ وہاں افغانوں کی جمہوری حکومت قائم ہو چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :