نریندر مودی اور ٹوائلٹ سروے

جمعرات 8 جنوری 2015

Qaiser Awan

قیصر اعوان

اپنی آنکھیں بند کرکیکچھ لمحوں کے لیے تصور کریں کہ آپ کسی پبلک واش روم میں بیٹھے ہیں، اپنی ”مجبوری“ سے فارغ ہو کر جیسے ہی آپ دروازہ کھول کر باہر نکلتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ ہاتھ میں سمارٹ فون تھامے ایک شخص تیزی سے آپکی جانب بڑھتا ہے، اور آپ اُسے اپنی ہی طرح ”مجبور“ سمجھتے ہوئے فوراََ اُس کے لیے راستہ چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ کچھ لمحے پہلے آپ بھی اِسی کرب سے گزر رہے تھے اور اندر بیٹھا شخص باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

مگر وہ شخص بجائے واش روم میں جانے کے آپ کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور نہایت ادب سے پوچھتا ہے،
سَر، آپ کا نام؟
آپ حیرت سے اُسکی طرف دیکھتے ہیں، آپ اُسے بالکل بھی نہیں جانتے اور یقینا وہ بھی آپ سے ہر گز واقف نہیں ہے ورنہ یوں آپ سے آپ کا نام نہ پوچھتا ۔

(جاری ہے)


جی ۔۔۔؟
سَر میں نے پوچھا، آپ کا نام؟ وہ اپنا سوال دہراتا ہے۔
ارسلان۔

۔۔خیریت؟
وہ آپ کا جواب سنتے ہی تیزی سے اپنے سمارٹ فون پر کچھ ٹائپ کرتا ہے اور آپ حیرانگی اور پریشانی کی مِلی جُلی کیفیت میں اُس کی طرف دیکھتے ہیں۔
”آپ ایک دن میں کتنی مرتبہ ٹوائلٹ جاتے ہیں؟“
آپ ایک کھسیانی سی مسکراہٹ چہرے پر لائے بیچارگی سے اِدھر اُدھرکھڑے اُن لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جو آپکی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں، شاید آپ کے پاس اِس سوال کا جواب نہیں ہے یا آپ دینا نہیں چاہتے یا ہو سکتا ہے کہ آپ ابھی تک اِس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے۔


”حسبِ ضرورت؟“ انٹرویو لینے والا خود ہی آپ کے سوال کا جواب دے کر آپ کی مشکل آسان کر دیتا ہے اور آپ تیزی سے اثبات میں سر ہلا دیتے ہیں، اور وہ دوبارہ اپنے سمارٹ فون پر کچھ ٹائپ کرتا ہے۔
”آپ رفع حاجت کے لیے ہمیشہ ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں یا کھلی فضا میں جانازیادہ پسند ہے آپ کو؟“
اور ساتھ ہی آپ کے اِردگرد کھڑے لوگوں کے زوردار قہقہے بلند ہوتے ہیں اور آپ سکتے میں آ جاتے ہیں ۔

یہ وہ سوال ہے جس کے پوچھنے کی توقع آپ بھرے مجمعے میں ہر گز نہیں کر سکتے، آپ یہ شرمندگی قطعاََبرداشت نہیں کر سکتے، قریب ہے کہ آپ ایسا بیہودہ سوال پوچھنے والے شخص کا منہ نوچ لیں، میرے خیال میں یہاں منہ توڑنے کے الفاظ کااستعمال کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔
اگر آپ کے لیے بھی یہ منظر ناقابلِ قبول اور باعثِ شرم ہے تو خدا کا شکرادا کریں کہ تقسیمِ ہندوستان کے وقت آپ کے بزرگوں نے پاکستان کا انتخاب کیا، خدانخواستہ اگرانڈیا منتخب کیا ہوتاتو آپ کو بھی ایک نا ایک دن اس اذیت ناک کیفیت سے ضرور گزرنا پڑتاجہاں کے وزیرِاعظم جناب نریندر مُودی نے حکم جاری کیا ہے کہ گلی گلی ، گھر گھر جا کر سروے کیا جائے اور سمارٹ فون، ٹیبلٹ یا آئی پیڈ کے ذریعے انہیں باخبربھی رکھا جائے کہ کتنے لوگ ٹوائلٹ کا استعمال کررہے ہیں اور کتنے نہیں۔

دراصل یہ اُن کی حال ہی میں شروع کردہ ”صاف بھارت مہم “ کا حصہ ہے، انکی حکومت نے پچھلے تین ماہ میں پانچ لاکھ ٹوائلٹ لوگوں میں تقسیم کیے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ صاف ستھری جگہوں کو اپنی ”مجبوری“ کی بھینٹ چڑھا کرماحول کو آلودہ کرنے کی بجائے اس نعمت سے فائدہ اُٹھا سکیں، میں اُن کی اس سوچ کا معترف ہوں مگرنتائج جاننے کے لیے سروے اورسمارٹ ڈیوائسز کا استعمال ذرا منفرد قسم کا آئیڈیا معلوم ہوتاہے اور یقینا ایسا آئیڈیا صرف انڈیا کے وزیرِ اعظم کے دماغ میں ہی آسکتا ہے۔


ابھی کچھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ میری میرے ایک دوست کے ساتھ سمارٹ فون میں آنے والی روز بروز کی جدّت اور اس کے بڑھتے ہوئے استعمال پر گفتگو ہو رہی تھی، میرے دوست کا اصرار تھا کہ اگر زمانہ اسی تیزی سے ترقی سے کرتا رہا تو بہت جلد مارکیٹ میں ایک ایسا سمارٹ فون دستیاب ہو گاجس میں 500 Mega Pixal کیمرہ کے ساتھ ساتھ فریج، واشنگ مشین، مائیکرو ویو اوون اور جُوسر وغیرہ بھی موجودہوں گے، مگر یہ کہ سمارٹ فون کسی کے واش روم تک بھی پہنچ جائے گا یہ شاید اُس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا۔


اب نریندر مودی بیچارے بھی کیا کریں، بھارت میں بسنے والے تقریباََ 594ملین لوگ، جو کہ بھارت کی کُل آبادی کا قریباََ نصف بنتے ہیں، ہر میدان، ہر پارک، ہر خالی جگہ کو ٹوائلٹ کی نظر سے ہی دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں ۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ ایسا غربت کی وجہ سے ہے، بیچارے غریب لوگ ٹوائلٹ بنوانے کا خرچہ ہی برداشت نہیں کر سکتے ہوں گے مگرمیرا خیال کافی حد تک غلط تھا، جب بھارت میں رہنے والے ایک شخص جن کے گھر پر حال ہی میں مُودی سرکار نے سرکاری خرچ پر واش روم تعمیر کروایا تھا تاکہ گھر والوں کو رفع حاجت کے لیے باہر نہ جانا پڑے، سے کسی نے پو چھا کہ
” آپ کے گھر میں واش روم بننے سے آپ کو فائدہ تو بہت ہوا ہو گا؟“
تو اُن صاحب نے نہایت تشکر سے جواب دیا کہ ”جی بالکل ، پہلے ہمارے گھر کا اکثر سامان گھر چھوٹا ہونے کے باعث باہرصحن میں ہی پڑا رہتا تھا اور بارش وغیرہ میں خراب ہوتا رہتا تھا، مگر اب حکومت نے ہمیں جو یہ واش روم بنوا کر دیا ہے اُسی میں رکھ دیتے ہیں، میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ مُودی غریبوں کے لیے ضرور کچھ کرے گا۔


”تو کیا آپ واش روم کو سٹور کے طور پر استعمال کررہے ہیں؟ “ پوچھنے والے نے حیرت سے پوچھا اور اُن صاحب نے بغیر کسی توقف کے ہاں میں سر ہلا دیا۔
”کیا آپ کو نہیں معلوم کہ مودی سرکار یہ واش روم اس لیے تعمیر کروا رہی ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے لوگوں کو رفع حاجت کے لیے باہر نہ جانا پڑے تاکہ بھارت کوایک گندگی سے پاک ملک بنایا جاسکے۔


”جی، لگتا ہے کہ دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کا بھی اور آپ کے نریندر مُودی کا بھی، آپ کیا کہتے ہیں کہہ ہم بھارت کو صاف کرنے کے چکر میں اپنے گھر میں ہی گند ڈالنا شروع کر دیں، بھلا آپ نے آج تک کسی کو اپنے گھر میں خود گند ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔“
”اور جو واش روم میں کموڈ لگایا گیا تھا، اُس کا کیا ہوا؟“
” اُس کا کیا کرنا تھا، اُتار کرکچن میں رکھ دیا ہے باقی برتنوں کے ساتھ،“ اُن صاحب نے نہایت ہی معصومیت سے جواب دیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :