ایک بھیانک سال، خدا کرئے آئندہ ایسا نہ ہو۔۔!

منگل 6 جنوری 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ویسے تو ہر برس پاکستانیوں کو کوئی اچھی خبر نہیں دے کر جاتا لیکن گزرا برس اپنی ہولناکی اور سفاکی میں گزشتہ 68برسوں سے اس لئے مختلف تھا کہ اس کے آخری مہینے میں ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس کی تاریخ کوئی نظیر پیش نہیں کرتی ، اپنی آنکھوں میں خواب سجائے کتابوں میں گم بچوں پر قیامت برپا کر دی گئی جو علم دشمنوں کا علم پر کاری وار تھا، اس ہولناک واقعے کے اثرات سے پاکستان کی عوام ابھی تک باہر نہیں آسکی بلکہ سیاسی و فوجی قیادت کو بھی ایک پیج پر آنا پڑا کہاں سیاسی قیادت دہشت گردوں سے مزکرات کی حامی اور مزاکرات کر رہی تھی اور کہاں اب وہ ان کی بیخ کنی کرنے کے درپے بلکہ ان کے ہمائتیوں اور وجوہات کو ختم کرنے کی جانب بھی پیش رفت دیکھنے کو مل رہی ہے بچوں کی قربانی کو رنگ لانا چاہیے اور اسے کسی صورت ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے فوج تو پہلے ہی حالت جنگ میں تھی لیکن اس واقعے کے بعد فوج کی ساری توجہ اب دہشت گردوں کے خاتمے کی طرف مبذول ہو چکی ہے اور اس وقت اگر پاکستان کا کوئی نمبر ون دشمن ہے تو وہ دہشت گرد ،ان کے ہمائتی ،اور انسانیت کو تقسیم کرنے والے گروہ اور ادارئے ہی ہیں جن کا خاتمہ اب ناگزیر ہو چکا ہے جس پر سول حکومت اور فوج متفق ہو چکی ہے ،گزشتہ برس کے دیگر واقعات میں ملک کی فضائیں خودکش حملوں اوردھماکوں سے گونجتی رہیں، بلکہ ایک وقت تو اوسطا ایک دن میں ایک دھماکا ہوا۔

(جاری ہے)

دہشت گردی ایک ایسے ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اعدادو شمار بتاتے ہیں 2013 میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات 355 تھے جبکہ یکم جنوری سے 30دسمبر 2014 تک ملک بھرمیں تقریبا 391 بم دھما کے ہوئے جن میں 837 افراد شہید اور 2 ہزارسے زائد زخمی ہوئے، نفرت ،تعصب اور جنون کی آگ میں انسان بھی جھلستے رہے اور انسانیت بھی جبکہ املاک کا تو حساب و شمار ہی کوئی نہیں۔

1979 کے بعد سے لگی مذہب کے نام پر اس آگ جس کا بانی ضیا الحق تھا نے سب کچھ ہی جلا کر رکھ دیا یہان تک کہ ہر پاکستانی دوسرے سے خوفزدہ رہنے لگا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کب اس کے ساتھ کیا ہو جائے اور کون کہاں مارا جائے، اغوا برائے تاوان ،بھتہ خوری کو طالبان نے کاروبار کی شکل دے دی اور بنک ڈکیتیوں کا عروج ہوا جبکہ منشیات اور اسلحے کی ترسیل پورئے ملک میں بلا روک ٹوک ہوتی رہی جس سے شہر بھی غیر محفوط ہوئے اور شہری بھی جبکہ منشیات نے گھروں کے اندر گھس کر انسانیت کو زلالت کے مقام پر لاکھڑا کیا ،لاقانونیت کا یہ عالم رہا کہ سنگین جرائم اور دہشت گردی میں ملوث مجرم عدالتوں سے بری ہوتے رہے دوسری جانب پولیو کی ٹیموں پر حملے معمول بن گئے جس کے نتیجے میں پاکستان دنیا بھر میں پولیو سے متاثرہ ملکوں میں پہلے نمبر پر آگیا اور پاکستانی شہریوں کا بیرون ملک کا سفر پولیو سر ٹیفکیٹ سے مشروط کر دیا گیا جبکہ شہر اور شہری بے امان ہو گئے یوں لگتا ہے جیسے قانون نام کی چیز کا وجود ہی کہیں نہیں حکومتی اداروں کی فعالیت نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے مہنگائی کا طوفان کون روکے، زخیرہ اندوزوں پر قابو کو ن پائے جیسے سوالوں کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں کوئی بھی ریاست اپنی رٹ کو قائم رکھے بنا مثالی ریاست نہیں کہلا سکتی ۔


دوسری جانب دھرنوں کا سیزن بھی عروج پر رہا جس نے قوم کو تین ماہ ہیجاں میں مبتلا کئے رکھا تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا مگر تبدیلی کا دور دور تک نام و نشان نہیں، جبکہ حکومت کی نااہلی بھی کھل کر سامنے آئی سانحہ پشاور جس میں بچوں کے ساتھ ہوئے سلوک کے بعد حکومت کو ہوش آیا کہ ہمیں دہشت گردی ،ریاست کے خلاف بر سرپیکار گروہوں، جتھوں فرقہ واریت کی آگ پھیلانے والوں اور مذہب کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں کے خلاف قومی ایکشن پلان بھی بنانا چاہیے، سترہ دسمبر سے تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہیں کہ قومی ایکشن پلان کیا ہونا چاہیے، خدا خدا کر کے اب کہیں جاکرکچھ امور طے پا چکے ہیں دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی کاروائیوں کو تحفظ دینے کے لئے 21 ویں آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2015 قومی اسمبلی میں پیش کردیئے گئے۔

امید ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک یہ ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہو چکی ہو گی اور یوں قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ان ترامیم سے مذہب یا فرقے کے نام پر دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کے ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکے گی۔ جبکہ وفاقی حکومت کی منظوری سے سول عدالتوں میں دہشت گردی کے زیر سماعت مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں منتقل کیے جا سکیں گے۔

یہی کام اگر جب دہشت گرد ہمارے گھر میں گھسے تھے اور ہمارے بچوں ،نوجوانوں ،عورتوں کو مار، سکولوں کو تباہ اور بچیوں کا سکولوں میں جانا عذاب جان بنا رہے تھے کر لیا جاتا تو پشاور جیسے سانحے سے بچا جا سکتا تھا اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پرائی جنگ کہنے میں میں وقت صرف کیا جاتا رہا ستر ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو مروانے اور کھربوں روپوں کی املاک کا نقصان ،دنیا بھر میں تماشہ بنوانے کے بعد جا کر ہوش آئی تو اب مذید دیر نہیں کرنی چاہے ۔


پشاورکے واقعے نے نہ صرف پوری قوم کو جھنجوڑ کر متحد کردیا ہے بلکہ پاکستان کو اس عفریت سے نجات دلانے کے لئے بھی اکٹھا کر دیا ہے امید کی جانی چاہیے کہ قومی قیادت قوم اور ملک کے وسیع تر مفاد میں نہ صرف فیصلے کرے گی بلکہ ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنانے کے لئے ہر وہ اقدام اٹھانے کی کوشش بھی کرئے گی جس سے پاکستان کا ہر شہری محفوظ و مامون زندگی ایک بہتر ماحول میں بسر کر سکے جبکہ بیرونی دنیا یہاں آکر کاروبار کرنا اور سیاحت کرنا باعث اعزاز سمجھے۔

۔ چلتے چلتے آخری بات کے طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں کی بندش کو فوری ختم کرے کیونکہ علم دشمن تو یہی چاہتے ہیں کہ تعلیمی ادارئے بند رہیں اس ضمن میں حکومت کو تعلیمی اداروں پر بے جا پابندیوں سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :