درمیانی راستہ،امن کا راستہ

منگل 6 جنوری 2015

Zahid Raza Chaudhry

زاہد رضا چوہدری

خدا نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو سب سے زیادہ عقل دی ہے۔اس لئے اسے اشرف المخلوقات بھی کہا جاتا ہے۔اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی عقل کو کس درجہ استعمال کرتا ہے ۔انسان دنیا میں اکیلے جینے کیلئے نہیں آیا بلکہ اسے دوسرے تمام انسانوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہوتی ہے۔ اب کامیاب اور عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے راستے میں حائل سماجی رکاوٹوں سے اپنا راستہ ہموار کرتا ہوا آگے بڑھے نہ کہ ان رکاوٹوں میں ہی اُلجھتا رہے،،، زندگی چونکہ ایک بہاوٴ کا نام ہے لہذا اس بہاوٴ کے ساتھ چلتے رہیں تو زندگی بصورت دیگر جمود یا پھر موت۔

!!!!!!!! دنیا میں انسان اپنی مرضی سے آیا نہ اپنی مرضی سے جائے گا اور نہ ہی درمیان کا حصہ اپنی مرضی سے جئے گا۔لہذا، زندگی گزارنے کیلئے اُسے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی بحر حال اپنا نی پڑے گی۔

(جاری ہے)

۔
کپڑے کی دکان پر ایک شخص کپڑا خریدنے کی غرض سے آیا، ،،،کپڑا اس نے پسند کر لیا ،،،،مگر کپڑے کی قیمت پر بہت دیر تک دکاندار اور گاہک میں تکرار چلتی رہی،،،،نہ دکاندار کم کرنے پر رازی تھا نہ خردار قیمت بڑہانے پر۔

۔قصہ مختصر دکاندار نے گاہک کی حسب منشا قیمت پر کپڑا اسے دے دیا۔۔دکان پر بیٹھے ایک شخص نے یہ سارا ماجرا بغور دیکھنے کے بعد دکاندار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ، اگر گاہک کے حسب منشا قیمت پر ہی کپڑا دینا تھا تو اتنی تکرار کا فائدہ،،۔ دکاندار نے جواب دیا ، گاہک لگائی ہوئی قیمت پر فوری کپڑا دے دیتا تو وہ اپنی فطرت کے طور پر شک کرتا اور کپڑا لئے بغیر واپس چلا جاتا،اس لئے میں اُسے پکا کرتا رہااور اندازہ کرتا رہا کہ وہ کہاں تک جا سکتا ہے،،،،،جب میں نے محسوس کر لیا کہ گاہک اب اس سے آگے بڑہنے والا نہیں اور مجھے بھی اس قیمت پر دینے میں کوئی نقصان نہیں تو میں نے اُسے وہ کپڑا اسکی حسب منشا قیمت پر دے دیا۔

۔۔،،یعنی دو فریقین کے درمیان مقابلہ ہو تو فطرطا ہر فریق اپنی مرضی و منشا کے مطابق معاملات طے کرنا چاہتاہے۔ایسے موقع پر بالا شبہ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اپنی مانگ پر اصرار کیا جائے،،،، جبکہ عقل مندی کا دوسرلازمی امر یہ ہے کہ اپنی حدود کو بھی ساتھ ساتھ دیکھا جائے تاکہ کسی نقظے پر پہنچ کر کوئی نہ کوئی معاملا طے کر لیاجائے۔۔۔۔،،،اس اصول کو انگریزی میںadjustmentکہتے ہیں۔

۔adjustment زندگی کا ایک اہم راز ہے اور موجودہ دنیا میں یہ کامیابی کاپیمانہ ہے۔اس اصول کی اہمیت ذاتی بھی اور قومی بھی،جس میں صبراور برداشت ایک لازمی جُزو ہے ۔۔اس اُصول کے تحت انسان اپنے آپ کو جانتا ہے اور دوسروں کو پرکھتا ہے۔ اپنی تلخ باتیں دوسروں سے کرتا ہے اور دوسروں کی تنقید بڑے تحمل سے سُنتا ہے ، کیوں کہ موجودہ معاشرے میں وہی کامیاب ہے جو دو طرفہ تقاضوں کی رعایت کر سکے۔

اس کے برعکس جو شخص معاملات کا یک طرفہ حل چاہتا ہے یا ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے تو سوائے ناکامی کے کچھ نہیں حاصل نہیں کر پاتا۔۔۔۔،،
پاکستان میں بر سر اقتدار حکومتوں کا اپنی مخالف قوتوں کے ساتھ رویہ ہمیشہ سے جارحانہ رہا ہے ،،،حکومت حاصل کرنے والی ہر قوت نے اپنی مخالف قوت کو کچلنے کی روش ہمیشہ سے اپنائے رکھی،،،محض مخالفت برائے مخالفت کی یہ روش اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تاریخی ریت کی شکل اختیار کر چکی ہے اورطاقت وزور آزمائی کی یہ جنگ اب ہمارے ہاں اس قدرناسور بن چکی ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی باسی اس سے محفوظ نہیں ہے۔

حکومت ہو ،سیاست دان ہوں یا ادارے ،ہر جگہ مذاکرات یاایڈجسٹمینٹ کی بجائے جنگ کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔۔۔۔،،، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ساتھ حکومت کے جارحانہ رویے نے ملک میں بڑے بحران کو جنم دیا۔اس سے ملک کو جانی نقصان کے ساتھ ساتھ بھاری مالی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑا جس سے معیشت کو بُری طرح جھٹکا لگا۔۔۔ماضی میں پرویز مشرف کے عدلیہ کے ساتھ ٹکرواوٴ اور لال مسجد پر طاقت آزمائی نے بھی ملک کو جانی ومالی لحاظ سے ایک خطرناک کروٹ دی جسکا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔

۔یہ سارے معاملات ایک ایڈجسمینٹ کے تحت حل کیئے جاسکتے تھے،ان پرکچھ لے دے کی پالیسی اپنائی جا سکتی تھی، اسطرح سے حل کئے گئے معاملات میں یعقینا کچھ وقت ضرور درکار ہوتا ہے مگر ان کے نتیجے میں رونما ہونے والے اثرات دیرپا ضرور ہوتے ہیں۔۔۔۔ ہم چونکہ بے صبرے اور جلد باز قسم کے لوگ ہیں، برسوں کے اُلجھے معملات منٹوں میں حل کرنا چاہتے ہیں، اور کچھ حالت کے پیش نظرجنگی مزاج بھی ہماری گھٹی میں رچ بس گیا ہے اس لئے مذاکرات کی بجائے طاقت آزمائی کو ترجیح دیتے ہیں،جس کا اثر ملک پر پڑتا اور نقصان براہ راست عوام کا ہوتا ہے۔

۔۔۔طالبان کے ساتھ بھی ہمارے معاملات کا تناظر بھیconsistantly ایسا رہا ، بصورت دیگرحالات آج مختلف ہوتے۔طالبان چونکہ پاکستان کے اذلی دشمنوں کی پیداوار ہیں ،جس میں اکثریت ہمارے اپنے لوگوں کی ہے جنہیں اپنے ہی لوگوں کے خلاف کھڑا کیا گیا ہے جو باقائدہ ایک تھنک ٹینک کے زیر اثر کاروائیاں کرتے ہیں۔۔اب ایسی گھمبیر صورتحال کو ایک بڑے اور بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے کی بجائے ہمارا فوری رد عمل اسلام سے شروع ہو کرمدرسوں پر ختم ہوتا ہے جہاں سے پھر ہم اپنی نادانی سے اسلام کا ایک نیا امیج پوری دنیا کوofficaillyباآور کراتے ہیں ۔

۔اسطرح اگر کہا جائے کہ پاکستان میں بگڑتے حالات و واقعات میں ہمارا اپنا کردار بہت زیادہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ہم اپنے ہی لوگوں سے جنگ کرکے، اپنے ہی لوگوں کو کبھی فتح نہیں کر سکتے، کیونکہ اپنوں کی جنگ میں اپنا ہی مارتا ہے اور اپنا ہی مرتا ہے،پھر جیت صرف اذلی دشمن کی ہوتی ہے ،جبکہ اپنا چاہے محاذ کے اس طرف ہو یا اُس طرف ہمیشہ ہار اُسی کی ہوتی ہے۔۔لہذا خطے میں پاکستان کے دشمن کی طرف سے مسلط کردہ اس پراکسی وار کو سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے اندر کے معاملات طاقت آزمائی کی بجائے ایڈجسمینٹ کے اُصول کے تحت حل کرنے چاہیے کیوں کہ یہی ایک درمیانی راستہ امن کا راستہ ہے، بصورت دیگر بیرونی طاقتیں اپنے مفادات ہمیشہ ہمارے خون سے سینچتی رہیں گی۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :