جیجا

بدھ 31 دسمبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

فوجی عدالتوں کا فیصلہ کھٹائی میں پڑتا جا رہا ہے ،دہشت گردی کے بھوت سے جان چھڑانے کے لیے تمام پارٹیاں جب سر جوڑے بیٹھیں تو فوج کی محبت میں سب نے ہاں کر دی تھی، اس لیے کہ بابا راحیل کے تیور خطر ناک تھے، لیکن اب ان سب کو خطرہ ہے کہ ایک بھوت سے جان چھڑانے کے چکر میں کہیں دوسرے بھوت کو گلے نہ لگا بیٹھیں ۔ اس لیے سیاست دانوں نے روایتی ٹال مٹول کی بنیاد رکھ دی ہے اور روایت یہ ہے جب وہ ایسی ٹال مٹول سے کام لیں تو معاملات کھٹائی میں پڑ جا یا کرتے ہیں۔

تجویز یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی جگہ فوری عدالتیں بنا دی جائیں، فوری بھی فوجی کے وزن پر ہے،اس کو زیادہ باوزن بنانے کے لیے ان عدالتوں کی نگرانی فوج سے کروائی جا سکتی ہے، نگرانی کی کوئی بھی شکل طے کر لی جائے گی، فوجی عدالتوں کی مخالت میں اٹھنے والی آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)


میاں حکومت اور میاں پارٹی بھی یہی چاہتی ہیں، لیکن دونوں کی خواہش ہے کہ کندھا کسی دوسرے کا ہو، اس کندھے کو اکسانے کے انتظامات کیے جارہے ہیں ،یہ کندھا عمران خان کا ہو سکتا ہے ، مضبوط کندھا ہے ، کندھے کی مضبوطی ظاہر کرنے کے لیے حکومت اور تحریک انصاف میں نورا کشتی گہری ہو سکتی ہے، اور بھی کئی کندھے ہو سکتے ہیں، چھوٹے چھوٹے کئی کندھے مل کر ایک بھاری بھر کم کندھا بھی بنایا جا سکتا ہے

####
27 دسمبر کو بی بی بے نظیر کی 7ویں برسی منائی گئی ، پارٹی کے اصلی چیر مین اور بی بی کے شوہر آصف زرداری اس برسی کے روح رواں تھے، بی بی کالاڈلا بلاول سائیں جس کو بی بی نے اپنے بعد پارٹی کا چیر مین بنانے کی مبینہ وصیت کی تھی ،وہ ابا سے روٹھ کے لندن جا بیٹھا ہے ، روٹھوں کو منانے کا ماسٹر بلاسٹر مسٹر اے رحمن ملک ناکام ہو گیا، پھر ماسٹر کا استاد بہ نفس نفیس گیا لیکن وہ بھی ناکام ہی ہوا،بلاول کس بات پہ روٹھا ہے ،اس بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں ،لیکن یہ بات یقینی ہے کہ بلاول سائیں پارٹی کا ربر اسٹیمپ چیر مین بننے پر راضی نہیں، جب کہ اس کے ابا حضور چاہتے ہیں سارا اختیار انہی کے پاس رہے ، اسی لیے تو انہوں نے بی بی کی وصیت کا انتظام کیا تھا اور بلاول زرداری کو بلاول بھٹو زرداری بنایا تھا، ورنہ لوگ جمع کرنے کے لیے تو بختاور اور آصفہ زیادہ کار آمد اور کلر فل تھیں، لیکن شادی کے بعد پارٹی ادھر کو چل پڑتی جدھر بلاول کا جیجا لے جاتا ،جیسے میر مرتضی کا ”جیجا “پارٹی کو لیے لیے پھرے ہے، بلاول کا کہنا ہے چوں کہ اسے بھٹو کا نام دیا گیا ہے اس لیے وہ بھٹو بن کے دکھانا چاہتا ہے ابا کی فرمائش ہے وہ دل سے زرادری بنے ، ہاں زبان سے 100بار بھٹو بنا رہے لیکن بیٹے کی خواہش ہے وہ ٹو ان ون رہے ،یعنی بھٹو بھی اور زرداری بھی ۔


خیر یہ تو رہا باپ بیٹے کا معاملہ اور مسئلہ لیکن پی پی کے لیے ایک بڑا مسئلہ مخدوم امین فہیم بھی ہیں، ان صاحب کو یہ ناز ہے کہ بی بی نے ان کو وزارت عظمی کے لیے نامزد کیا تھا، بی بی ان کو بہت چاہتی تھیں، اس لیے پارٹی ان کو دے دی جائے، لیکن زرداری صاحب اگر پارٹی ایم اے ایف کو دے دیں تو بھلا خود کیا کریں، جہاں تک چاہنے کا مسئلہ ہے تو بی بی تو بہت سوں کو عزیز رکھتی تھیں ،تو کیا ہر عزیز پارٹی کا چیر مین بن جاوے، عزیز تو زرداری صاحب بھی بہت سوں کو رکھتے ہیں مگر کیا ان سب کو چیر مین بنا دیں، نا بابا ایسا بھلا کیوں ہونے لگے۔


####
بھٹو کا نام بھی زندہ ہے ، بھٹو خود بھی زندہ ہے لیکن بھٹو کا خاندان زندہ نہیں ہے ، البتہ آصف زرداری خود بھی زندہ ہیں،ان کا خاندان بلکہ قبیلہ بھی زندہ ہے، اور خبر یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنے قبیلے کا سردار بننا چاہتے ہیں، زرداری صاحب کو نئی ٹوپی مبارک ہویہ ٹوپی کافی طاقت ور ہے، اور آصف زرداری کو اس وقت زیادہ سے زیادہ طاقت کی ضرورت ہے، کیوں کہ مخالفین میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ، اس لیے مقابلے کے لیے بہت سی ٹوپیاں ہونا ضروری ہیں۔


آصف زرداری جب صدر پاکستان تھے تب انہوں نے اپنے ابا کے مرحوم ہونے کے بعد بلاول کو سردار بنانے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا،لیکن یہ فیصلہ در اصل بیٹے کے دانت دیکھنے کے لیے تھا، بیٹے نے پارٹی کا با ضابطہ چیر مین بننے کے دانتوں کی نمائش کروائی تو گویا ابا حضور کے دانت کھٹے کر دیے اس لیے آصف زرداری نے پرانا فیصلہ واپس لے کر خود سردار بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی کی چیر مینی ہی بیٹے کو ہضم نہیں ہو رہی توابا کی موجودگی میں قبیلے کی سرداری بھلا کیوں کر ہضم ہو سکے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :